اُمتِ مسلمہ کااصولی موقف اور دعویٰ تو یہی ہے،جسے علامہ اقبال نے اپنے پُرتاثیر کلام میں منظوم کیا ہے کہ ؎
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ ایرانی رہے باقی، نہ تورانی، نہ افغانی
مولاناجامی نے بھی بہ اَندازِ دِگر یہی پیغام دیا ؎
بندۂ عشق شدی ترک نسب کن جامی
کہ دریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست
لیکن عہدِحاضرمیں یہ اکیڈمک یا ٹیکسٹ بُک تصورِ اسلام بن کر رہ گیا ہے۔آج کا مسلمان عملاً ایک ملت اور اُمت کے تصور میں ڈھل نہیں سکا،نہ بتانِ رنگ وخوں کو توڑ سکا،نہ نسبی تفاخر کے حصار سے نکل سکا،بلکہ اس نے کئی اور بت تراش لئے۔غالب نے کہا تھا ع
کر دیا کافر‘ اِن اَصنامِ خیالی نے تجھے
اور فارسی شاعرنے کلمہ گومسلمان کی تصویر کشی یوں کی ع
بر زبان تسبیح، و در دِل گاؤخر
لہٰذااُمّت مسلمہ کاحال قابلِ رحم ہے۔
میں چندروزکے لئے دینی پروگراموں میں شریک ہونے امریکہ آیاہواہوں۔میں جب بھی آتاہوں میراایک پروگرام ٹینیسی سٹیٹ کے شہرجانسن سٹی میں ہوتاہے۔ڈاکٹرخالداعوان نے ورجینیا سٹیٹ میں ایک علمی حلقہ بنایا ہوا ہے،اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات کے علاوہ وہ پوراوقت دینی اور علمی کاموںپرصرف کرتے ہیںاورہرہفتے ایک وقیع علمی نشست ہوتی ہے۔ انہوں نے تقریباً تمام مکاتبِ فکرکے علماء کی اُردو میں دستیاب تفاسیروشروحِ حدیث کونہ صرف لائبریری کی زینت بنارکھاہے بلکہ تمام ترگہرائی اورگیرائی کے ساتھ ان کا مطالعہ بھی کر رکھا ہے، بحیثیتِ مجموعی وہ ہمارے شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعیدی سے بہت متاثر ہیں،انہوں نے تفسیر تبیان القرآن، شرح صحیح مسلم اور نعمۃ الباری شرح بخاری کا تفصیلی مطالعہ کیاہوا ہے۔ ٹینیسی اسٹیٹ میں ڈاکٹرشہرام ملک جواں عمر ہیں،دین دار ہیں اور اہلِ دین سے محبت کرتے ہیں۔یہاں پاکستانی کمیونٹی محدود ہے،مگر تقریباً تمام حضرات پروفیشنل ڈاکٹر، آئی ٹی اسپیشلسٹ،پروفیسرز یاسائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے سے وابستہ ہیں ،اکثرحضرات میاں بیوی دونوں پروفیشنل ہیں،یہی صورتِ حال ہندوستانی مسلمانوں کی ہے ۔
ڈاکٹر شہرام ملک اور اُن کی بیگم بہت مہمان نواز بھی ہیں اور اپنے گھر پرنشست کا اہتمام کرتے ہیں ۔اور ٹینیسی اور ورجینیا دونوں ریاستوں سے اپنے ہائی پروفیشنل دوستوں کوان کی فیملی سمیت بلاتے ہیں۔ خطاب کے بعدسوال وجواب کی نشست ہوتی ہے۔ان لوگوں کواسلام اور پاکستان کے ساتھ قلبی لگاؤ ہے،عربی کامقولہ ہے کہ اشیاء کی حقیقت یااہمیت کاصحیح ادراک ان کے اَضداد(Opposites)کو جاننے، برتنے اور تقابل (Comparison)کے بعدہوتاہے،اس کامجھے ان لوگوں کے ساتھ طویل نشستیں کرنے سے بخوبی اندازہ ہو ا اور مجھے خودبھی ان حضرات کی مجالس سے بہت کچھ سیکھنے کاموقع ملتاہے۔