میڈیااور مدارس کے لوگ مسلسل رابطے کررہے ہیں کہ مدارس کے بارے میں کیا ہونے جارہا ہے۔ اچانک تحفظ مدارس کنونشنوں اور کانفرنسوں کا سلسلہ کیوں چل پڑا ہے، یہ اضطراب کی لہریں کیوں بلند ہورہی ہیں ، سوسچ یہ ہے کہ ہمیں اس کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے۔ جو حضرات سراپا احتجاج ہیں ، وہ سسٹم میں موجود ہیں ، پس قیاس کیا جاسکتاہے کہ انہیں اندر کی باتوں کا علم ہے، جب کہ ہم سسٹم سے باہر ہیں۔ ہمیں میڈیا کے ذریعے بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ وزارتِ داخلہ کی مرتب کی ہوئی ''قومی سلامتی پالیسی‘‘ میں دینی مدارس کے بارے میں کن عزائم کا اظہار کیا گیا ہے اورکیا کیا مقاصد واہداف مقرر کئے گئے ہیں؛تاہم اب تک کا تجربہ یہی ہے کہ پہلی بار جو پالیسی عالَمِ غرب سے نازل ہوئی تھی، اس کاعنوان ''مدرسہ ریفارم آرڈی ننس‘‘ تھا،جو اُس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے جاری کیا تھا، مگربالآخراپنی تمام ترخود سری اور خود اعتمادی کے باوجود یہ بھاری پتھر ان سے نہ اٹھایا گیا اوران کا یہ آرڈی ننس غیر مؤثر ہوگیا، حالانکہ اس کے ضمن میں ترغیب وترہیب یعنی Carrot & Stickکا ایک جامع پیکج بھی تھا۔ بعد میںپیپلز پارٹی کی گورنمنٹ میں اسی کا چربہ وزیرداخلہ عبدالرحمن ملک نے ''مدرسہ ریفارم اتھارٹی‘‘ کے نام سے پیش کیا اور سبز باغ بھی دکھائے ، مگر یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھی۔ بالآخر انہوںنے انتہائی عجلت میں ''اتحادِتنظیماتِ مدارس پاکستان‘‘ کی قیادت کے ساتھ ایک مفاہمتی دستاویز یعنی ایم او یو پر دستخط کئے اور ایک ماہ کے اندر معاملات کو حتمی وقانونی شکل دینے کا وعدہ کیا، لیکن :''پھر چراغوںمیں روشنی نہ رہی‘‘، بقول ِ غالب ؎
تیرے وعدے پہ جیے ہم، تو یہ جان، جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا
اب بھی شاید اس کو نئے سرے سے آراستہ کرکے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پیش کیا ہے اور اسے مجوزہ ''قومی سلامتی پالیسی ‘‘کا حصہ بنایا گیا ہے۔عین ممکن ہے کہ انہوں نے بھی اسے لفظ بہ لفظ نہ پڑھا ہو، بس سرسری طور پر نظر ڈالی ہو۔ ایک ٹیلی ویژن چینل نے بڑے منجھے ہوئے اور سینئر ارکانِ اسمبلی سے پوچھاکہ کیا آپ نے ''تحفظ پاکستان بل‘‘ پڑھا ہے، تواُن سب نے فرمایا:''نہیں‘‘ ۔ اسمبلی میں پیش کئے جانے والے بِل کوئی قیمتی پلاٹ تو نہیں ہوتے جن کی فائل کو غور سے پڑھا جائے اور ہمارے معززمنتخب ارکان اس پر اپنا قیمتی وقت صرف کریں۔ان کے کرنے کے او ر کام تھوڑے ہیں ۔
ویسے آج کل سسٹم بھی اہلِ احتجاج کے آستانۂ عالیہ پر سجدہ ریز ہے،اسی لئے ہمیں سمجھ نہیں آرہی کہ کس کو کس سے خطرہ ہے؟۔ عالی مرتبت وزیرِداخلہ چوہدری نثار علی خان انہی آستانوں کے طواف میں مصروف ہیں، چنانچہ ایک طرف تو وزیرداخلہ اپنی شان میںارکانِ سینٹ و قومی اسمبلی کی ادنیٰ جسارت بھی گوار ا نہیں کرتے ، لیکن یہاں ان کی کیفیت ،بقول مرزا اسداللہ خان غالب کچھ یوں ہے ؎
پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے
دل پھر طوافِ کو ئے ملامت کو جائے ہے
اگر جا نہ سکیں تو ٹیلیفونک رابطے قائم ہوجاتے ہیں، بلکہ ایسا لگتا ہے کہ بیعت کرچکے ہیں ۔ الغرض حکومت المعروف چوہدری نثار علی خان کے ساتھ اُن کی دوستی، قربت اورعقیدت اپنی معراج پر ہے ، تو پھر دینی مدارس کو خطرہ کس سے ہے؟، کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟۔خطرہ تو وہیں سے لاحق رہتاہے، لیکن اب وہاں ماشاء اللہ راوی ہر طرف چین لکھتاہے ۔
اہلِ نظر نے بتایا ہے کہ بیعت کی بھی کئی قسمیں ہیں : ایک بیعت استر شاد: جو رُشد وہدایت کے حصول اور روحانی جِلا وارتقا اور تزکیہ وتربیت کے لئے ہوتی ہے ۔ دوسری بیعتِ برکت: جو محض حصول ِبرکت کے لئے ہوتی ہے۔ تیسری بیعتِ منفعت : جو کسی بااثر شخصیت سے غیر معمولی منفعت کے حصول کے لئے ہوتی ہے، خواہ یہ منفعت دولت کی چمک دمک کی صورت میں ہو یا اس ہستی کے ذریعے کسی بلند منصب تک رسائی مطلوب ہو یا کسی صاحبِ منصبِ جلیلہ کا قرب مقصود ہو۔ چوتھی بیعتِ نجات: جو کس آفت ِ غیبیہ سے بچنے کے لئے کی جاتی ہے ۔
چوہدری صاحب کی بیعت مختلِفُ الجہات ہے ، مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب سے تو غالباً رُشد واسترشاد کے لئے ہوگی، لیکن مولانا سمیع الحق صاحب سے بیعت یقینا نجات اور دفعِ بلا کے لئے ہی ہوسکتی ہے۔ مولانا سمیع الحق نے تحریکِ طالبان ِ پاکستان کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد اپنی اس غیرمعمولی اہلیت واہمیت کو ثابت کردیا ہے ۔ صوفیائِ کرام سے سنا ہے کہ تسبیح پھیرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں : ایک یہ کہ آپ ایک ایک دانہ اپنی طرف کھینچتے چلے جائیں اور دوسرا یہ کہ ایک ایک دانہ گراتے جائیں۔پہلا طریقہ'' جَلبِ مَنفعَت‘‘ یعنی کسی متوقع نفع کے حصول کے لئے اور دوسرا طریقہ''دَفعِ مَضَرَّت‘‘یعنی کسی متوقع مصیبت کو ٹالنے کے لئے ہوتاہے۔ چوہدری صاحب کو ہمارا مشورہ ہے کہ ایک تسبیح ''جلبِ منفعت‘‘ کے لئے پھیراکریں اور دوسری ''دفعِ مَضَرَّت‘‘ کے لئے ، اس طرح دونوں مقاصد حاصل ہوتے رہیں گے۔
اس سیاق وسباق میں ٹی وی پر ٹکر چلتا ہوا دیکھا کہ حزبِ اختلاف نے احتجاج کیا ہے کہ بیوروکریٹس کے ذریعے تحریکِ طالبانِ پاکستان سے مذاکرات کئے جارہے ہیں اور ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ حکومت مذاکرت کے بارے میں In Camera(یعنی پس پردہ)بریفنگ دے۔ ہمیں حیرت ہے کہ کم وبیش روزانہ مولانا سمیع الحق، مولانا یوسف شاہ اور پروفیسر ابراہیم مذاکرات کی رَنِنگ کمنٹری On Camera(یعنی عَلانیہ) نشر کررہے ہوتے ہیں ، تو چوہدری نثار علی خاں صاحب پردے میں آکر اس سے زیادہ کیا بریفنگ دیں گے؟، اُن کی معلومات کا ذریعہ بھی تویہی حضرات ہیں۔
ہاں! اس کی بجائے پردے میں رہ کر کچھ اور راز ونیاز کی باتیں مقصود ہوں تو الگ بات ہے، اپوزیشن کو بیوروکریٹس کے ذریعے مذاکرات پر اعتراض ہے۔ لگتا ہے حکمران تووزیرستان نہیں جاناچاہتے، البتہ سید خورشیداحمد شاہ صاحب جانا چاہتے ہوں، تو وہ مولانا سمیع الحق کو ویزے کی درخواست دے سکتے ہیں ۔ مولاناسمیع الحق بڑے فراخ دِل ہیں، وہ شاہ صاحب کو مایوس نہیں کریں گے، اُن کی تو خواہش ہے کہ اُن کے آستانے پر رونقیں لگی رہیں اورمولانا فضل الرحمن ، متعدد اراکینِ اسمبلی اور سنیٹرزپر مُشتمل سیاسی قوت کے باوجوداُنہیں رَشک بھری نظروں سے دیکھتے رہیں۔ ویسے ایک بار کسی ٹرک کے پیچھے لکھا ہوادیکھا تھا: ''تم مجھے اچھے لگنے لگے ہو، کبھی آؤ نا باجوڑ‘‘۔ شاہ صاحب چلے چلئے، باجوڑ نہ سہی ، وزیرستان ہی سہی، بس ذرا واپسی کی گارنٹی مولانا سمیع الحق صاحب سے پیشگی لے لیجئے گا، میر تقی میر نے کہا تھا ؎
پتہ پتہ، بوٹا بوٹا، حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے
یعنی باقی دنیا کو معلوم ہے کہ طالبان ِ پاکستان کے مُطالبات ومطلوبات کیاہیں؟ ،ان کے بارے میں کسی ریسرچ کی ضرورت نہیں ہے۔اصل مسئلہ اُس وقت پیدا ہوگا جب زَرِ تلافی کی تقسیم کا مرحلہ آئے گاکہ کس کے توسط سے تقسیم کی جائے۔ یہ رقم یقیناًاربوں روپوںمیں ہوگی،اسی کی جانب تومولانا فضل الرحمن مُتوجہ کرتے رہتے ہیں کہ قبائلی جرگہ اس کا بہترین چینل ہیں۔ لیکن چوہدری صاحب مولانا کو سائیڈ لائن میں رکھے ہوئے ہیں، لگتا ہے یہ پالیسی دیر تک نہیں چلے گی،کیونکہ اصل سٹیک ہولڈر تووہی ہیں۔
ایک اور ٹکر امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا چل رہا تھا کہ ''دہشت گردی کنٹرول کرنے کے لئے ہم حکومتِ پاکستان کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں‘‘۔ اب یہ معلوم نہیں کہ اُن کے تعاون کی صورت کیا ہے۔اُنہوں نے اشارۃً کہا ہے کہ ہم ڈرون اٹیک حتی الامکان روکے ہوئے ہیں،ایسی صورت میں طالبان کے بہترین مفاد میں ہوگا کہ مذاکرات کی سیریز چلتی رہیں اورڈرون اٹیک کی آفت ٹلتی رہے ۔
ہمارا جمہوری کلچر بھی عجیب ہے، جب ہم حکومت میں ہوتے ہیں تو زاویۂ نظر کچھ اور ہوتاہے اور جب اپوزیشن میں آتے ہیں تو سوچنے کاانداز، پسند وناپسند کا معیار اور کسی کے منظورِ نظر ہونے یا اچانک آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکنے کے اطوار یکسر بدل جاتے ہیں۔ سابق حکومت کے دور میں تو دوہزار امریکن انٹیلی جنس کے کارندوں کو مسلمہ بین الاقوامی قوانین کو یکسر نظر انداز کرکے دبئی ائیر پورٹ پرویزے جاری کئے گئے اور اس کے نتیجے میں ریمنڈڈیوس جیسے واقعات سرزد ہوئے اور بلیک واٹر کی واستانیں میڈیا کی زینت بنیں ۔ آج وہی اپوزیشن ڈیڑھ ارب ڈالر کی آمد پر واویلا کررہی ہے، لیکن سب مطمئن رہیں یہ سب کچھ اوپر اوپر ہورہا ہے، اندر سے سب متفق ہیں اور پالیسی کی حدتک کوئی حقیقی اختلاف نہیں ہے۔