'' صوفی اسلام‘‘کے عنوان سے کالم جمعہ،21 مارچ کو شائع ہوا اور اس پر ای میل کے ذریعے فوری طور پر ملک اور بیرونِ ملک سے متعدد حضرات کا مثبت ردِّ عمل موصول ہوا۔بہت سے حضرات نے تفصیلی تاثرات لکھے ، اُن میں سے ایک مہربان منصور احمد صاحب نے لکھا :'' مفتی صاحب ! مانا کہ جہادِ افغانستان کے موقع پر تو امریکہ ، نیٹو ،بلکہ پوری مغربی دنیا، چین ، عالَمِ عرب ، الغرض سارا عالَم ہی سوویت یونین کے خلاف میدانِ عمل میں آگیاتھا اوراِس بنا پر جہادِ افغانستان میں اَخلاقی ، مالی اور حربی امداد کا راستہ کھل گیاتھا، مگر 2001ء تا 2014ء کے دوران امریکہ ونیٹو سمیت اٹھائیس ممالک کی تقریباً ڈیڑھ لاکھ مسلح افواج نے جدید ترین سامانِ حرب ، مشترکہ انٹیلی جنس نیٹ ورک اور مالی ترغیبات سے آراستہ ہوکر افغانستان پر فوج کشی کردی اور زمین پر فوج اُتارنے سے پہلے جدید ترین جنگی جہازوں کے ذریعے بمباری کرکے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ وہاں ایک کٹھ پتلی حکومت بھی قائم کی ، افغانستان کی مقامی فوج بھی تیار کی اور اُسے تربیت دے کرجدید ترین اسلحہ سے آراستہ بھی کردیا ۔ طالبان کی حکومت تو شروع ہی میں ختم ہوچکی تھی، مجاہدین کے لئے اب نہ کوئی جائے پناہ رہی اور نہ ہی بیرونی مالی وحربی امداد کے ذرائع باقی رہے،نہ پیٹروڈالر کا سیلاب کہ بعض بندگانِ اغراض ،سیم وزَر اور دَرہم ودِینار کی چکا چوند دیکھ کر اس طرف مائل ہوجاتے۔
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اب امریکہ جدید ترین سامانِ حرب وضرب کے انبارکے ہوتے ہوئے خائب وخاسر ہوکر اور اپنے مقاصد میں ناکام رہ کر افغانستان سے اپنے اتحادیوں سمیت بوریا بسترکیوں لپیٹ رہا ہے؟۔ کیااُسے جذبۂ جہاد اور مجاہدین کی قوتِ ایمانی کے سوا کوئی اور نام دیا جاسکتاہے ؟ اس کی اور کیا توجیہہ کریں گے؟۔پس یہ مان لینے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہے کہ جذبۂ جہاد کا نہ کوئی متبادل ہے اور نہ ہی اِس کا کوئی توڑ ، اﷲتعالیٰ کے ہاں اُس کی حکمت کے تحت دیر ہوسکتی ہے، مگر اندھیر نہیں ‘‘۔
یہ میں نے اپنے قاری کے تأثرات کو اپنے الفاظ میں ذرا مرتب انداز میں تحریر کیا ہے، تاکہ اِس ذہنی سوچ کا ابلاغ بہتر انداز میں ہوسکے۔میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ بات بہت حد تک درست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے روشن خیال اور لبرل ماہرین اسٹوڈیوز میں بیٹھ کر دھڑلے سے یہ کہتے تھے کہ افغانستان میں امریکہ کی فتح یقینی ہے، مگرجب سے امریکہ نے افغانستان سے 2014ء میں اپنی بساط لپیٹنے کا قطعی اعلان کیا ہے، تواُن ماہرین کا لب ولہجہ اور سُربدل گیاہے اور Tone بھی پہلے جیسی نہیں رہی اوراب وہ یہ کہنے لگے ہیں کہ طالبانِ افغانستان کا غلَبہ واضح ہے ،وہ افغانستان کے بیشتر حصے پر ان کے کنٹرول اور تحکُّم (Writ)کو بھی تسلیم کرتے ہیں ۔ اب وہ دبے لفظوں میں یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ امریکہ اوراُس کے اتحادیوں کے مقابلے میں طالبانِ افغانستان کی اَخلاقی برتری واضح ہے، کیونکہ وہ غیرملکی قابض اور غاصب استعماری افواج کے مقابل اپنے ملک کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں ، جب کہ امریکہ ایک غاصب اور قابض بیرونی قوت ہے۔
اگر جہادِ افغانستان کے نتیجے میں سوویت یونین بطورِ ریاست صفحۂ ہستی سے مٹ گیاتھا، تو اب امریکی رعب ودبدبے کی بھی وہ پہلے جیسی آن بان نہیں رہی۔ چنانچہ یوکرائن کے ایک حصے ''کریمیا‘‘میں روس سے اِلحاق کے لئے یک طرفہ ریفرنڈم اور اُس کے نتیجے میں رشین فیڈریشن کے ساتھ اِلحاق کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے علامتی اقدامات پر اکتفا کی اور زیادہ جارحانہ انداز نہیں اپنایا، یہ رُجحان (Phenomenon)ایک بدلتے ہوئے مَنظر کی نشاندہی کررہا ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ امریکہ کے مقابل ایسی سپر پاورجو اس کی برتری کو چیلنج کرے یا اس کے مظالم کے آگے ایک سدِّ راہ بن جائے ، کب اور کتنی قوت کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے؟، اس کا علم تو اللہ تعالیٰ ہی کو ہے، کوئی بھی یقینی اور قطعی پیشین گوئی نہیں کرسکتا۔
