حدیثِ پاک میں ہے:’’لوگوں کی مثال کانوں (mines) کی سی ہے، جیسے سونے اور چاندی کی کانیں ہوتی ہیں ،اِن(اہلِ عرب)میں سے جو زمانۂ جاہلیت میں کسی بھی انسانی خوبی کے حامل تھے، تووہ دین کا کامل فہم حاصل کرنے (اور مکتبِ نبوت میں تربیت پانے)کے بعد اسلام میں بھی انسانی کمالات کا مظہر بنے‘‘۔(مسند احمد :10956)۔رسول اللہﷺ نے انسان کی جبلّت (Nature)اور فطری استعداد (Talent)کو کان سے تشبیہ دی۔۔۔۔۔ جیسے سونے ، چاندی ، لوہے اور کوئلے کی کان ہوتی ہے ،اسے ہم بشریت کی امکانی اِستعداد وصلاحیت (Potential Ability)سے تعبیر کرسکتے ہیں اور شریعت میںاسے’’ تَصَلُّب فی الدین‘‘( دین میں مضبوطی اور پختگی )سے تعبیر کیا جاتاہے، یعنی حق کی حمایت میں ڈٹ جانا، جم جانا اور پائے ثبات میں لغزش نہ آنا ۔ یہ ایک اعلیٰ انسانی قدر ہے، تعصُّب اس سے مختلف صفت ہے جس کی حدیثِ پاک میں مذمت آئی ہے۔ آپ ﷺ نے عصبیت کی شدید مذمت کرتے ہوئے فرمایا:’’ جس نے عصبیت پر برانگیختہ کیا، وہ ہم میں سے نہیں ہے، جس نے عصبیت پر جنگ کی وہ ہم میں سے نہیں ہے اور جو عصبیت پر قائم رہتے ہوئے مرا ،وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔(سنن ابوداؤد:5080)۔تو صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ!ایک شخص اپنی قوم سے محبت کرتاہے،کیا یہ بھی عصبیّت ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:نہیں (اپنی قوم سے محبت کرنا عصبیّت نہیں ہے)، بلکہ عصبیّت یہ ہے کہ کوئی شخص ظلم پر اپنی قوم کی حمایت کرے‘‘۔(سنن ابن ماجہ:3949)یعنی حق اور باطل کی تمیز کے بغیر اپنی قوم، قبیلے ،گروہ یا مکتبۂ فکر کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہونا اور فساد پر آمادہ ہوجانا ’’عصبیّت‘‘ ہے۔ اللہ عزّوجلّ نے فرمایا: ’’جب کافروں نے اپنے دلوں میں تعصُّب کو جگہ دی جو جہالت (ہٹ دھرمی اور کٹ حجتی) پر مبنی تھا۔‘‘ (الفتح:26)اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’گناہ اور حق سے تجاوز (یعنی ظلم) میں ایک دوسرے کی مددنہ کرو۔‘‘ (المائدہ:2)۔ اور عہدِ جاہلیت کی انہی عصبیّتوںکے بتوں کو پاش پاش کرنے کے لئے ختم المرسلین سیدنا محمد رسول اللہﷺ تشریف لائے اور آپؐ نے فرمایا:’’سنو! میں جاہلیت کے تمام نسلی و نسبی تفاخر اور نسل در نسل جاری رہنے والے خونی انتقام اور مالی مطالبات کو اپنے قدموں تلے روند رہا ہوں‘‘(سنن ابوداؤد:4536)۔ سونا صرف سونے کی کان سے نکلتاہے اور ہیرے جواہرات بھی کانوں ہی سے نکلتے ہیں ، مگر سونے کوخالص بنانے کے لئے بھٹی سے گزارا جاتاہے اور ہیرے کو تراشا جاتاہے۔الغرض جن انسانوں میں فطری کمالات تھے، کردار کی خوبیاں تھیں ، شَجاعت ، سخاوت ، عِفّت(Piety)، اولوالعزمی اور نظریے اورعقیدے کی پختگی تھی ، جب یہ لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے تو نبوت کی تعلیم وتربیت اور تزکیے سے اُن کی تمام انسانی خوبیاں جو کبھی عداوتِ اسلام اور کفرکی حمایت کے لیے کام آتی تھیں ، اب وہ حق کی سربلندی اور باطل کو مٹانے کے لئے کام آئیں۔ رسول اللہﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی باطنی صلاحیتوں اور اُن کے ذاتی جوہر کے بارے میں آگہی عطا فرمائی تھی؛ چنانچہ آپﷺ نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! عمربن خطاب اور عمر (ابوجہل) بن ہشام میں سے جو تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے، اس کے ذریعے اسلام کو غلبہ عطا فرما‘‘۔ راوی کہتے ہیں: حضرت عمر کے اسلام قبول کرنے سے معلوم ہواکہ اﷲعزّوجلّ کے نزدیک اس کی بارگاہ میں سب سے محبوب عمر بن خطاب ہی تھے۔‘‘(سنن ترمذی:3686)۔ اسی لئے بجا طور یہ کہا جاتاہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ مطلوبِ رسولؐ اور مرادِ رسولؐ تھے۔ پس جب حضرت عمر بن خطاب اسلام لے آئے تو آپ کے اسلام سے مُشرَّف ہونے کے بعد مسلمانوں نے پہلی بار بیت اللہ شریف میں کھلے عام نماز پڑھی۔ ماہرینِ سیرت نے بتایا ہے کہ آپ چالیسویں مسلمان تھے اور آپ کے اسلام قبول کرنے کے موقع پر یہ آیت نازل ہوئی:’’اے نبی ! آپ کو اﷲکافی ہے اور آپ کے پیروکار مومنوں کی (یہ جماعت)‘‘(انفال:64)۔ نبیِ کریمﷺ نے فرمایا:(1) ’’اے عمر! تم جس راستے پر چلتے ہو،شیطان تمہیں دیکھ کر اپنا راستہ بدل دیتا ہے۔‘‘ (بخاری:3683) یعنی شیطان تمہارا سامنا نہیں کرسکتا۔ (2)’’اللہ تعالیٰ نے عمر کے دل اور زبان پر حق کو جاری فرمادیا۔‘‘ (سنن ترمذی:3682)۔ (3)تم میں سے پہلی امتوں میں ایسے (مردانِ کمال)ہوتے تھے جن کے قلب پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کلمۂ حق کا اِلقاء ہوتاتھا، پس اگر میری امت میں کوئی خوش نصیب اس منصب کا حامل ہے تو وہ یقیناً عمر ہے۔‘‘(صحیح مسلم :6199) حضرت عمرؓ کے کردار کا یہی امتیاز ان کی ہجرت کے وقت بھی نکھر کر سامنے آیا۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:’’ مجھ سے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا میرے علم کے مطابق مہاجرین میں سے حضرت عمر کے سوا ہر شخص نے چھپ کر ہجرت کی ہے، حضرت عمر نے جب ہجرت کا قصد کیا تو انہوں نے تلوار لٹکائی ، تیر اور کمان اپنے ہاتھ میں لئے اور نیزہ سنبھال کر کعبہ کی طرف گئے، اس وقت قریش کی ایک جماعت صحن کعبہ میں بیٹھی ہوئی تھی، حضرت عمر نے کعبہ کے گرد سات چکر لگائے اور مقامِ ابراہیم پر دورکعت نماز پڑھی، پھر قریش کے ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر کہا :جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس پر اس کی ماں روئے، اس کے بچے یتیم ہوں اور اس کی بیوی بیوہ ہو جائے ،وہ اس وادی(یعنی حدودِ حرم) کے باہر آکر مجھ سے مقابلہ کرلے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: کسی شخص نے حضرت عمر کا پیچھانہیں کیااور بعض معمر لوگوں نے قریش کو سمجھایا اور نصیحت کی۔ حضرت براء بن عازب بیان کرتے ہیں کہ سب سے پہلے مہاجرین میں سے ہمارے پاس حضرت مصعب بن عمیر آئے ، پھر حضرت ابن ام مکتوم (نابینا) آئے ، پھر بیس سواروں کے ساتھ حضرت عمر آئے ، پھر حضرت ابوبکر کے ساتھ رسول اللہﷺ تشریف لائے۔