"MMC" (space) message & send to 7575

On the same page

ماضی میں ہم سنا کرتے تھے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز یا متعلقہ ادارے''آن بورڈ‘‘ ہیں، یعنی تمام اہم اداروں یا اہم مناصب پر فائز لوگوںکوکسی خاص مسئلے میں ہر قسم کے اقدام اوراس کے تدریجی مراحل سے آگاہ رکھا جارہا ہے یا یہ کہ انہیں اعتماد میں لے کر پیش قدمی کی جارہی ہے اور درپیش حالات سے نمٹا جارہا ہے۔ 
آج کل نئی سیاسی اصطلاح متعارف ہوئی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرزایک ہی صفحے پر ہیں،ا س کو کہتے ہیں ''On the same page‘‘۔ اس کابظاہر مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے باہمی مشاورت اور مکمل اتفاقِ رائے ( Total Consensus )کے ساتھ ہورہا ہے۔ حال ہی میں دو چار ملاقاتیں بھی میڈیا پر دکھائی گئی ہیں،لیکن مصنوعی مسکراہٹوں ، لیے دیے اور بجھے بجھے چہروںکے تاثرات اس دعوے کی تائید وتوثیق نہیں کرتے۔
دوسری جانب اچانک غیبی قوتیں حرکت میں آگئی ہیں اور پورے ملک میں ہَل چَل سی مچ گئی ہے۔ دفاعِ پاکستان کے خودساختہ ٹھیکیدارحرکت میں آگئے ہیں۔ اقتدارکے کھیل میں سائڈ لائن پر اچھے دنوں کے انتظار میں جو مایوس چہرے تھے ، وہ اچانک کھِل اٹھے ہیںاور سڑکوں پر آرہے ہیں، 60سال سے متجاوز عمرکے لوگوں کو1977ء کے '' تحریکِ نظام مصطفی ‘‘ کے مَناظرکی جھلک نظر آرہی ہوگی۔ 
تب بھی '' کہیں کی اینٹ کہیںکا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا ‘‘ کے مصداق متضاد عناصر'' ایک ہی صفحے ‘‘ پر تھے۔۔۔۔۔ قوم پرست ، دائیں بازو والے ، بائیں بازو والے ، سیکولر، منحرفین ، حتیٰ کہ مذہب بیزار، سب کے لبوں پر ''نظامِ مصطفی‘‘ کے نعرے تھے۔ ایسے منظر کی تصویر کشی قرآن مجید نے ان کلماتِ طیبات میں کی ہے:''(اے مخاطَب! ) توانہیں بظاہر یک جا(On the Same Page)گمان کرے گااور(حقیقتِ)حال یہ ہے کہ ان کے دل جداجداہیں‘‘ (یعنی اندر سے یہ بٹے ہوئے ہیں) (الحشر:14)۔ وہ کسی مشترکہ یا متفقہ ایجنڈے پر یک جا نہیں ہیں بلکہ منفی مقاصدکے لئے جمع ہوئے ہیں۔ اُن کی یک جائی کاراز ''حُبِّ علی نہیں ہے، بغضِ معاویہ ہے‘‘۔ انسانی تاریخ شاہد ہے کہ نفاق اور دھوکہ دہی پر مبنی کوئی بھی اتحاد یا تحریک کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوئی بلکہ جب وہ عروج پر پہنچتی ہے تواسے ہائی جیک کر لیا جاتا ہے اوراُن لوگوں کے حصے میں مایوسیاںاور پچھتاوے رہ جاتے ہیں۔ 
اسی طرح وزیر اعظم نواز شریف کو بھی اپنے اسٹیک ہولڈر ز سے دو ٹوک انداز میں بات کرنی چاہئے ۔ جن کو وہ ''ایک صفحہ ‘‘پر سمجھ رہے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ اُس کا صفحہ نمبر تو ایک ہو مگر'' کتاب ‘‘ اپنی اپنی۔ وزیر اعظم حد سے زیادہ خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے حالات کا شاید صحیح ادراک نہیں کرپارہے، اسے عربی میں تَعامی (To be Blind )اور تَصامّ ( To be Deaf )کہتے ہیں ، یعنی جان بوجھ کر حقائق سے نگاہیں پھیر لینا اور اندھا اور بہرا بن جانا۔ 