یہ لوگ سو ڈیڑھ سو میل بلکہ بعض اوقات اس سے بھی زیادہ فاصلہ طے کرکے آتے ہیں۔درحقیقت یہ وہ لوگ ہیں جو مسلم By Chanceکی موروثی رَوِش سے اِرتقا کرکے مسلم By Option کی منزل کو پالیتے ہیں۔یعنی محض موروثی اور روایتی مسلمان نہیں ہیں بلکہ انہوں نے شعوری طور پراسلام کو قبول کیا ہے اور ایسے لوگ ہی دراصل اسلام کا اثاثہ ہوتے ہیں۔
امریکہ اورکینیڈا پر مشتمل براعظم کو نارتھ امریکہ کہتے ہیں،یہ دونوں ممالک رقبے کے لحاظ سے بہت وسیع ہیں،کینیڈا کارقبہ امریکہ سے بھی بڑا ہے، جیسا کہ تمام باشعور قارئین جانتے ہیں کہ آج کی دنیا تین اکائیوں میں منقسم ہے، یعنی ترقی یافتہ ممالک ، ترقی پذیر ممالک اور پسماندہ ممالک۔پسماندہ ممالک کو تیسری دنیا کہا جاتاہے،دوسری دنیا ترقی پذیر ممالک پراورپہلی دنیاترقی یافتہ ممالک پرمشتمل ہے،جن کو کبھی G-8 اور کبھی G-18 کانام دیا جاتاہے،معاشی ترقی کے اعتبارسے یہ تین الگ الگ کلب ہیں۔لیکن یہاں آکریہ حقیقت معلوم ہوئی کہ سائنس اورسپرٹیکنالوجی کے اعتبارسے امریکہ اورترقی یافتہ ممالک میں بھی فاصلہ (Gap)بہت ہے ۔
اصل قیادت امریکہ ہی کے پاس ہے ، جیسے معروف کہاوت ہے کہ شیر جب شکار کرکے خود سیر ہوجاتاہے ، تو اُس کا پس خوردہ جنگل کے دوسرے جانور آکر کھاتے ہیں ، بالکل اسی طرح امریکہ جب سائنس ، ٹیکنالوجی اور جدید علوم میں ارتقا کے سفر میں اگلی منزل پر قدم رکھتاہے ، تواس کا سائنٹیفک اور ٹیکنالوجیکل پس خوردہ بتدریج دوسری اقوام کے حصے میں آتاہے ، یعنی علمی ، فنی اور سائنسی میدان میں اس کا اثاثہ جب اس کے لئے اَزکار رفتہ(Out Dated) ہوجاتاہے، تو کوڑے دان میں پھینکنے کے بجائے وہ اسے سونے کے بھاؤ یا من پسند قیمت اور شرائط پر دوسروں پر فروخت کرتاہے۔
یہ حقائق بیان کرنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ لوگ امریکہ کی خدائی پر ایمان لے آئیں اور اس کے آگے سجدہ ریز ہوجائیں ، بلکہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ مقام اس نے ذہانت وقابلیت، وسائل کے حصول، ان کے صحیح استعمال،مسلسل محنت اور جانفشانی سے حاصل کیا ہے۔ اس میں حکمت وتدبیر ، بہتر منصوبہ بندی ، اپنی قوم اور وطن سے وفااوردوربینی ودُوراَندیشی بنیادی عناصر ہیں۔ ماضیِ قریب کی سپرپاورز نے امریکہ پر احسان کرکے اس کے لئے جگہ خالی نہیں کی بلکہ امریکہ نے طاقت وحکمت سے انہیں پیچھے دھکیل کر قیادت پر قبضہ کیا ہے اور تاحال اس کے لئے مستقبلِ قریب (Near Future)میںکوئی بڑا چیلنج نظر نہیں آرہا ۔ یقینااَخلاقی اور بعض دیگر شعبوں میں امریکہ کی کمزوریاں اور منفی پہلو بھی بہت ہیں ، جن کی نشاندہی ہمارے دانشور کرتے رہتے ہیں ، مگربعض حقائق بادلِ نخواستہ تسلیم کرنا پڑتے ہیں۔
