کائنات میں سنتِ الٰہیہ یہ ہے کہ ہر ادنیٰ چیز اعلیٰ چیز پر قربان ہو کر خود کو فنا کر دیتی ہے اور اُس اعلیٰ چیز میں اسے ایک نئی حیات مل جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین میں یہ صلاحیت رکھی ہے کہ پانی کے ساتھ مل کر اُس میں روئیدگی اور نُمُو(Growth) کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں اِسے زمین کی حیات سے تعبیر فرمایا گیا ہے:’’اور اُس کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ (اے مخاطَب!)تو زمین کو خشک اور بنجر دیکھتاہے ، پھر جب ہم اُس پر (بارش کا) پانی نازل کرتے ہیں تو وہ تروتازہ ہو کر لہلہاتی ہے، بے شک جس نے (غیرآباد) زمین کو زندہ کیا ہے، وہی (قیامت کے دن) مردوں کو زندہ کرے گا‘‘۔(حم ٓ السجدہ:93) یعنی زمین سے غذا حاصل کرکے نباتات واَشجار پروان چڑھتے ہیں:’’بے شک اللہ ہی (بیج کے) دانے اور (تخم کی) گٹھلی کو پھاڑنے والا ہے، وہ زندہ کو مردے سے نکالتاہے، (جیسے انڈے سے چوزہ) اور مردے کو زندہ سے نکالتا ہے (جیسے مرغی سے انڈا)‘‘۔ (انعام:95) ’’اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، پھر ہم نے اُس سے ہرقسم کی نباتات اُگائی اور ہم نے اُس سے سرسبز کھیت اور درخت پیداکئے ،پھر ہم نے اُن سے تہ بہ تہ لگے ہوئے دانے اور کھجور کے شگوفوںسے پھلوں کے گچھے پیداکئے جو جھکے پڑتے ہیںاور(اِسی طرح ہم نے) انگوروں اور زیتون اور انار کے باغ اُگائے جو باہم ملتے جلتے بھی ہیں اور مختلف بھی ،جب یہ درخت پھل لائیں توذراان کے پھل اور اُس کے پکنے کی طرف دیکھو‘‘۔ (انعام:99) نباتات اپنے آپ کو فنا کرکے حیوانات کی غذا بنتی اور نباتات وحیوانات (اپنے آپ کو فنا کرکے) انسان کی غذا بنتے ہیں؛چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور وہی ہے جس نے سمندر کو مسخّر کردیا تاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھائو‘‘۔(النمل:14) اسی طرح قرآن مجید میں شرعی حدود وقیود کے ساتھ چوپایوں اور پرندوں کے شکار کے حلال ہونے کا بیان ہوا۔ الغرض، یہ نظامِ قدرت ہے کہ جمادات اپنے وجود کو فنا کرکے نباتات کی غذا بنتے ہیں اور نباتات حیوانات کی غذابنتے ہیںاور جمادات ، نباتات ، حیوانات الغرض تمام اشیاء وجودِ انسانی کا جزبن جاتی ہیں۔فنا وبقا کے اس راز کو اس شعر میں منظوم کیاگیاہے: مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے کہ دانہ خاک میں مل کر گل وگلزار ہوتاہے احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا: کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا تو پھر انسان کو بھی اگر حیاتِ ابدی اور بقا چاہیے تواُسے سب سے برتر اور سب سے اعلیٰ ہستی کے نام پر اپنے وجود کو فنا کرنا ہوگا، جو اس کے وجود اور پوری کائنات کی خالق ومالک ہے۔ اگر انسان بقائے دوام کے اِس راز کو پالے تو موت اُس کا مطلوب اور محبوب بن جاتی ہے، ورنہ وہ موت سے بھاگتا ہے اور موت اُس کا تعاقب کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :’’تم جہاں کہیں بھی ہو،(اپنے مقررہ وقت پر) موت تم کو آپہنچے گی، خواہ تم مضبوط قلعوں میں (قلعہ بند) ہو‘‘(النساء:78)۔ حیاتِ ابدی کی معراج شہادت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (1)’’اور (اے مومنو!) جو اللہ کی راہ میں قتل کردیے جائیں ، انہیں مردہ نہ کہو، بلکہ وہ (درحقیقت ) زندہ ہیں ، لیکن تمہیں اُن کی زندگی کا شعور نہیں ہے‘‘۔(بقرہ:154)، (2)’’اور جو اللہ کی راہ میں قتل کردیے جائیں ، انہیں مردہ گمان نہ کرو ، بلکہ (حقیقت میں ) وہ زندہ ہیں اور اپنے رب سے رزق پاتے ہیں‘‘(آل عمران: 14) ۔ ان ارشادات باری تعالیٰ پر غور کیجئے کہ:’’اُنہیں قتل کردیا گیا‘‘ یعنی عام طبی معیار کے مطابق ظاہری طور پر وہ مرگئے، اُن کی نماز جنازہ پڑھ لی گئی،تدفین کے مراحل مکمل ہوگئے ،اگرشادی شدہ تھے تو ان کی بیویاں عدتِ وفات گزاریں گی، اگر اُن کا کچھ ترکہ ہے تو وارثوں میں تقسیم ہوجائے گا، یعنی دنیاوی اعتبار سے اُن پر موت کے سارے احکام جاری ہوگئے، لیکن اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جو تمہاری نظروں کے سامنے مرگیا، اُس پر موت کے تمام قوانین جاری ہوگئے، مگر خبردار!