امریکہ کی مخالفت میں ہم کس حد تک جاسکتے ہیں اور کس حد تک جاناچاہئے، یہ اس وقت کا ایک اہم سوال ہے۔ امریکہ کا ساتھ دینے ، حامی بننے اور تزویری شراکت دار (Strategic Partner)بننے کے لیے فضا ناسازگارہے، البتہ امریکہ کی مخالفت عوامی سطح پر ایک مقبولِ عام اور پُرجوش نعرہ ہے اور اس موقف کی حمایت میں دلائل کا ایک انبار ہے جس میں حقیقت بھی ہے اور یہ جذبات کو اپیل بھی کرتاہے۔
اس کے برعکس قومی میڈیا میں ہمارے لبرل دانشور، اینکرپرسن اورکالم نگار نہایت اصرار اور تکرار کے ساتھ اس موقف کو بیان کرتے ہیں کہ امریکہ کی مخالفت ہم برداشت نہیں سکتے، ہماری معیشت میں اتنی سکت نہیں ہے، بین الاقوامی تجارت کاتوازن ہمارے حق میں نہیں ہے، یعنی ہماری درآمدات کی مالیت ہماری برآمدات سے بہت زیادہ ہے اور بین الاقوامی قرضوں کی ہرسال کی واجب الادااقساط کا حجم بہت زیادہ ہے اور یہ ہماری معیشت کا وہ شعبہ ہے جس سے ہم محض نوٹ چھاپ کر عہدہ برا نہیں ہوسکتے اور روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ سے اس شعبے پر دباؤ روز بروز بڑھ رہا ہے۔ اس طبقے کو ہم امریکہ نواز، مغرب نواز ، غلامانہ ذہنیت کے حامل یا سی آئی اے وغیرہ کا ایجنٹ کہہ کر اپنی نفسیاتی تسکین تو کرسکتے ہیں لیکن اس سے مسئلہ حل نہیں ہوپاتا۔
کوئی بھی ملک امریکہ میں اپناتاثر بہتر بنانے اور اپنے لیے وہاں کے ارکان کانگریس ،مجالس مفکرین(Think Tanks) اور ملکی فیصلوں اور پالیسیوں پر اثرانداز ہونے والے افراد کو اپنے موقف کے حق میں نظریاتی طور پر ہموار کرنے کے لیے Lobbyingکرسکتاہے اور واشنگٹن میں باقاعدہ Lobbyist Firmsموجود ہیں۔ ماضی میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے بارے میں فضا ہموار کرنے کے لیے مارک سیگل کی فرم کی خدمات حاصل کی تھیں، لیکن ہمارے ملک میںاس طرح کاکوئی قانونی نظام موجود نہیں اس لیے ہوسکتاہے کہ بیرونی ایجنسیاں مخفی طور پرافرادکی خدمات حاصل کرتی ہوں۔ یہ باتیں ہمارے ہاں بدگمانی کی حدتک رہتی ہیں،ہم قرائن کی بنا پرکوئی رائے قائم کرتے ہیں جس کا پایۂ ثبوت کوپہنچنا مشکل ہوتا ہے۔ پھر ہمارا جوسالانہ بجٹ بنتا ہے،اس میں آمد وخرچ میں کم ازکم 25تا30فیصدکا فرق(Gap)ہوتاہے،مالیاتی تخمینوں میں محصولات کے اَہداف بھی پورے نہیں ہوتے اوراخراجات کی مدوںمیں مقررہ حد سے تجاوز ہوتاہے، اس لیے ہرسال قومی اسمبلی سے آئندہ سال کا بجٹ منظور کرانے کے ساتھ ساتھ گزشتہ سال کا ضمنی بجٹ بھی منظور کرایا جاتاہے، لہٰذا قرضوں کی اقساط اداکرنے کے لیے مزید قرضے لینے پڑتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین اورسعودی عرب سمیت کوئی دوست ملک ادائیگی کے توازن میں کمی پوری کرنے کے لیے ہمیں نقد زرِمبادلہ دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ چین صرف اپنی ترجیحات پر منصوبہ جاتی سرمایہ کاری کرتاہے اور اس قرض کی ادائیگی بھی ہم پر عائد ہوتی ہے۔ ہمارے مالیاتی توازن کو قائم رکھنے یا خسارے سے نکلنے کے لیے صرف امریکہ اوراس کے کنٹرول میں قائم مالیاتی ادارے آئی ایم ایف اور عالمی بنک وغیرہ رہ جاتے ہیں اور امریکہ نے یہ لَت ہمیں شروع سے لگارکھی ہے ۔لبرل ماہرین کے مطابق ہمارے پاس اس کاکوئی متبادل نہیں ہے، لہٰذاجو بھی حکومت آتی ہے،اُسی آستانے پر جبیں سائی کرتی ہے۔
پروفیسر خورشید احمدمعاشی امور میں بڑادَرک رکھتے ہیں، میں نے ان کی تحریرکافی توجہ سے پڑھی، ان کی بیان کردہ باتیں درست ہیں، اپیل بھی کرتی ہیں، کیونکہ امریکہ 1990-91ء سے عراق پر پہلی یلغار کے بعد عالَم اسلام کو روند رہا ہے، جمہوریت کو مسلم ممالک میںپنپنے نہیں دے رہا، مصر میں جمہوری طریقے سے منتخب صدر ڈاکٹر مرسی کو چلتا کیا اور سعودی عرب کو جنرل سیسی کا پشتیبان بنادیا۔ افغانستان اور پھر عراق پر دوبارہ حملہ کرکے من پسند حکومت قائم کی اور افغانستان پر یلغار کی سب سے بھاری قیمت پاکستان کوادا کرنی پڑرہی ہے۔ حقوقِ انسانی کی پامالی ، پاکستانی سرحدوں کی تقدیس کی پامالی اور دوسرے تمام حوالے درست ہیں۔
