پی ٹی آئی حکومت کے ترجمان اور اس کی زبان فواد چودھری صاحب سوچے سمجھے بغیر ٹویٹر کے ذریعے فرمودات جاری کرتے رہے ہیں، کبھی موٹر سائیکل کی خریداری کو اِمارَت اور تموُّل کی علامت قرار دے کر لوگوں کی غربت کا مذاق اڑاتے ہیں اور اسے اپنی حکومت کا کارِ نمایاں قرار دیتے ہیں؛ چونکہ عوام کے مسائل ومصائب کا انہیں ادراک نہیں ہے، اس لیے اُن کے مفروضے اور معیارات بھی سب سے جدا ہیں۔ حال ہی میں برف باری کے نظارے دیکھنے کے لیے پنجاب سے بڑی تعداد میں لوگوں نے مری کا رخ کیا، اسے چودھری صاحب نے حکومت کے لیے سرمایۂ افتخار قرار دیتے ہوئے 5 جنوری کو ٹویٹ کیا:
''مری میں ایک لاکھ کے قریب گاڑیاں داخل ہو چکی ہیں‘ ہوٹلوں اور اقامت گاہوں کے کرائے کئی گنا اوپر چلے گئے ہیں‘ سیاحت میں یہ اضافہ عام آدمی کی خوشحالی اور آمدنی میں اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سال سو بڑی کمپنیوں نے 929 ارب روپے منافع کمایا، تمام بڑے میڈیا گروپس 33 سے 40 فیصد منافع میں ہیں‘‘۔ نسیم امروہی نے کہا ہے:
یہ انتظار نہ ٹھیرا، کوئی بلا ٹھیری
کسی کی جان گئی، آپ کی ادا ٹھیری
23 کروڑ کی آبادی میں فواد چودھری صاحب کے بقول‘ اگر ایک لاکھ افراد مری کا رُخ کریں تو یہ اس بات کی دلیل بن جاتا ہے کہ ساری پاکستانی قوم خوش حال ہو چکی ہے اور اُن کی آمدنی میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے۔ پس لگتا ہے کہ لوگ حکمرانوں کے گُن گا رہے ہیں، اُن کی تعریف میں رطب اللِّسان ہیں، بے روزگاری ختم ہو چکی ہے، عیش و عشرت اور مرفّہ الحالی کا دور دورہ ہے‘ وغیرہ۔ ان کے بقول ''اس سال سو بڑی کمپنیوں نے929 ارب روپے منافع کمایا ہے‘‘، اگر اُن کا یہ فرمان درست ہے تو انہیں یہ خبر سنانے کے بجائے قوم کو یہ بتانا چاہیے کہ کیا ایک ہزار ارب کے قریب منافع کا کوئی فیضان اُس مزدور طبقے اور ملازمین تک پہنچا، جن کی محنت شاقّہ اور خون پسینے کی کمائی سے صنعتکاروں اور تاجروں نے یہ منافع سمیٹا، دولت کے عدمِ ارتکاز اور تقسیم کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے اور اس کے لیے کون جوابدہ ہے؟ چودھری صاحب نے یہ بھی نہیں بتایا: ''ہوٹلوں اور اقامت گاہوں کے کرائے کو باضابطہ بنانا اور ریگولیٹ کرنا کس کی ذمہ داری ہے‘‘، الغرض عوام کا استحصال ہوتا رہا اور حکومت کے عمائدین اپنی ناکامیوں پر افسردہ اور ناگہانی اموات پر آزردہ ہونے کے بجائے شادیٔ مرگ کی کیفیت میں مبتلا رہے اور اسے اپنی کامیابی سے تعبیر کرتے رہے۔ فَیَااَسَفٰی وَیَا لَلْعَجَب!