نہ اسے زبان سے مردہ کہو اور نہ ہی اسے اپنے دل ودماغ کے کسی گوشۂ خیال میں مردہ گمان کروکیونکہ جو اللہ کی راہ میں اُس کی رضااور اُس کے دین کی سربلندی کے لئے موت کو گلے لگا چکے ہیں ، اِس عارضی موت کے صلے میں انہیں حیات ِدَوَام نصیب ہوگئی ہے۔اس ’’قتل فی سبیل اللہ‘‘ کی تفصیل حدیث پاک میں ہے۔رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا: ’’ایک شخص شَجاعت کے جوہردکھانے کے لئے لڑتا ہے، ایک شخص (اپنے قبیلے ، خاندان اور گروہ کی) عصبیت کے لئے لڑتاہے ، ایک شخص ناموری (اور شہرت) کے لئے لڑتا ہے،(یارسول اللہﷺ) اِن میں سے ’’فی سبیل اللہ‘‘ کون ہے؟، آپ ﷺ نے فرمایا:(صرف وہ) ’’فی سبیل اللہ‘‘ہے جو (محض) اس لئے لڑا کہ اللہ کا کلمہ (یعنی اللہ کا دین) غالب ہوجائے‘‘ (صحیح مسلم:4914)۔ سورۂ العادیات کی ابتدائی پانچ آیات میںمجاہدجس گھوڑے پر سوار ہو کر میدانِ جہاد میں کفر کے مقابل لڑتا تھا، اﷲتعالیٰ اُس گھوڑے کے ہانپتے ہوئے دوڑنے ، سموں سے چنگاریاں نکالنے ،علی الصباح دشمن پر حملہ کرنے، قدموں کی تھاپ سے غبار اڑانے اور دشمن کی صفوں میں گھس جانے،الغرض اُس گھوڑے کی سب اداؤں کی قسم فرماتاہے ،تو ذراسوچیے کہ جب مجاہد کا گھوڑا اللہ تعالیٰ کو اتنا محبوب ہے تو بارگاہِ اُلوہیت میں خود مجاہد کی محبوبیت کا عالم کیاہوگا ۔ اِسی ’’مقتول فی سبیل اللہ ‘‘ کو قرآن ،حدیث اور فقہ کی اصطلاح میں شہید کہاجاتاہے۔ شہید کا درجہ اس لئے بلند ہے کہ وہ اپنی سب سے قیمتی متاع ،متاعِ حیات کو راہِ خدا میں قربان کردیتاہے۔علامہ اقبال نے کہتے ہیں: برتراز اندیشۂ سودوزیاں ہے زندگی ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی یعنی حقیقت حیاتِ دنیاوی سود وزیاں کے تصور سے بالاتر ہے، کبھی جاں کا سلامت رہنا زندگی کہلاتاہے اور کبھی جان کو ’’جاں آفریں‘‘ کے سپرد کرنے کا نام حیات ہے ،بلکہ حیاتِ دوام ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے قتل فی سبیل اللہ (یعنی شہادت) کو اپنی پسندیدگی کی معراج عطاکرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اگرمیری اُمّت پر دشوار نہ ہوتا تو میں کسی سَرِیَّہ (مجاہدین کی چھوٹی مُہمّات) سے بھی پیچھے نہ رہتا اورمیری تو تمنا ہے کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ، پھر زندہ کیاجاؤں ،پھر قتل کیاجاؤں ،پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیاجاؤں‘‘۔(صحیح بخاری:36)اس حدیث پاک میں رسول اللہﷺ نے اپنی تمنا کا اختتام شہادت پر فرمایاہے لیکن چونکہ اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کی حفاظت کا وعدہ فرمایاتھا،اس لئے آپ کی شہادت ممکن نہ تھی،مگر آپ نے شہادت کی تمنا فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو سِرّی شہادت نصیب فرمائی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ بیان کرتے ہیں کہ حسن (رضی اللہ عنہ )کے جسم کا بالائی حصہ یعنی سینے سے سر تک اور حسین( رضی اللہ عنہ) کے جسم کا زیریں حصہ رسول اللہ ﷺ کے جسمِ مبارک سے زیادہ مشابہ تھا‘‘۔(سُنن ترمذی:3779)اوررسول اللہ ﷺ کے یہ دونوں شہزادے شہید ہوئے اوران کی شہادت کو بعض علمائے کرام نے رسول اللہ ﷺ کی سِرّی اور معنوی شہادت سے تعبیر کیاہے ۔ آپ ﷺ نے اسی لئے فرمایاتھا کہ سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا میرے وجود کا حصہ ہے اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے بارے میں فرمایا: ’’یہ دونوں میرے جنت کے پھول ہیں ‘‘،اور آپ ﷺ کایہ بھی فرمان ہے : ’’حسین مجھ سے ہیں اورمیں حسین سے ہوں‘‘۔ارشاد نبوی ﷺ کے یہی معنی مراد لئے گئے ہیں کہ امام حسین رضی اللہ عنہ میرے نسب سے ہیں اورمیرے کمالات کا ظہور حسین سے ہوگا ۔اورظاہر ہے کہ اِن فیوض وکمالات ِنبوت میں سے ایک شہادت بھی ہے: جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا یعنی میں نے اپنی متاع عزیز یعنی جان توبلاشبہ جاںآفریں کے سپرد کردی ،لیکن حق تویہ ہے کہ اس سے بھی حق ادانہیں ہوا،کیونکہ یہ جان تو اسی خالق ومالک کی دی ہوئی امانت تھی جو میں نے اُسے لوٹا دی ۔بندے کاکمال تویہ ہوتاکہ ایک جان کے بدلے میں سوجانیں نچھاور کرتا مگر وہ کہاں سے لاتا،حیات وموت کا خالق تو وہی ہے ۔