تصوف دراصل قلب وذہن کی پاکیزگی(جسے قرآن مجید میں تزکیہ سے تعبیر فرمایا گیا ہے)، روحانی جِلا ، اِخلاص ، تسلیم ورضا اور اعمال وعبادات میں درجۂ احسان کانام ہے، جسے حدیثِ جبرائیل میں رسول اللہ ﷺ نے واضح فرمادیا : ''احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت حضوریِ قلب کے ساتھ اس طرح کرو کہ گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو، پس اگرتم اپنی بصارت کی نارسائی کے سبب اسے نہیں دیکھ پاتے ،تووہ یقینا تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘۔یہی روحِ تصوف ہے۔
جہادِ افغانستان کے دوران امریکہ اور پوری مغربی استعماری دنیا اس کی پشت پناہ بھی تھی اور اس کے لئے تمام تر مالی اور حربی وسائل بھی فراہم کئے جارہے تھے، عالمی میڈیا اس کی حوصلہ افزائی کررہا تھا ۔ دنیا بھر سے مجاہدین کو لاکر صوبۂ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقے میں جمع کردیا گیا، جن میں عرب، ازبک، تاجک ، افریقی اور محدود تعدادمیں سفید فام لوگ بھی شامل تھے۔ سوویت یونین، جس کا سرکاری نام ''یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلک ‘‘ تھا، مشترکہ دشمن قرار پایا۔ مسلمانوں کے نزدیک اس لئے کہ سوویت یونین نے ایک مسلم ملک افغانستان پر فوج کشی کی تھی اور امریکہ اور مغربی دنیا اس لئے کہ ان کے سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کو سوویت یونین کے آمرانہ اور اشتراکی نظام سے خطرات لاحق تھے۔
آخرِ کار سوویت یونین نے افغانستان سے اپنی بساط لپیٹی اوربعد ازاں دنیا کے نقشے پراُس کا نام بھی باقی نہ رہا۔ وسطی ایشیا کی آزاد ریاستیں وجود میں آئیں اور رشین فیڈریشن باقی رہ گئی۔ جہادِ افغانستان کے نتیجے میں ایک طرف تو اشتراکی نظام پون صدی کے تجربے کے بعد ناکامی سے دوچار ہوا اور دنیا جو دو سپر پاورز کے حلقہ ہائے اثر میں منقسم تھی، اب سوویت یونین کی تحلیل اور اشتراکی نظام کی ناکامی کے بعد یک قطبی ہوگئی۔اب تاحال دنیا میں ایک ہی سپر پاور امریکہ ہے، جو دنیا کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق چلانا چاہتاہے ، اس میں خواستہ وناخواستہ یورپی یونین اس کی حلیف ہے ۔ جب دنیا میں دو سپرپاورز موجود تھیں ، تو کسی حد تک تحدید وتوازن کا نظام موجود تھا، مگر سوویت یونین کی تحلیل کے بعدامریکہ شترِبے مہار بن گیا ، اقوام متحدہ اوراس کی سلامتی کونسل اس کی باندی بن گئیں، اِن دونوں اداروں سے مہر تصدیق ثبت کرکے جس پر چاہا فوج کشی کردی اور جس کا چاہا ناطقہ بند کردیا اور مشکیں کس دیں ۔
نائن الیون کے بعد محبت ونفرت اور دوستی ودشمنی کے پیمانے بدل گئے، ماضی کے محبوب اب مبغوض(Hateful) ہوگئے ، دوستی دشمنی میں بدل گئی۔ امریکہ نے افغانستان پر فوجی یلغارکردی اورطبل جنگ بجاتے ہوئے اُس وقت کے امریکی صدر جارج ہربرٹ بش نے کہا : '' اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ یہ جنگ ہم ہی جیتیں گے ‘‘۔
