"MMC" (space) message & send to 7575

حقیقتِ افتخار

سابق چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چودھری عدالتی فعّالیت کا ایک طویل دور گزار کر رخصت ہوئے۔انہوں نے جنرل پرویزمشرف کے دور میں عزیمت کی راہ اختیار کی اور پاکستان کی تاریخ میں وکلا برادری، الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا، بیشتر سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی، سب ان کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔وہ ایک بھرپور تحریک اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں بحال ہوئے، پھر معطل ہوئے اور سیاسی واحتجاجی دباؤ کے نتیجے میں حکومتِ وقت بادل نخواستہ ان کو بحال کرنے پر مجبور ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے انتہائی متحرک اور فعال دور گزارا اور ریاست کے تمام اداروں پر عدالتِ عظمیٰ کی دھاک بٹھا دی ۔جسٹس(ر) افتخار محمد چودھری کو عالَمی سطح پر بھی پذیرائی ملی اور اعزازات سے نوازا گیا ، کیونکہ انہوں نے ایک آمرانہ دور میں استقامت کا مظاہرہ کیا،اپنے جائز موقف پر ڈٹ گئے اور قدرت نے بحیثیتِ مجموعی غیر متوقع طور پر حالات کو ان کے لیے سازگار بنادیا۔بہرحال وہ ایک بشر ہیں اور کوئی بھی بشر خطا سے معصوم نہیں ہوتا اور نہ ہی مافَوق الفطرت ہوتاہے، ہاں! البتہ یہ ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض انسانوں کو بعض جِِہات سے غیرمعمولی صلاحیتوں سے نواز دیتاہے، کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ عام حالات میں ایک عمل جاذبِ نظر نہیں ہوتا، لیکن مخصوص حالات میں وہ غیرمعمولی اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔ بہت سے مسائل میںانہوں نے ازخود نوٹس لیا،ان کے بعض فیصلے نتیجہ خیز رہے اور بعض کو انتظامیہ نے تاخیری حربوںسے بے اثر بنادیا۔ پارلیمنٹ اور حکومت سے ایک طرح کی محاذ آرائی کا تصور پیدا ہوا۔الغرض یہ حکومت اور عدلیہ کے درمیان ایک ہیجانی دور تھا جو ان کی ریٹائرمنٹ تک جاری رہا۔ان کی ریٹائر منٹ کے بعد بالعموم اُن کی تحسین کی گئی، انہیں عزت سے نوازا گیا لیکن میڈیا کے کچھ حلقوں اورکچھ عناصر نے اپنے دل کی بھڑ اس بھی نکالی،کچھ متأثرہ فریقوں نے اپنی نفسیاتی تسکین کے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
انہوں نے مسندِ عدل پر بیٹھے ہوئے جوشِعار اپنے لیے پسند کیا یہ ان کا استحقاق تھا، انہیں ان کی عزیمت کی وجہ سے عزت ملی۔ بعض مخالفین ان کے ماضی کے حوالے بھی دیتے رہے کہ انہوں نے بھی ماضی میں پی سی اوکے تحت حلف اٹھایاتھا، تو جس فعل کا ارتکاب کسی نے خود کیا ہواس پر دوسرے کو ملامت کرنے اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے دوسرے ججوں کو عدلیہ سے برخاست کرنے کا کیا جوازتھا؟ ہمارے نزدیک جب کسی نے اپنی ماضی کی غلطی کی تلافی کردی تو اسے ملامت کرنا درست نہیں ہے۔رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ''جس نے اپنے بھائی کو کسی ایسے گناہ پر عار دلائی جس سے وہ توبہ کرچکا ہو تو ایسا عار دلانے والا موت سے پہلے خود اس گناہ میں مبتلا ہوجائے گا‘‘۔(سنن ترمذی:2505)ایک اورطویل حدیثِ مبارَک میںہے ابنِ شماسہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عمرو بن عاص کے مرض وفات کے موقع پر ان کی عیادت کے لیے گئے تو انہوں نے اپنا اسلام قبول کرنے کا واقعہ ان الفاظ میں بیان کیا:''جب اﷲتعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی رغبت پیدا کی، میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسول اللہ صلی اﷲ علیک وسلم!اپنا دایاں ہاتھ بڑھائیے تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کرلوں، رسول اللہ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عمرو کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا : میں کچھ شرائط طے کرنا چاہتا ہوں،آپ ﷺ نے فرمایا:بولوکیا شرط ہے؟ میں نے عرض کیا: میرے سابقہ گناہ معاف ہوجائیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام ماضی کے سارے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور ہجرت تمام پچھلے گناہوں کو مٹا دیتی ہے اور حجِ (مبرور) پہلے کے تمام گناہوں کو مٹادیتا ہے، عمروابن عاص بیان کرتے ہیں کہ اُس وقت میری نظر میں رسول اللہ ﷺ کائنات کی محبوب ترین اور عظیم ترین شخصیت تھے، مجھ پر آپ کی شوکت وجلالت کا عالَم یہ تھا کہ میں آنکھ بھرکر آپ کے رخِ انورکو دیکھنے کی ہمت بھی نہیں کرپارہا تھااوراگر اس وقت میری موت واقع ہوجاتی تو مجھے یقین ہے کہ میںجنتی ہوتا۔۔۔‘‘آگے طویل حدیث ہے (صحیح مسلم:221) اس سے معلوم ہوا کہ اگر ماضی کی غلطیوں کی تلافی کردی جائے تو پھر ان پر ملامت کرنے اور عار دلانے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا؛البتہ اُس کے بعد کے اعمال پرکلام ہوسکتا ہے۔ پس ہماری رائے میں جسٹس(ر) افتخار محمد چودھری نے سلطانِ جابر کے سامنے انکار کرکے اپنی ماضی کی غلطی کی تلافی کردی تھی؛البتہ ان کے بعد کے افعال اورانداز سے اتفاق اور اختلاف کیا جاسکتا ہے۔حکومتی ذمے داران کی کرپشن اور بے اعتدالیوں پر جو انہوں نے بروقت گرفت کی اس سے سوائے متأثرین کے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو ۔
البتہ جسٹس افتخار محمد چودھری نے بہت سے سول وملٹری اسٹیبلشمنٹ کے افسرانِ اعلیٰ کے ساتھ قدرے اہانت آمیز رویہ اختیار کیا،کاش کہ ایسا نہ ہواہوتا۔عدالتِ عالیہ وعدالتِ عظمیٰ کو تو تحفظ حاصل ہوتاہے لیکن دوسرے کسی بھی اعلیٰ منصب پرفائزشخص کو عدالتِ عالیہ وعدالتِ عظمیٰ کے روبرو اس طرح کا تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔ عدالت کی طرف سے سخت گیری ضرورہونی چاہیے اور بعض اوقات یہ عدل کا ناگزیر تقاضا بھی ہوتاہے، لیکن ہرایک کی عزتِ نفس اور منصب کے وقار کی پاس داری کرنی چاہیے۔بعض اوقات منصب انسان کے لیے عزت وافتخار کا باعث ہوتاہے، لیکن ایسا بھی ہوتاہے کہ کوئی عظیم المرتبت شخصیت منصب کے لیے باعثِ افتخار بن جاتی ہے اور یہی حقیقت وکمالِ افتخاربلکہ دوامِ افتخار ہے۔ یہ شخصیات وہ ہیں کہ منصب سے جدا ہونے کے بعد بھی ان کی عزت ووقارمیں کمی نہیں آتی بلکہ اضافہ ہوتاہے اور لوگ انہیں ان کے اعلیٰ کردارکی وجہ سے یاد کرتے ہیں اور ایسے لوگ تاریخ میں امر ہوجاتے ہیں۔ اب مناسب وقت ہے کہ جسٹس(ر) افتخار محمد چودھری بحیثیتِ چیف جسٹس آف پاکستان اپنے کردارکا جائزہ لیں اور پھر اپنے تجربات اور مُثبِت ومنفی پہلوؤں سے خود قوم کو آگاہ کریں،خوداحتسابی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''بلکہ انسان اپنے(نیک وبد) پر خود شاہد ہے، خواہ وہ کتنے ہی عذر تراشے‘‘۔ (القیامہ:14-15) 
اب موجودہ چیف جسٹس جناب تصدق حسین جیلانی کا دور ہے، انہوں نے شروع ہی میں کہہ دیا تھاکہ ازخود نوٹس پر تحدید ہونی چاہیے۔ بظاہر ان کے مزاج میں ٹھہراؤہے، اعتدال ہے اور یہ اُن کے منصب کے وقار کا تقاضا بھی ہے۔ بہتر ہے کہ وہ عدالتی فعّالیت کو قائم رکھتے ہوئے توازن قائم کریں اور قدرت نے انہیں جو موقع عطا کیا ہے، اسے ماتحت عدلیہ کی اصلاح اور اسے فعال بنانے پر صرف کریں۔ عام آدمی کا زیادہ واسطہ ماتحت عدلیہ سے پڑتا ہے اور زیادہ خرابیاں اور کرپشن کی داستانیں بھی اسی کی طرف منسوب ہیں ۔ انتظامیہ پر بھی لازم ہے کہ عدلیہ کا احترام کرے اور اُس کے احکام کو لفظاً ومعنی ً نافذ کرے، ہر ایک کو جسٹس افتخار محمد چودھری بننے پر مجبور نہ کرے۔ اسی طرح اعلیٰ عدلیہ کے قابلِ احترام ججوں کے تقرر کے بارے میں انگشت نمائی ہوتی رہی ہے، بہتر ہے کہ اسے زیادہ شفّاف بنایا جائے۔ اعلیٰ عدالتی مناصب کو پارلیمنٹ کے ہاتھوں کھلونا بننا بھی مناسب نہیں ہے اور ماضی میں پارلیمنٹ کی اجتماعی دانش نے بھی کچھ زیادہ شفافیت اور اعلیٰ معیار کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اُس کی نمایاں مثال نگران سیٹ اپ،الیکن کمیشن آف پاکستان اور چیئرمین نیب کا تقرر ہے۔ حال ہی میں وزارتِ داخلہ نے انتہائی عجلت میں بعض معزولیاں کیں جنہیں عدالت نے فوری طور پر بحال کردیا۔ کیاایسا ممکن نہیں تھا کہ کہ سروسز رولز کے مطابق طریقۂ کار کو اختیار کیا جاتا اور یہ رسوائی نہ ہوتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں