قرآن مجید میں آدم علیہ السلام کا نام17 مرتبہ ذکر ہوا ۔ اولادِ آدم کا تذکرہ 14 مقامات پر ''بنی آدم ‘‘ کے عنوان سے ، ایک مقام پر ''ذُرِّیّتِ آدم‘‘ کے عنوان سے،65مقامات پر ''انسان‘‘ کے عنوان سے ، 18مقام پر ''اِنس‘‘ کے عنوان سے ، 5مقامات پر ''اُناس‘‘ کے عنوان سے ، ایک مقام پر ''اُناسی‘‘ کے عنوان سے،ایک مقام پر ''اِنسِیٌّ‘‘ کے عنوان سے، 36مقامات پر ''بشر‘‘اور ایک مقام پرتثنیہ کے صیغے کے ساتھ''بشرین‘‘ کے عنوان سے ہوا۔ قرآن مجید کا مخاطَب بھی ''انسان‘‘ ہے اور نبوت ورسالت کا خطاب بھی ''انسان‘‘ سے ہے۔
اﷲتعالیٰ نے انسان کو عقل کی نعمت سے نوازا، انسان کے علاوہ ''جنات ‘‘ اور ''ملائک‘‘ اللہ تعالیٰ کی ''ذی عقل ‘‘ مخلوق ہیں اور اسی'' نعمتِ عقل ‘‘ کی بنیاد پر انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ''تشریعی احکام‘‘ کا مُکلَّف بنایا ۔ قدیم منطق کی اصطلاح میں انسان کو ''حیوانِ ناطق‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ''ناطق‘‘ سے صرف بولنے کی استعداد مراد نہیں ہے، بلکہ ''ادراک ‘‘ اور ''تَعَقُل‘‘ کی صلاحیت مراد ہے۔یہ وہ صلاحیت ہے جس کی بناپر انسان خیروشر ،ہدایت وضلالت ،حق وباطل اور صَواب وخطا میں تمیز کرتاہے۔ وہ کوئی کام کرنے سے پہلے اس کے اپنی ذات کے لئے نفع بخش اور ضرر رساں ہونے کا اندازہ لگاتاہے، یعنی اَفعال واعمال کے ارتکاب سے پہلے ان کے نتائج کے بارے میں سوچتا ہے۔ اﷲتعالیٰ نے اسی حقیقت کو ان کلمات میں بیان فرمایا:''کیا ہم نے اُس کی دو آنکھیں ، زبان اور دو ہونٹ نہیں بنائے اور ہم نے اس کو (خیر وشرکی) دونو ں راہیں بتادیں، (البلد:8-10)‘‘۔ اور فرمایا: ''پھر اس نے (نفسِ انسانی) کو اُس کی نیکی اور بدی الہام کردی، (الشمس:08)‘‘۔
الغرض اﷲتعالیٰ نے انسان کے نفس اور جِبلّت میں نیکی اور بدی میں تمیز کا مَلکہ عطا کیا اور خارجی طور پر اس کی رہنمائی کے لئے انبیائِ کرام اور رُسُلِ عِظام علیہم الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا اور الہامی کتابیں بھی نازل فرمائیں اور اس جامع نظامِ ہدایت کی حکمت بھی یہی بیان فرمائی : ''(اور ہم نے اپنی رحمت کی )خوشخبری دینے والے اور (اپنے عذاب سے) ڈرانے والے رسول بھیجے ، تاکہ رسولوں (کی بعثت) کے بعد لوگو ں کے لئے اﷲ پر (بدی کو اختیار کرنے کے حوالے سے) کوئی حجت (Justification)باقی نہ رہے، (النساء:165)‘‘۔اگرچہ اللہ تعالیٰ پر کسی کا کوئی حق یا استحقاق نہیں ہوتا، لیکن اس نے عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے یہ نظامِ ہدایت قائم فرمایاتاکہ اِتمامِ حجت ہوجائے۔