مگر یہ دشمن جسے ترنوالہ سمجھا گیا تھا، وہ لوہے کے چنے ثابت ہوا، دانت گھِس گئے ، مگر یہ چنے چبائے نہ گئے۔ اس تلخ تجربے کے بعد امریکہ اور مغربی مفکرین نے ''صوفی اسلام‘‘ کا پرچم سربلند کرنے، اس کی پذیرائی کرنے اور اسے پروموٹ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس مقصد کے لئے ڈالر،پاؤنڈ اور یورو کی تجوریاں کھول دی گئیں، مغرب ومشرق میں ''صوفی کانفرنسیں‘‘ اور ''سیمینار‘‘ منعقد کئے جانے لگے، آنیاں جانیاں لگ گئیں ، حتیٰ کہ چوہدری شجاعت حسین صوفی کونسل کے سربراہ قرار پائے اور اس وقت کی امریکی سفیرہ این پیٹرسن نے بعض مساجد اور مزارات کے دورے کئے اور ان کی تزئین وآرائش کے لئے گرانٹ منظور کی۔
انہیں دراصل تصوف سے کوئی غرض نہ تھی ، ان کی نظر میں ''صوفی اسلام‘‘ سے مراد ''بے ضرراور غیر مزاحمتی اسلام‘‘ تھا کہ جب چاہو اور جسے چاہو روند ڈالو، کچل دو ، کسی بھی طرف سے ردِّعمل کے طور پر ''چوں ‘‘ کی آواز بھی نہ آئے۔ اس پر کچھ ہمارے سادہ لوح دوستوں نے سمجھا کہ اب ''صوفی اسلام‘‘ کے غلبے کا دور آچکا، صبح نو طلوع ہوچکی اور ماضیِ قریب قصۂ پارینہ بننے والی ہے ۔ یہ خود فریبی اور خوش فہمی تھی ، میں نے دوستوں سے کہا: ایسا بھی کوئی ایمان اور اسلام ہے، جسے پروموٹ کرنے کا بیڑا امریکہ اٹھائے۔ لیکن عزیمت سے عاری اور حقیقت سے نظریں چرانے والے لوگ دن میں کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنے کے متمنی ہوتے ہیں اورایسی ہی من پسند خوابوں کی دنیا میں رہنا چاہتے ہیں ،یاتو انہیں نوشتۂ دیوار اور سامنے کے حقائق کا ادراک نہیں ہوتا اور یا وہ ان کا سامنا کرنے کا حوصلہ اپنے اندر نہیں پاتے۔ اس دوران امریکہ اور مغرب کے سفراء، مفکرین یا ان کے صحافیوں سے مکالمہ ہوتا، تو میں انہیں یہ کہتا کہ آپ کی یہ تدبیر کارگر نہیں ہوسکتی ، کیونکہ جس فکری رُجحان (Phenomenon)اور جہادی یا عسکری جنون کا آپ کو سامنا ہے، اس کی تاریخ تین چار دہائیوں پر مشتمل ہے۔ اس کی فکری آبیاری، مالی وسائل اور جدید ترین اسلحہ وحربی ٹیکنالوجی کی فراہمی اور بین الاقوامی روابط کے قیام میں آپ لوگوں کا بڑا حصہ تھا اور آپ کے اشارے پر بعض عرب ممالک نے بھی اپنے خزانوں کے در کھول دئیے تھے۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ آنِ واحد میں آپ کمپیوٹر کا بٹن دبائیں اور کوئی دوسری قوت اُن کے مقابل آکھڑی ہواور آپ فاتحِ عالم بن کر نکل جائیں۔ یہ وہ جن ہے جسے بوتل سے نکالنے کا منتر تو معلوم ہوجاتاہے، لیکن واپس بند کرنے کا منتر کسی کو نہیں آتا۔