یہ بھی درست ہے کہ امریکہ اور مغرب میں ایک طبقہ عالمی سطح پرامریکی پالیسیوں سے اتفاق نہیںکرتا۔اسی بناپرشام پرامریکہ کا حملہ موقوف کرنا پڑا اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سب کچھ طے شدہ اسکرپٹ کے مطابق ہوا ہو۔ایران کے ساتھ مفاہمت کے بعد پاکستان پر امریکہ کا انحصار کم ہوگااوراسے افغانستان کوکنٹرول کرنے اور وسطی ایشیا تک زمینی رسائی کے لیے ایک متبادل ذریعہ مل جائے گا، مگر سوال یہ ہے کہ آیا پاکستان کے پاس امریکہ کی اقتصادی غلامی سے نکلنے کے لیے بھی کوئی متبادل ہے؟یہاں حال یہ ہے کہ حکومت کا خزانہ خالی ہونے کے باوجودقوم آسائشوں اورراحتوں کی طلب گار ہے اور بحیثیتِ مجموعی سیاست دان قوم کے سامنے سچ نہیں بول رہے، نہ ہی قوم کو حقائق سے آگاہ کرکے مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیارکررہے ہیں ،ان کی اولین ترجیح حکومت وقت یا ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ہوتاہے۔ہم بیرونی زرمبادلہ کی بھاری مقدار میک اپ کے سامان، اشیائے تعیش( جن میں گھریلو ڈیکوریشن کے سامان سے لے کر انتہائی پرتعیش (Luxurious)گاڑیاں ہیں)اورامراء کے بنگلوں کے لیے قیمتی سامان آرائش وزیبائش بیرونی ممالک سے درآمدکرنے پر صرف کردیتے ہیں۔
بین الاقوامی سیاست اور معاشی ماہرین کے پاس اگر متبادلات ہیں تو وہ حقائق اور اعداد وشمار کی روشنی میں قوم کی رہنمائی کریں تاکہ عوام کو یک گونہ اعتمادحاصل ہو اور وہ اس کے لیے تیار ہوں۔اسی صورت میں ہم 66سالہ امریکی غلامی کا طوق اپنے گلے سے اتار پھینکنے کے قابل ہوسکیں گے۔ضروری ہے کہ امریکہ کی مخالفت محض ایک نعرے تک محدود نہ رہے بلکہ حقیقت کا روپ دھارلے۔
جو سیاسی جماعتیں یا ماہرینِ صدق دل سے پاکستان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اغیار کی تہذیبی اورمعاشی غلامی سے نکالنا چاہتے ہیں،ان پرلازم ہے کہ مختلف شعبوں بالخصوص اقتصادی اور بین الاقوامی ماہرینِ قانون کا ایک تحقیقی گروپ اورمجلسِ فکربنائیں اوروہ تمام حالات کاحقیقت پسندانہ اور زمینی حقائق پر مبنی معروض تجزیہ کریں اور پھر قوم کے سامنے ایک ٹھوس اور قابلِ عمل متبادل پیش کریں۔اگر اس کے لیے قوم کی طرف سے پیش بہا قربانیاں دینا ضروری ہوں توپھر قوم کو اس کے لیے ذہنی اور عملی طور پر تیار کریں۔
یہ گزارشات میں نے اس لیے کی ہیں کہ ہم جیسے طالبانِ علم کو شرح صدر ہوسکے اور اپنے موقف کو قوی اور مُسکِت دلائل کے ساتھ پیش کرنے کا ہتھیار مل جائے۔ لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ جو انتظامی مشینری نوکرشاہی یا اسٹیبلشمنٹ ہمارے پاس ہے، وہ اس ناقص ، ناکام اور بوسیدہ نظام کو چلانے کے لیے ہے جواستعماری حاکموں سے ہمیں ورثے میں ملا اوراس میں ہم نے جو اضافہ کیا وہ نااہلی،کرپشن اور بدانتظامی کا ہے۔اس مشینری کے ساتھ کسی انقلابی نظام کو چلانا مشکل ہے۔ جیسے ہم ہوائی جہاز کی باڈی ہوبہو بنادیں اوراس کے آگے موٹرکارکا انجن فٹ کرکے رن وے پردوڑائیں تو وہ ہوائی جہاز اڑ نہیں پائے گا کیونکہ انجن میں اڑانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ ہمارے حالات تو انقلاب کے لیے یقیناً سازگار ہیں لیکن انقلاب ہم سے لاکھوں کوس دور ہے کیونکہ معاشرتی اعتبار سے ہم انتشار (Polarization)کاشکار ہیں۔ مسلکی،علاقائی، صوبائی اور طبقاتی حتٰی کہ ہم بظاہرتوایک قوم ہیں لیکن مجموعۂ تضادات ہیں اورایسی انقلابی قیادت بھی سامنے نہیں ہے جو ان منتشر اجزاء کو یک جا کر کے ایک باہم مربوط اور منظم جسدملّی تشکیل دے سکے۔ایرانی انقلاب کا سبب حد سے بڑھاہواشاہی جبر ہے، اہلِ ایران کی ایک زبان،ایک غالب مسلک اوران کے رہبرامام خمینیؒ کی پرعزم اور غیرمتزلزل قیادت تھی جس کے آثار ہمارے ہاں مفقود ہیں۔