جب محکمۂ موسمیات نے باد و باراں، برفباری کی شدت اور برفانی تودے گرنے کے بارے میں وارننگ جاری کر دی تھی، تو حکمران کہاں سوئے ہوئے تھے، انہوں نے کون سے احتیاطی اقدامات اور تدابیر اختیار کیں، اس کے آثار کہیں نظر نہیں آئے۔ مری کی جانب رواں دواں ٹریفک کو کنٹرول کرنا، گنجائش سے زیادہ گاڑیوں کو روکنا کس کی ذمہ داری قرار پاتی ہے اور طوفانِ باد و باراں، شدید برفباری اور سردی کی شدت کے نتیجے میں جو اموات ہوئیں، ان کے ظاہری اسباب کے لیے کون جوابدہ ہے، اتنی جانوں کے اتلاف کے بعد نوٹس لینا کیا معنی رکھتا ہے اور اس سے غمزدہ خاندانوں کو کیا ریلیف ملے گا؟ جس وقت لوگ مری میں موت سے ہمکنار ہو رہے تھے، اُس وقت وزیراعلیٰ پنجاب اور وفاقی وزیر تعلیم پارٹی کے تنظیمی اجلاسوں کی صدارت فرما رہے تھے۔ وزیراعظم جن مغربی جمہوری اقدار کی تعریف کرتے نہیں تھکتے‘ وہاں تو ایسے مواقع پر چند بیورو کریٹس کو ذمہ دار قرار دینے کے بجائے سیاسی قیادت کو جوابدہ ٹھہرایا جاتا ہے اور وہ استعفیٰ دینے اور منصب چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ 2014ء میں کنٹینر پر وزیراعظم صاحب پوری قوم کو یہی بھاشن دیتے رہے، لیکن جب اپنا اقتدار آیا تو ایک بھی ایسی روایت قائم نہ کر سکے، بلکہ اپنے سابقین کی طرح وہ اور اُن کے وزرا اقتدار سے چپکے رہے۔ جب ٹرین کے پے درپے حادثات ہو رہے تھے، تو اس وقت کے وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کہتے تھے: ''میں کیوں استعفیٰ دوں، میں کوئی ٹرین کا ڈرائیور ہوں‘‘۔ ایک ملکی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ رشید احمد کا یہ تبصرہ بھی محلِ نظر ہے: ''خیبر پختونخوا سے لوگوں کو مری آنے سے روک دیا جاتا تو یہ سانحہ نہ پیش آتا، ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ مری کا رخ کریں گے، آئندہ کے لیے منصوبہ بندی کرنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے، اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو کوئی کنٹرول نہیں کر سکتا‘‘۔ انسانی مسئلے کو ایڈریس کرنے کے لیے صوبائیت کا حوالہ دینا مناسب نہیں تھا، لوگ تو بڑی تعداد میں پنجاب سے گئے، نتھیاگلی مری سے زیادہ بلندی پر واقع ہے، اگر ایبٹ آباد کی جانب سے کسی کو برف باری دیکھنے کا شوق ہو تو اس کے لیے من پسند مقام نتھیاگلی اور دیگر گلیات ہونی چاہئیں، نہ کہ مری۔ وہ مری کیوں آئیں گے، اس کا سبب ہمیں معلوم نہیں ہے۔ نیز وزیر داخلہ کا یہ کہنا: ''اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو کوئی کنٹرول نہیں کر سکتا ‘‘، یہ حکومت کی طرف سے ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے ''ہینڈز اَپ‘‘ کرنے کے مترادف ہے۔ نیز انہوں نے کہا: ''آئندہ کے لیے منصوبہ بندی کی ذمہ داری حکومت کی ہے‘‘، اس کا مطلب یہ ہے: موجودہ سانحہ کے وقت یہ حکومت کی ذمہ داری نہیں تھی، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس کی ذمہ داری کیا عوام پر عائد کی جائے گی یا مصیبت زدگان اور موت سے دوچار ہونے والوں کو خود ذمہ دار قرار دیا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''(اے نبی!) کہہ دیجئے! وہی اس بات پر قادر ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے عذاب بھیجے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں مختلف گروہوں میں بانٹ کر ایک دوسرے سے بھِڑا دے اور تمہارے بعض کو بعض سے لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھئے! ہم کس طرح نشانیاں بیان کرتے ہیں تاکہ یہ سمجھیں‘‘ (الانعام: 65)۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عذاب کی مختلف صورتیں بیان فرمائی ہیں، یہ قدرت کی طرف سے تنبیہات ہوتی ہیں تاکہ لوگ سرکشی سے باز آ جائیں، معصیت سے پلٹ کر اطاعت کی طرف آئیں۔ مفسرینِ کرام نے بیان کیا: اوپر سے عذاب کی ایک صورت طوفانی بارشیں، برفباری، ہولناک آندھیاں، بجلی کی کڑک اور چنگھاڑ ہے جسے قرآنِ مجید میں ''صَیحَۃٌ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ موسم کی شدت اور حِدّت بھی ایک صورت ہو سکتی ہے اور نیچے سے عذاب کی صورت سیلاب ہیں، زلزلے ہیں، موجودہ وائرس کی مختلف اقسام کی طرح اچانک پھوٹ پڑنے والی مُہلک بیماریاں ہیں، جیسے ماضی میں مختلف انبیائِ کرام علیہم السلام کی امتوں پر طرح طرح کے عذاب نازل ہوئے۔ قومِ نوح، قومِ ہود، قومِ شعیب، قومِ صالح، قومِ لوط اور قومِ موسیٰ علیہم السلام پر عذاب کا تفصیلی بیان قرآنِ مجید میں مذکورہے۔