جب یہ تدبیر کارگر ثابت نہ ہوئی تو پھرامریکہ نے طالبان کی صفوں کا ایکسرے کرکے ان میں سے کچھ اچھے طالبان کی تلاش شروع کردی اور ان سے مکالمے کی تدبیریں سوچی جانے لگیں، مگر یہ حیلہ بھی کارگر ثابت نہ ہوا۔ یہ سطور لکھنے کا خیال مجھے اس لئے آیا کہ ایک سیاسی جماعت جو اپنے دعوے کے مطابق سیکولرپارٹی ہے، کے قائد کواچانک ''صوفیائِ کرام کانفرنس ‘‘ منعقد کرنے کا خیال آیا ۔ میں نے ان دوستوں سے کہا: اس سکّے کو توامریکہ آزما کردیکھ چکا، اس میں کوئی حرارت یا انقلابی ولولہ اب نہیں رہا۔چند مستثنیات کے سوا تصوف کے آستانے تو کب کے ویران ہوچکے ،اب عقابوں کے نشیمن زاغوں کے تصرف میں ہیں ،اب وہاں ایک جدید قسم کی روحانی جاگیرداری جڑ پکڑ چکی ہے اور اس کے لئے صرف کسی بزرگ سے نسبی اور صُلبی نسبت کا ہونا کافی ہے۔ علم وعمل، تقویٰ وکردار، تزکیہ ، شِعارِ طریقت اور معیارِ شریعت ،الغرض کسی چیز کی کوئی ضرورت نہیںہے ۔ اسی لئے وہ آستانے جو کبھی علم وعمل اور شریعت وطریقت کا مرکز تھے ، اب وہاں عشرتیں ہیں ، دادِ عیش ہے، حکومتی مناصب ہیں، اقتدار کے ایوانوںتک رسائی ہے ، شاہ ہیں ، مخدوم ہیں، شہزادے ہیں ، صاحبزادے ہیں ،جن کے چہرے مُہرے، وضع قطع اوراَطوار سے شریعت وطریقت کی کسی ظاہری علامت کی بھی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔ اولیائِ کاملین اپنے مزارات میں آرام فرما ہیں اور ان کی شریعت وطریقت کی میراث کی مارکیٹنگ کسی اہلیت ومعیار کے بغیر اپنی دنیا سنوارنے کے لئے کی جارہی ہے۔ اب کلاشنکوف کی گولی، راکٹ ، بم اور خود کش حملوں کا جواب مزارات پر قوالی کی محفلوں، رقص ودھمال اور حقیقت سے عاری ''وجد‘‘اور ''تواجُد‘‘ سے نہیں دیا جاسکتا۔
تصوف تودراصل اللہ تعالیٰ کی ذات پرایمان وایقان اورصفاتِ الٰہی کامَظہربننے کانام ہے،جس کی بنا پر صاحبِ ایمان باطل کے مقابلے میں ڈٹ جاتاہے اور باطل سے سمجھوتہ نہیں کرتا۔ علامہ اقبال ؒنے شیخ احمدسرہندی مجددالف ثانی رحمہ اللہ تعالیٰ کوخراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہاتھا ؎
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
اُس کے نفسِ گرم سے ہے، گرمیِ اَحرار
وہ ہند میں سرمایۂ ملت کا نگہبان
اﷲ نے بروقت کیا جس کو خبردار
مُلُوکیت کا دور ہے اور صوفیاء کا امام استقامت کے ساتھ میدان میں کھڑا نظر آتاہے ۔علامہ اقبال ؒکے بقول وہ حریت کاپاسبان اورسرمایۂ ملت کا نگہبان ہے ، اس کی گردن اللہ کے سوا کسی جابر سلطان کے سامنے نہیں جھکتی۔یہی صورتِ حال غوث الاعظم محی الدین عبدالقادر الجیلانی نوراﷲمرقدھم کی ہے۔ خلیفہ ابوالمظفر المستنجد باللہ سونے اور چاندی کی تھیلیاں بھر کرنذرانہ پیش کرنے آتاہے،آپ وہ تھیلیاں ہاتھوں میں دباتے ہیں توان سے خون ٹپکنے لگتاہے، آپ نے فرمایا:''اے ابوالمظفر! تمہیں اللہ سے حیانہیں آتی کہ لوگوں کا خون چوستے ہواورمجھے اس کے نذرانے پیش کرتے ہو، خدا کی قسم اگر رسول اللہ ﷺ کے تعلق کا پاس نہ ہوتا،تویہ خون بہتاہواخلیفہ کے محل تک جاپہنچتا ‘‘۔ وقت کے جابر سلاطین کے لئے آپ کی دعا یہ ہوتی تھی:''اے اللہ! یا توانہیں ہدایت عطا فرمااور یاان کی شوکت کو توڑ دے‘‘۔