جہاد کا اعجاز کوئی نئی بات نہیں ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے اولین خطبۂ خلافت میں ، جسے ہم کسی بھی مہذب ومتمدن اسلامی ریاست کا منشور قرار دے سکتے ہیں،فرمایا تھا:'' جب بھی قومِ مسلم شِعارِ جہاد کو ترک کرے گی، تو اس پر ذلّت مُسلّط کردی جائے گی اور جب بھی اُمّتِ مسلمہ میں فحاشی (Obscenity)عام ہوجائے گی، تو اس پر آفات کا نزول ہوگا‘‘۔ پس حق اور سچ یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی حُرمت اور وقار کا راز جذبۂ جہاد میں مضمر ہے۔اگرچہ جِہاد کے عنوان کا غلط استعمال اور شریعت کی مَنشا کے خلاف اُس کی تطبیق بجائے خود ایک اَلمیہ ہے ۔
ہم جس ذہنی افتاد(Mind Set)کے مخالف ہیں اور اسے دینِ اسلام اور شریعت کی رُو سے کسی بھی درجے میں جائز نہیں سمجھتے اور اس کے باطل ہونے میں ہمیں کوئی شک وشبہ نہیں ہے، یہ وہ دہشت گردی ، قتل وغارت اور تخریب وفسادہے جو پاکستان کی سرحدوں کے اندر برپا ہے اور اس کے نتیجے میں پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں بے قصور انسانی جانوں کا اِتلاف ہوا ہے اور بعض تجزیہ نگاروں کے دعوے کے مطابق جانی نقصان کے اَعداد وشمار پچاس ہزار سے متجاوز ہیں ، جب کہ پاکستان کو مالی اعتبار سے سوارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے، اسے یکسر بند ہوناچاہئے اور یہ سلسلہ حتمی اور قطعی طور پر ختم ہوناچاہئے ۔ اگر مذاکرات پُرامن طریقے سے ہوسکیںتو پاکستان کے لئے بہت بڑی کامیابی ہے ، ورنہ ہرقیمت پر ملک وقوم کو اَمن وسلامتی فراہم کرنا ریاست کی ذمے دار ی ہے۔
تصوف کے سُوتوں کے خشک ہوجانے اور مراکزِ تصوف کے ویران ہوجانے کا جو میں نے ذکر کیا ہے، تمام قارئین نے اس کی تائید کی ہے۔ یہ مبارَک ومقدّس سلسلے چند مُستَثنیات کے سوا اب مِشَن کی بجائے معاش بن چکے ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بزرگانِ دین کے مزارات سے متصل دینی تعلیم، تزکیہ اور تربیت کے ادارے قائم ہوتے،انسانی فلاح ورِفاہ کے کام ہوتے ، شریعت وطریقت کی شمعیں روشن ہوتیں، راہِ راست سے بھٹکے ہوئے انسانوں کو دوبارہ ''صراطِ مستقیم ‘‘پر گامزن کیا جاتا، خدا فراموش بندوں کو خداشناسی کی راہ پر لگایا جاتا اور تاریک دلوں میں حُبِّ الٰہی اورعشقِ مصطفی ﷺ کی شمعیں روشن کی جاتیں اور مسلمانوں کو بے عملی کی کیفیت سے نکال کر کردار وعمل کا پیکر بنایا جاتا۔اِن آستانوں سے وابستہ ساری اَفرادی قوت سپاہ عزیمت بنتی اور آج جس بے کسی اور بے بسی کا ماتم کیا جا رہا ہے، اِس گریہ وزاری کی نوبت نہ آتی، بقولِ علامہ اقبال ؎
محرومِ تماشا کو پھر دیدۂ بینا دے
دیکھا ہے جو کچھ میں نے، اوروں کو بھی دکھلادے
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعتِ صحرا دے
جب حق میں باطل کی آمیزش کردی جائے یا دین کے نام پر دنیا سنواری جائے، تو علمائِ ربّانیین اور علمائِ حق کا کام ہوتاہے کہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا کئے بغیر کلمۂ حق بیان کریںاوراولیائِ کرام سے محبت کرنے والے سادہ لوح مسلمانوں کو اچھے اور برے کی تمیز سکھائیں اور بتائیں کہ ہر چمکدار چیز سونا نہیں ہوتی اور صحرا میں چمکتی ہوئی ریت سَراب ہوتی ہے ، سرچشمۂ خیر نہیں ہوتی ۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ عقابوں کے نشیمن پر قابض زَاغوں نے پیشہ وَر واعظین اور خُطباء کو نہایت ہوشیاری اور عیاری سے اپنا مارکیٹنگ ایجنٹ اور سیلز مین بنا لیا ہے اور دونوں کے اشتراک سے سادہ لوح عوام شکار ہورہے ہیں۔ وہ تَصوُّف جو کبھی طاقت تھااوروقت کے مُلوک اور سلاطین بھی ان اَہل اللہ کی وجاہت ، قوتِ ایمانی اور رُوحانی سَطوت وشوکت سے لرزتے تھے ، اب مُسْتَصوِفین کے حصار میں ہے اور یہی وجہ ہے کہ جن کو دِین سے کوئی واسطہ نہیں ، وہ ''صوفی اسلام‘‘ کے پرچارک اور پروموٹربن گئے ہیں،فیالِلعجب! ۔پس وقت کا تقاضا یہ ہے کہ حقیقی صوفیائِ کرام اور علمائِ حق اس خطرے کااِدرَاک اور اِس کی تلافی کی تدبیر کریں ۔حضرت سید علی ہجویری رحمہ اللہ تعالیٰ کے عہد تک تو مُسْتَصوِف (جعلی صوفی)کم ازکم ظاہر داری کے لئے دِین کا لِبادہ اَوڑھ لیتے تھے ،اب تو اِس اداکاری کی بھی ضرورت نہیں رہی۔