وزیر اعظم کویہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ پاکستان میں صدارتی نظامِ حکومت نہیں ، پارلیمانی نظامِ حکومت ہے، اسی پارلیمنٹ سے آپ اقتدارکشیدکرتے ہیں اور اسی سے آپ کٹے ہوئے ہیں، اس کا سامنا نہیں کرتے ۔ آپ پالیسیوں، اقدامات اوران کے نتائج کے بارے میں پارلیمنٹ کواعتماد میں لیناخود پر لازم کرلیں ۔ معاملات پر مباحثہ کرائیں، خواہ کھلا ہو یا پس پردہ (In Camera) ۔ 
وزیرداخلہ چودھری نثار علی خاں نے بھی پارلیمنٹ اورقوم کو مایوس کیا ہے،کسی کو خبر نہیں کہ ''مذاکرات‘‘ کے نام پرکیا ناٹک رچایا جارہا ہے، حکومت گونگی بہری بنی ہوئی ہے جبکہ شاہداللہ شاہدکے علاوہ مولانا سمیع الحق ، مولانا یوسف شاہ اور پروفیسر ابراہیم خان ہمہ وقت ٹیلیویژن چینلز پربراجمان ہیں ۔ میجر (ر) عامر شروع ہی سے اس طریقۂ کار سے اختلاف کرتے رہے ہیں، لیکن وضع داری ورواداری میںوہ کچھ عرصے تک بادلِ نخواستہ چلتے رہے، مگر اب وہ بھی مایوس ہوگئے ہیں اوراخباری ومیڈیائی مذاکراتی سلسلے سے لاتعلقی کا اعلان کردیاہے۔ دنیا میں کہیں بھی اس طرح کے حسّاس معاملات ومذاکرات کے احوال روز وشب ٹیلیویژن چینلزپرموضوع بحث نہیں بنتے، جب کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد ہوتاہے تو اس سے قوم کو آگاہ کیا جاتاہے۔ 
حکومت پرلازم ہے کہ قومی اور صوبائی سطح پر نمائندگی رکھنے والی بڑی جماعتوںکو بطورِ خاص مرحلہ بہ مرحلہ پیش رفت سے آگاہ کرے اور اُن کے مشورے سے پیش رفت کرے ۔ صوبہ خیبر پختونخواکی حکمران جماعت ہونے کی وجہ سے تحریکِ انصاف کی اہمیت نسبتاً زیادہ ہے۔ اسی طرح آئی ایس آئی اور دفاعی اداروںکو بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ ہر مرحلے پر شریکِ عمل رکھا جائے۔ اس طرح کامیابی کی صورت میں سب کریڈٹ کے بھی حق دار ہوںگے اور خدانخواستہ ناکامی کی صورت میں سب پر ذمہ داری یکساں طور پر عائد ہوگی، ورنہ ناکامی کا سارا ملبہ حکومت پر گرے گا، بلکہ اب زیادہ بہتر یہی معلوم ہورہا ہے کہ حساس اوردفاعی ادارے مذاکرات کی ڈرائیونگ سیٹ پر آجائیں ، تحریکِ طالبانِ پاکستان کا مطالبہ بھی یہی ہے اور اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ دونوں فریق حقائق سے باخبر بھی ہوں گے اور انہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ ہم اپنے مخالف فریق کوکیا مراعات دے سکتے ہیں اوراس کے بدلے میںکیا حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ دونوںکو ایک دوسرے کے مقابل اپنی سودا کاری کی پوزیشن کا بہتر علم ہے۔