نظامِ حکومت کا زعمِ پارسائی، ضُعف، ابتری، فساد، انتشار، لاقانونیت اور ظلم وعُدوان کا دور دورہ ہونا بھی ایک صورتِ عذاب ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ''اوپر کے عذاب سے مراد یہ ہے کہ ظالم اور بے رحم حکمران مسلَّط ہو جائیں گے اور نیچے کے عذاب سے مراد یہ ہے کہ ماتحت ملازمین بے وفا، غدار، کام چور اور خائن ہو جائیں گے‘‘۔ حدیثِ پاک میں فرمایا: ''جیسے تم ہو گے، ویسے ہی تم پر والی اور حکمران مسلط کر دیے جائیں گے‘‘ (مسند الشہاب القضاعی: 577)۔ عربی کا مشہور مقولہ ہے: ''تمہارے اعمال ہی تم پر حاکم ہیں‘‘۔ حضرت سفیان ثوریؒ نے فرمایا: ''جب میرے ماتحت اور خدام میری نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو مجھے احساس ہوجاتاہے کہ مجھ سے کوئی خطا سرزد ہو گئی ہے‘‘۔
کسی صاحبِ اقتدار کے وزرا، مشیروں اور مصاحبین کا صداقت شِعار اور مخلص ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیبی تائید کی علامت ہے اور ان کا برا ہوناحاکم کے لیے تائیدِ الٰہی سے محرومی کی علامت ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے: ''جب اللہ تعالیٰ کسی حاکم کے لیے خیر کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے لیے صداقت شِعار وزیر مقدر فرما دیتا ہے تاکہ اگر اُس سے بھول ہو جائے، تو یہ اسے یاد دلا دے اور اگر اُسے اپنی ذمہ داری یاد ہو تو یہ اُس کی مدد کرے اور اگر اللہ تعالیٰ کسی حاکم کے لیے برائی کا ارادہ فرماتا ہے تو کسی برے شخص کو اس کا وزیر بنا دیتا ہے کہ اگر حاکم سے کسی اہم معاملے میں بھول ہو جائے، تو یہ اسے یاد نہیں دلاتا اور اگر حاکم کو اپنی ذمہ داری یاد ہو تو یہ اس کی مدد نہیں کرتا‘‘ (ابوداؤد: 2925)۔
عادل حکمران اللہ تعالیٰ کی زمین پر اُس کے بندوں کے لیے اُس کی غیر معمولی نعمت اور برکت کی علامت ہے اور حاکم کا ظالم و جابر ہونا عذاب کی صورت ہے۔ حدیثِ پاک میں فرمایا: (1) ''تمہارے بہترین حکمران وہ ہیں کہ تم ان سے محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں، تم اُن کے لیے دعا کرو کہ ان کے اقتدار کو دوام ملے اور وہ تمہارے لیے دعا کریں اور تمہارے بدترین حاکم وہ ہیں کہ تم اُن سے نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں، تم اُن پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں‘‘ (صحیح مسلم: 1855)، (2) ''جب تمہارے حاکم تمہارے بہترین لوگ ہوں اور تمہارے مال دار سخی لوگ ہوں اور تمہارے اجتماعی معاملات باہمی مشاورت سے طے ہوتے ہوں، تو تمہارا زمین کے اوپر رہنا تمہارے لیے زمین کے اندر جانے سے بہتر ہے، (یعنی ایسی اجتماعی زندگی اللہ کی نعمت ہے) اور جب تمہارے حاکم تم میں سے برے لوگ ہوں اور تمہارے مال دار بخیل ہوں اور تمہارے معاملات عورتوں کے ہاتھ میں چلے جائیں، تو تمہارے لیے زمین کے اوپر رہنے سے زمین کے نیچے چلے جانا بہتر ہے‘‘ (سنن ترمذی: 2266)، یعنی ایسی اجتماعی زندگی عذاب ہے۔
سوشل میڈیا پر یہ خبریں بھی گردش کر رہیں کہ مری میں ہوٹل مالکان نے عوامی المیے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے کرایوں میں غیر معمولی اضافہ کر دیا، اس کے برعکس دینی و مذہبی طبقے نے انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشکلات میں گھرے مری کے سیاحوں کی مدد کے لیے اپنے مدارس اور مساجد کو کھول دیا اور انہیں دستیاب وسائل کے اندر خدمات فراہم کیں، یہ ایک اچھی علامت ہے۔