ابتدائِ آفرینش میں اﷲتعالیٰ نے آدم وحوا علیہا السلام کو جنت میں داخل کیا اور انہیں جنت کی نعمتوں سے مستفید ہونے کی آزادی عطا فرمائی، لیکن ان پر یہ بندش بھی عائد کردی کہ :''تم دونوں اس درخت کے قریب نہ جانا ، ورنہ تم حد سے بڑھنے والوں میں سے ہوجاؤگے،(البقرہ:35)‘‘۔ بشری کمزوری کے تحت حضرت آدم وحوا علیہما السلام نے اس حد(Barrier)کو توڑ دیا اور ممنوعہ چیز کے پاس چلے گئے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس ظاہری حکم عدولی کا سبب شیطانی وسوسے کو قرار دیا اور فرمایا:''پھر دونوں کے دلوں میں شیطان نے وسوسہ ڈالا ، تاکہ (انجامِ کار)ان دونوں کی شرمگاہیں ، جو اُن سے چھپائی ہوئی تھیں ، ان کو ظاہر کردے۔ اور اُس نے کہا: ''تمہارے رب نے اس درخت سے تمہیں صرف اس لئے روکاہے کہ کہیں تم فرشتے بن جاؤ یا ہمیشہ رہنے والوں میں سے ہوجاؤ‘‘۔اور اُس نے ان سے قسم کھا کر کہا:''بے شک میں تم دونوں کا خیرخواہ ہوں‘‘، پھر اُس نے فریب سے انہیں (اپنی طرف) مائل کرلیا، جب ان دونوں نے اس درخت سے چکھا ، تو ان کی شرمگاہیں ان کے لئے ظاہر ہوگئیں اور وہ اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑنے لگے اور ان کے رب نے ان سے پکار کر فرمایا : ''کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا تھا اور تم دونوں کو یہ نہ فرمایا تھا کہ بے شک شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے ‘‘۔ دونوں نے عرض کیا :''اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ فرمائے ، تو ہم ضرورنقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے ‘‘،(الاعراف:20-23)‘‘۔
یہاں سے شِعارِ آدمیت ہمارے سامنے آیا کہ آدم علیہ السلام نے اپنی خطائِ اجتہادی کا اعتراف کیا اور اس پر نادم ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے معافی کے خواستگار ہوئے۔ اپنی غلطی کا کوئی جواز (Justification)نہیں پیش کیا ، نہ ہی کسی منطق اور دلیل واستدلال کا سہارا لیا ۔ اس لئے کہ آدمیت اور بندگی اللہ تعالیٰ کے حکم کو غیرمشروط طور پر تسلیم کرنے اور اس کی تعمیل کانام ہے۔ بندے کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہر حکم میں خیر ہی خیر ہے، فلاح ہی فلاح ہے، اس میں کسی ناکامی اور نامرادی کا کوئی شائبہ بھی نہیں ہوسکتا۔ اس کی حکمت انسانی عقل ودانش میں آجائے تو یہ اس کی سعادت ہے اور نہ آئے تو یہ اس کی نارسائی ہے۔
اس کے برعکس اﷲعزّوجلّ نے ابلیس کو حکم فرمایاکہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو، اس نے اﷲتعالیٰ کے حکم کو رد کیا اور سجدہ نہ کیا۔ اﷲعزّوجلّ نے فرمایا:''(اے ابلیس!)تجھ کو سجدہ کرنے سے کس چیز نے منع کیا جبکہ میں نے تمہیں حکم دیا تھا، اس نے کہا:'' میں اس سے بہتر ہوں ، (اے اللہ!) تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے پیدا کیا ہے ‘‘۔ (اللہ نے فرمایا:)''تو یہاں سے اتر جا، تجھے یہاں گھمنڈ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، سو نکل جا ، بے شک تو ذلیل ہونے والوں میں سے ہے‘‘،(الاعراف:12-13)‘‘۔
ابلیس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو رد کیا اور اس پر نادم ہونے اور معافی کا طلب گار ہونے کے بجائے ، اپنے موقف کو درست جانا اور اس کے لئے دلیل واستدلال کا سہارا لیا ، جس کے نتیجے میں وہ ہمیشہ کے لئے راندۂ درگاہ اور ملعون قرار پایا۔ سو یہاں سے آدمیت وابلیسیت کا فرق واضح طور پر معلوم ہوا کہ اپنی خطا کو تسلیم کرنا ، اس پر نادم ہونا اور معافی کا طلب گار ہونا شِعارِ آدمیت ہے اور غلطی پر ڈٹ جانا اور اس کے لئے جواز تلاش کرنا ابلیسیت وشیطَنت ہے ۔
اس موضوع کا انتخاب میں نے اس لئے کیا کہ ہم اپنا جائزہ لیں کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کیا ہم شِعارِ آدمیت پر عمل پیرا ہوتے ہیں یا ابلیس کی روش کو اختیار کرتے ہیں۔ دیکھنے میں تویہی آرہا ہے کہ ہمارے وہ لوگ جو قیادت کے منصب پر فائز رہے ، ملک وقوم پر حکمرانی کی اور اس دوران انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں سے کئے گئے پیمانِ وفا کو توڑا ، قوم کے متفقہ دستور کو توڑا ، آج بھی اس پر ڈٹے ہوئے ہیں اور اس کے لئے ان کے پاس دلائل کا انبار ہے اورسیاہ کو سفید اور رات کو دن ثابت کرنے والے ماہرین کی جماعتِ کثیرہ اُن کی حمایت میں مستعد ہے۔ لیکن ہم کسی طور پر بھی شِعارِ آدمیت کو قبول کرنے اور اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ، یعنی ہم اپنی قومی اور ملی تاریخ کی سمت کو درست کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔
کاش کہ ہم بحیثیتِ قوم ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرکے ، ان پر نادم وشرمسار ہوکراور قوم سے معافی کے طلب گار ہوکر ایک نئے سفر کا آغاز کرسکتے۔ ہماری پوری قومی تاریخ اسی روش سے بھری پڑی ہے، ہم کسی طور پر بھی اپنے قومی مزاج کو بدلنے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ نہیں کرپاتے، اپنے پندار ا، عُجب اور تکبر کے بت کو توڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ہمارے لئے خیراسی میں ہے کہ قومی مجرم اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور یہ اعتراف قومی تاریخ کے ریکارڈ میں ہمیشہ کے لئے ثَبت ہو اور اس کے بعد معافی تلافی کا مرحلہ آنا چاہئے۔
لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اقتدار پر فائز یا قابض رہنے والے زُعما کو اپنی اِصابتِ فکر (Self Righteousness) کے پندار سے نکلنے کے لئے کبھی بھی تیار نہیں ہوتے، اسی لئے ہم بنی اسرائیل کی طرح ''وادیِ تیہ‘‘میں محوِ سفر ہیں ، جہاں سے چلتے ہیں ، واپس وہیں لوٹ آتے ہیں، بنی اسرائیل پر تو اس کیفیت میں چالیس سال گزر گئے تھے ، ہمیں 67سال گز ر چکے ہیں اور نہ جانے یہ سفر کب تک جاری رہے گا۔
ہمارا میڈیا معاصرانہ مسابقت کی وجہ سے قوم کو آگہی (Awareness)عطا کرنے کا سبب نہیں بن رہا ، ایک چینل کسی بات کو غلط ثابت کررہا ہوتاہے ، تو دوسرا اسی کو حق اور سچ ثابت کرنے پر تلارہتاہے۔ایسے ماحول میں قوم کی فکری رہنمائی نہیں ہوتی، بس ذہنی اور فکری انتشار میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، ہمیں ریٹنگ سے غرض ہے، قومی مفاد سے نہیں ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ہاں کوئی اصول مسلَّمہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اجماعی میثاق ہے۔