راقم الحروف اُن خوش فہم لوگوں میں سے تھاکہ اب پاکستان میں مارشل لا قصۂ پارینہ ہے، ہم من حیثُ القوم ذہنی بلوغت کی منزل میں داخل ہوچکے ہیں، جمہوریت ہمارے قومی مزاج کا حصہ بن چکی ہے، میڈیا آزاد ہے، عدلیہ آزاد ہے اوراب پاکستان میں مارشل لاکی داستانیں ہماری آنے والی نسلیں صرف تاریخ اور نصاب کی کتابوں میں پڑھیں گی،لیکن گزشتہ دس دن کے مناظر دیکھ کر یہ غلط فہمی دوراور خوش فہمی کافور ہوچکی ہے۔ 
ہم بے صبر ے اور عُجلت پسند قوم ہیں ، سیاست دان، سیاسی جماعتیں اور ٹیلی ویژن چینلزایک دوسرے کی عداوت میں کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور انسان(اپنے لئے) جس طرح بھلائی کے جلد حصول کی دعا کرتاہے ، اسی طرح(فریقِ مخالف کے لئے) برائی کی دعا کرتاہے اور انسان بہت جلد باز ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل:11) یعنی انسان مغلوب الغضب ہوکر اپنے اہل، مال اور اولاد کے خلاف دعا کرتاہے اوراُس کی جلد قبولیت کی تمنا کرتاہے۔ اگر اللہ تعالیٰ یہ دعا قبول فرمالے تو وہ ہلاک ہوجائیں اور بعد میں یہ کفِ افسوس مل کررہ جائے گا اور اپنے کئے پر پچھتائے گا۔ مگرع اب پچھتائے کیا ہُوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت ! ہمارے جمہوریت پسند سیاست دانوںکو بھی جمہوریت صرف اُس صورت میں عزیز ہے جب وہ خود یاان کی جماعت اقتدار پر فائز ہواور اگر ایسا نہ ہو تو پھرکہتے ہیں ، بھلے سب بھاڑ میں جائے۔
مگر پاکستان مسائلستان بنا ہوا ہے ۔ افغانستان اور شمالی علاقوں میں فساد کے جو سوتے ہیں، ان کی رگیں زیر زمین رساؤ اور بہاؤکے راستے نکالتے ہوئے ہمارے ملک میں تقریباًہر جگہ قدم جما چکی ہیں اور پورا ملک ان کی گرفت میں ہے، وہ جہاں چاہیں اور جب چاہیں زمین کے بطن سے سرنکال کر اپنے گردوپیش کو بھسم کر دیتے ہیں ۔ ان کی جاسوسی اور خفیہ معلومات کے ذرائع ہماری ریاست کی سلامتی اور امن وامان کے اداروں سے زیادہ مؤثر ہیں۔
بلوچستان کی بے چینی کا عالم یہ ہے کہ نہ آپ وہاں معدنی ذخائر تلاش کرسکتے ہیں اور نہ ہی اُن کی رسد کو یقینی بناسکتے ہیں ، آئے دن کے بم بلاسٹ کی وجہ سے ہماری گیس کی ترسیل کے مصارف شاید دنیا میں سب سے زیادہ ہیں ، ایسے میں ممکنہ طور پر ایران سے درآمدکردہ گیس کی پائپ لائن کے تحفظ کی کیا ضمانت ہوگی؟
پس ان حالات میں قومی اور دفاعی ادارے مل کر ہی حالات کا مقابلہ کرسکتے ہیں،کوئی بھی مہم جوئی تباہ کن ہوگی۔ نہ ہم قناعت پسند ہیں اور نہ ہی عزیمت واستقامت ہمارا شیوہ ہے۔ دوراندیشی اور عاقبت بینی ہمارا قومی شِعارنہیں اور نہ ہم اپنی ماضی سے سبق سیکھتے ہیں۔ فوجی حکومت آئے تو اُس سے بھی جلد اُکتا جاتے ہیں اوربعدازخرابیِ بسیار جمہوریت آجائے تو وہ بھی ہم سے ہضم نہیں ہوتی۔ ہمارا ہر طبقہ خود ہی ایک دوسرے کا دشمن ہے ، ہمیں کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں