بجا طور پر یہ کہا جارہا ہے کہ موجودہ مشکلات کے دور سے نکلنے کے لئے ہمیں وسیع پیمانے پر قومی اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے اور اگر یہ گرانقدر گوہرِ مقصود ہمیں مل جائے،تو موجودہ وقت میں یہ سب سے بڑی نعمت ہے۔ لیکن قرنِ اوّل سے یہ بحث چلی آرہی ہے کہ آیا مکمل اتفاقِ رائے یا اجماعِ کلُّی ( Total Consensus)ممکن ہے؟۔ یہ عقلاً تو ناممکن نہیں ہے ، لیکن عادتًا اس کا حصول ممکن نہیں رہتا۔ اسی لئے متقدمین نے ہر عہد کے اہل الرائے کے '' اجماعِ کلی‘‘ کو کافی قرار دیا ہے ۔ ہماری سیاست منقسم ہے اور دہشت گردی سے نکلنے کے لئے کسی ایک حکمتِ عملی پر اتفاقِ رائے بھی نہیں ہے۔ ماضی میں ہماری سیاست اور صحافت میں دائیں بائیں کی تقسیم تھی ، اب یہ تقسیم موجود نہیں ہے ، کیونکہ جب بائیں بازو کا قبلہ ہی نہیں رہا تو اب وہ کس کی طرف رخ کرکے اقتداکریں۔عالمی سیاست پر تاحال امریکہ کی اجارہ داری ہے۔ ہمارے ہاں صحافت میں کچھ لوگ لبرل کہلاتے ہیں اور دوسروں کو آپ قدامت پسند یا مذہبی رجحانات کا حامل کہہ سکتے ہیں، اس لئے انتشار اورتفریق بہرحال موجود ہے۔
اگرمکمل اتفاقِ رائے پر اہم پالیسی امور کو موقوف کردیاجائے تو ایک طرح سے تَعَطّل پیدا ہوجائے گااور قومی پالیسی بے عملی اور جمود کا شکار ہوجائے گی اور ہم بحیثیتِ قوم قوتِ فیصلہ سے محروم ہوکر حالات کے رحم وکرم پر رہ جائیں گے۔ ہمارے ہاں سیاست گروہی مفادات تک محدود رہتی ہے اور بدقسمتی سے ہماری سیاسی قیادتیں اپنے اپنے محدودگروہی مفادات سے بلند تر ہوکر قومی ترجیحات کو اختیار کرنے میں ہچکچاتی ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ باہمی منافقت اورمقابل سیاسی حریف کو نیچا دکھانے یا ناکام دیکھنے میں ہم اپنی کامیابی سمجھتے ہیں، خواہ اس روش سے ملک کو کتنا ہی نقصان پہنچے۔
لہٰذا مکمل اتفاقِ رائے کی تخیلاتی منزل (Utopia)کے سحر میں مبتلا رہنے کے بجائے پہلے مرحلے میں باہمی اعتماد سازی کو ترجیح دینی چاہئے، خواہ کتنی ہی کل جماعتی کانفرنسیں منعقد کرلی جائیںبراہِ راست ذمّے داری برسرِ اقتدار حکمران ہی کو قبول کرنی ہوتی ہے، دوسرے اگر اس قدر تعاون کرلیں کہ حکومتِ وقت کو کمزور نہ کریں تاکہ ملک اس مشکل سے سرخرو ہوکر نکل جائے تو اسے بھی غنیمت سمجھنا چاہئے۔ سیاسی محاذ آرائی کا راستہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ یہ اتنا حساس اور نازک مرحلہ ہے کہ مذہبی رہنما بھی دوٹوک بات نہیں کرتے، محتاط انداز میں بات کرتے ہیں ، نجی مجالس میں ریاست سے متصادم عناصرکے موقف اور اقدامات کو غلط قرار دیں گے، مگر برسرِ عام ذو معنی بات کریں گے۔ سب جانتے ہیں کہ مذاکرات ایک انتہائی پیچیدہ مہم ہے ، جس کا نہ سر ہے نہ پاؤں، کس سے کریں اور کس سے نہ کریں، کون آمادہ ہے اور کون نہیںہے، جو مذاکرات پر آمادہ نہیں ہیں اُن سے کیسے نمٹا جائے گا ، آپ کے پاس دینے کو کیا ہے اور اس سودا کاری میں حاصل کیا ہوگا، کسی کے پاس واضح جواب نہیں ہے،بس ہم ایک تاریک گلی کی طرف چلے جارہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن مسلّمہ طور پر ایک زیرک سیاست دان ہیں ، انہوں نے اس حقیقت کا ادراک کرلیا ہے کہ مروّجہ سیاست میں اقتدار میں شامل رہنا سیاسی مفادات کے تحفظ کے لئے ناگزیر ہے۔جناب آصف علی زرداری کو اُن کی اسی قدر خیرات پر اکتفا کرنی پڑی اور اب جناب نوازشریف کے حصے میں بھی یہی تعاون آیا ہے۔ لہٰذا وہ حکومتی مناصب اور مفادات سے مستفید بھی ہوتے ہیں اور حکومتی پالیسیوں کی ذمے داری بھی اپنے سر نہیں لیتے، نہایت صفائی کے ساتھ دامن جھاڑ کر نکل جاتے ہیں، البتہ ان میں اتنی وضع داری ضرور ہے کہ حکومت کے لئے مسائل پیدا نہیں کرتے اور شاید اس قدر حمایت کو بھی حکومت غنیمت سمجھتی ہے۔ موجودہ صورتِ حال کے بارے میں مذہبی سیاسی جماعتیں اور علماء کے مؤثر طبقات مصلحت کا شکار ہیں یا وہ ایسا کرنے پرمجبور ہیں ، کیونکہ ریاست سب کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ میں نے مولانا سمیع الحق کا کچھ عرصہ قبل یہ بیان پڑھا تھا کہ احسان اللہ احسان ‘جو طالبان کے ترجمان کے طور پر میڈیا سے روابط قائم کئے ہوئے ہے ، درحقیقت اس نام کا کوئی شخص موجود نہیں ہے، لیکن بعد میں احسان اللہ احسان ، شاہداللہ شاہد اور حال ہی میں اعظم طارق نے میڈیا سے روابط قائم کرکے اپنا موجود ہونا ثابت کیا ہے۔
صورتِ حال یہ ہے کہ صوبۂ خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں کے بیشتر رہنماوزعماء عملاً علاقہ بدر ہیں ، باوسائل لوگ اسلام آباد منتقل ہوچکے ہیں اور کچھ نے دیگر مقامات پر رہائش اختیار کرلی ہے ۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں کافی پھیلاؤ آگیا ہے ، اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ عناصر اب ملک میں ہر جگہ موجود ہیں اور کوئی مقام یا فرد ان کی رسائی سے باہر نہیں ہے۔ یہ مقامِ حیرت ہے کہ منوں کے حساب سے بارودی مواد اور انتہائی حساس جدید ترین آتشیں اسلحہ ، جاسوسی کی ٹیکنیک اور پیشہ ورانہ مہارت اور پیغام رسانی کا جدید ترین نظام جو حساس اداروں کی گرفت سے ماورا ہوکر کام کرے‘ ان عناصر کو کیسے حاصل ہوا اوراس کی گہرائی اور گیرائی کا دائرہ اتنا وسیع کیسے ہوا کہ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں اپنے ہدف کا تعین بھی کرسکتے ہیں اور اسے نشانہ بھی بنا سکتے ہیں، یہ پوری قوم کے لئے لمحۂ فکریہ ہے ، اس صورت میں جب کہ ہماری مسلح افواج اگر جدید ترین نہیں تو جدید تر ضرور ہیں۔
جناب عمران خان شاید خود بھی کنفیوزڈ ہیں اور میڈیا بھی ان کی پالیسی ، ترجیحات اور دانش کے بارے میں سوال اٹھا رہا ہے ۔ ان کا وزیراعظم نوازشریف سے سیاسی اختلاف اور رقابت بجا، لیکن یہ پاکستان کی سلامتی کی قیمت پر نہیں ہونی چاہئے اور وزیرِ اعظم ، چیف آف آرمی اسٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ ان کی ایک مشترکہ میٹنگ بھی ہونی چاہئے ، کیونکہ دستیاب حقائق کی روشنی میں قومی سلامتی کے کسی کم ازکم ایجنڈے پر اتفاقِ رائے ضروری ہے اور اس کے لئے وزیرِ اعظم کو خود پیش قدمی کرنی چاہئے۔
ہمیں نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ قومی تاریخ کے اس نازک موڑ پر داخلی سلامتی کے ذمہ دارانہ منصب پر فائز ہونے کے بعدوزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کسی اعلیٰ دانش یا اہلیت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ قائدِ حزبِ اختلاف کی حیثیت سے ان کا جوہرِ خطابت مسلَّم ، مگر اب ملک کو ایک صاحبِ بصیرت اور قوتِ فیصلہ کے حامل وزیرِ داخلہ کی شدید ضرورت ہے۔ وزیرداخلہ نے اس حساس مسئلے پر صرف ایک مکتبۂ فکر کے علماء پر اعتماد کیا اور انہی کو اعتماد میں لیااور دیگر مکاتبِ فکر کے علماء کو انہوں نے قابلِ اعتماد نہیں سمجھا ،یا یہ خاموش پیغام دیا کہ ریاست وحکومت کی نظر میں وہی علماء قابلِ اعتماد ہیں، جن کے مخصوص طبقات کے ساتھ روابط ہیں۔ ہماری نظر میںیہ ان علماء کا بیک وقت مثبت پہلو بھی ہے اور منفی بھی، کیونکہ اس سے پہلے مدارس کی تنظیمات بھی برملا یہ اعلان کرتی تھیں کہ مدارس کا کسی انتہاپسند تحریک ، گروہ یا طبقے سے کوئی تعلق نہیں ہے، مدارس کا کام صرف دینی تعلیم کا فروغ اور نشرواشاعت ہے ، مدارس کے سربراہان کی طرف اس حوالے سے انگلی اٹھائی جائے اور نہ ہی اُن سے کوئی جواب طلبی کی جائے ، مگر اب یہ امر تو طے ہوگیا کہ ریاست وحکومت اور ان علماء نے ان عناصر سے روابط کوبھی تسلیم کیا اور ان پر اپنے اثر انداز ہونے کی صلاحیت کو بھی ایک کریڈٹ کے طور پر لیا ہے۔
اس وقت پاکستان مسائلستان بنا ہوا ہے، مہنگائی کا عفریت ، بجلی کا بحران ، بے روزگاری میں روز مرّہ اضافہ الغرض مسائل کا انبار ہے، لیکن سب سے اہم مسئلہ ملک کی داخلی اور خارجی سلامتی کا ہے، جب لوگوں کی جان ، مال اور آبرو کو خطرات لاحق ہوں اور کوئی اپنے آپ کو محفوظ نہ سمجھے تو باقی سارے مسائل پس پشت چلے جاتے ہیں اور ہماری مسلح افواج اگر مستقل طور پر داخلی خلفشار کو قابو پانے میں مصروف رہیں ،تو ملکی سرحدَات پراُن کی دفاعی صلاحیت یقینا متاثر ہوگی ۔ فی الوقت ہماری اَفواج کا تربیتی نظام بیرونی جارحیت کے خلاف ہے اور اگر داخلی فساد ایک حد سے تجاوز کرجائے تو پھر مسلح افواج کو اسے کنٹرول کرنے کے لئے اپنے پورے تربیتی نظام پر نظرِ ثانی کرنی ہوگی یا متبادل فورس اور نظام وضع کرنا ہوگا اور ہمارے محدود وسائل کے اندر رہتے ہوئے مشکلات پیداہوں گی۔