امتِ مسلمہ کے لئے ان رفعتوں کو حاصل کرنے میں رکاوٹ ہم خود ہیں، قدرت کی طرف سے کسی کے آگے جابرانہ رکاوٹیں(Barrier) نہیں ہیں، یہ مقابلے اور مسابقت کی دنیا ہے اورانسانی تاریخ کے ہر دور میں اُس عہد کی فرعونی اور نمرودی قوتوں کا سکۂ رائج الوقت یا شِعارSurvival of the Fittest ہی رہا ہے، یعنی باعزت وباوقار اور قابلِ افتخار حیثیت میں جینے کا حق اُسی کو حاصل ہے ، جو مادّی طاقت کے بل پر اپنے آپ کو اس کا اہلِ ثابت کرے۔ صرف انبیائِ کِرام اور رسلِ عِظام علیہم السلام اور بطور خاص خاتم النبیین سیدنا محمد رسول اللہﷺ کا استثنا ہے کہ آپ نے مادّی غلبے اور فتح مبین کے بعد بھی طاقت کو الہامی ہدایت اور اَخلاقی برتری کے تابع رکھا اور اپنی عظمت کے آگے گردنوں کو سرنگوں کرکے اپنی اَنا کی تسکین کا سامان نہیں کیا، بلکہ اپنے تراشے ہوئے بتوں کے آگے سجدہ ریز انسانوں کو سربلندکرکے معبودِ مطلق کے آگے سربسجود کردیااورلوگوں کے دل آپ کی عظمت کے آگے خود سراپا عقیدت ومحبت بن گئے اور کسی نے سچ کہا ہے کہ ع
جو دلوں کو فتح کر لے، وہی فاتحِ زمانہ
مادّی برتری پر زوال آتارہا ہے اور آتا رہے گا، لیکن اَخلاقی برتری کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ پذیرائی (Acceptability) ملتی رہی ہے اور ملتی رہے گی۔ آج نمرود کا نام لیوا کوئی نہیں ہے ، جب کہ ابراہیم علیہ السلام کا نام ومقام آج پہلے سے بھی زیادہ سربلند ہے ، آج ابوجہل کا ہمنوا کوئی نہیں ہے ، لیکن رحمۃ للعالمین سیدنا محمدرّسول اللہﷺ کے نام پر جان فدا کرنے والے کروڑوں کی تعداد میں ہیں ۔ آج کوئی بھی سرِ عام افتخار کے ساتھ اپنے آپ کویزید اور یزیدیت کی طرف منسوب نہیں کرتا‘ مگر امام حسین رضی اللہ عنہ کے نام لیوا ان سے نسبت اور ان کی ذات سے عقیدت ومحبت کو اپنے لئے سب سے بڑا افتخار سمجھتے ہیں۔
لیکن یہ بھی سنتِ الٰہیہ ہے کہ امامت (Leadership)دینی ہو یا دنیاوی ،اِس منصب پر فائز ہونے کے لئے اپنی اہلیت کو ثابت کرنا ہوگا اور قوموں کے عروج وزوال کا جو میرٹ اور معیار ہے ، اس پر پورا اُترنا ہوگا ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ''اے اہلِ ایمان !تم میں سے جو اپنے دین سے پھر جائے گا، تو عنقریب اﷲتعالیٰ تمہاری جگہ لینے کے لئے ایک ایسی (اہلیت کی حامل) قوم کو لائے گا، جن سے وہ محبت کرے گا اور وہ اُس سے محبت کریں گے اور جو مومنوں کے لئے (اپنے دل میں) نرمی رکھیں گے اور کافروں کے مقابلے میں سخت ہوں گے ، وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور (دین کے معاملے میں) کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں کریں گے ، یہ اللہ کا فضل ہے ، وہ جسے چاہتاہے عطا فرماتاہے اور اللہ بڑی وسعت والااور خوب علم والا ہے، (المائدہ:54)‘‘۔ (جاری)