‘‘ (اُسُدُالغابہ، جلد:4،ص:58-59) اب ذرا اس پسِ منظر پر غور کیجئے جس میں آفتاب اسلام طلوع ہوا، جہاں نسلی تفاخر ، خاندانی عصبیت ، نسل درنسل خونی انتقام کا سلسلہ جاری تھا، سب لوگوں کی نَس نَس اور رگ وپے میں ’’حَمیّۃ الجاہلیّہ‘‘ رچی بسی تھی اور حق وباطل میں امتیاز کاکوئی تصور نہیں تھا، بلکہ صورتِ حال یہ تھی کہ جب ابوجہل سے سوال ہوا کہ( محمد ﷺ) کی دعوت کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ تو اس نے جواب دیا:’’حقیقت یہ ہے کہ سیادت وقیادت میں بنو عبدِمناف (رسول اللہ ﷺ کے جدِّ اعلیٰ)سے ہماراہمیشہ مقابلہ رہا، انہوں نے دستر خوان وسیع کیا تو ہم نے بھی بڑھ چڑھ کر مقابلہ کیا، انہوں نے لوگوں کی ذمّے داری کا بار اٹھا یا تو ہم بھی پیچھے نہ رہے، انہوں نے داد ودہش کا مظاہرہ کیا تو ہم نے بھرپور مقابلہ کیا، یہاں تک کہ جب ہم دونوں (بنوعبدِمناف اور بنومخزوم)ریس کورس کے دو نامی گرامی گھوڑوں کی طرح برابر کی ٹکر کے ہوگئے تواچانک انہوں نے کہا کہ ہم میں ایک نبی پیدا ہوگیا اوراُس پر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے تواب اس میدان میںہم کیسے مقابلہ کریں، بخداہم ان پر کبھی ایمان نہیں لائیں گے اور کبھی اس کی تصدیق نہیں کریں گے۔‘‘ (یعنی ایسا کرنے سے تو ہماری ناک کٹ جائے گی، قریش میں ہماری سیادت چھن جائے گی اور ان کا پرچم بلند ہوجائے گا)، (سیرت ابن ہشام ،جلد:1،ص:337-338) رسول اللہﷺ کے نسبِ پاک میں آٹھویں پُشت پر حضرت کعب بن مالک آتے ہیں،اُن کے صاحبزادگان میں سے حضرت مُرّہ رسول اللہ ﷺ کے جَدِّ اعلیٰ تھے اور اُن کے بھائی عَدِی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے جَدِّ اعلیٰ تھے ۔خاندان قریش کے مختلف بُطون میں مختلف ذیلی شاخیں تھیں جنہیں عربی زبان میں ’’جِیل‘‘ (Race)کہتے ہیں اور پنجابی زبان میں’’پَوت‘‘ کہتے ہیں،ان ذیلی شاخوں میں قریش کے اجتماعی نَظم(Social Structure)کے مختلف مناصب موروثی طور پر چلے آرہے تھے۔’’بنو عَدِی‘‘ کے خاندان میں سفارت کاری اور منافرہ کا مَنصَب (Office Position)اور قبائلی تنازعات کو طے کرنے کا منصب چلاآرہاتھا ،جیسے آج کل ہماری قبائلی نظام میں جرگہ سسٹم ہے۔یہ مَنصب جن خصوصیات کا مُتقاضی تھا،ان میں نسب دانی ،فیصل اورحَکَم (Arbiter)بننے کی استعداد اورقائدانہ صلاحیت کاحامل ہونا لازمی تھا۔ خاندانی تَفاخر میں شاعری بھی اہم عنصرتھا اور جسمانی استعداد بھی لازمی تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان تمام خصوصیات کے بدرجۂ اَتَمّ حامل تھے ۔ آپ عُکاظ کے سالانہ میلے میں پہلوانی میں بھی حصہ لیتے تھے اور شہسواری میں آپ کی مہارت کا عالَم یہ تھا کہ دوڑتے ہوئے گھوڑے پر سوار ہوتے اور اُسے قابو کرلیتے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اِن خصوصیات کا تذکرہ میں نے اِس لئے کیاکہ ’’فاروق ‘‘ (حق وباطل کی کسوٹی) بننے کے لئے جو شخصی خصوصیات اعلیٰ درجے میں مطلوب ہوتی ہیں، وہ ان کے حامل تھے۔ (جاری)