ضیاء الرحمن نے ڈھائی سال تکلیف میں گزارے اور ہمارا سارا خاندان اس دوران کرب کے لمحات سے گزرتا رہا۔ ڈاکٹر ادیب رضوی صاحب کی قیادت میں SIUTکی ٹیم نے بہت خیال رکھا، میں نے اُن کے پورے عملے کو جذبۂ خدمت سے سرشار پایا۔ ڈاکٹر الطاف ہاشمی صاحب ، ڈاکٹر نجیب نعمت اللہ صاحب اور ڈاکٹر بابر ملک صاحب اور ان کے پیرا میڈیکل اسٹاف کوہمدردی میں ڈھلا ہوا پایا۔ اﷲتعالیٰ اِن سب کے انسانی خدمت کے اس بے لوث جذبے کو قبول فرمائے اور دوسروں کو اس کی تقلید کی سعادت نصیب فرمائے۔
ایک دن سہ پہر کو میں ڈاکٹر نجیب نعمت اللہ صاحب سے ملنے گیا، وہاں ڈاکٹر ادیب رضوی صاحب تھے اور کھڑے کھڑے برگر کھا رہے تھے، شایدان کو اتنی ہی فرصت مل پائی ہوگی۔ ڈاکٹر ادیب رضوی صاحب نے ڈاکٹر نجیب نعمت اللہ صاحب کے بارے میں بتایا کہ یہ فرشتہ خصلت یعنی بے لوث انسان ہیں، یہ چاہیں تو روزانہ نوٹوں سے بوریاں بھر کر گھر لے جائیں۔ ظاہر ہے یہی کیفیت ڈاکٹر ادیب رضوی صاحب کی اپنی اور ان کے دیگر رفقا کی ہے۔ ہم ملک میں ایک طرف لوٹ مار، اغوابرائے تاوان اور سرکاری عمّال کی کرپشن کی ہوش رُبا داستانیں سنتے ہیں اور دوسری جانب معاشرے میں انسانی خدمت سے سرشار اس طرح کے لوگ بھی ہیں ، جن کو اللہ تعالیٰ نے قناعت اور سیر چشمی کی دولت سے نوازا ہے، یہ مَظاہر دیکھ کر امید قائم ہوتی ہے۔
اسلام کی تعلیمات کو دو لفظوں میں سمیٹا جائے، تو وہ ہیں: ''صبر اور شکر‘‘۔ رسول اللہﷺکا فرمان ہے (1):''مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے ، اُس کے ہر معاملے میں اس کے لئے خیر ہی خیر ہے اور یہ سعادت اللہ تعالیٰ نے صرف مومن کے حصے میں رکھی ہے، اگراسے راحت و شادمانی ملے اور اس پر شکر کرے، تو اس کے لئے خیر ہے اور اگر اُسے تکلیف پہنچے اور وہ اس پر صبر کرے تو بھی اس کے لئے سراسر خیر ہے، (مسلم:2999)‘‘۔(2): ''جب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ دنیا میں مصائب پر صابر وشاکر رہنے والوں کو بے پایاں اجر وانعام سے نوازے گا، تو دنیا میں عافیت وراحت میں رہنے والے یہ تمنا کریں گے : کاش دنیا میں ان کے گوشت کو قینچیوں سے کاٹا گیا ہوتا،(سنن ترمذی:2402)‘‘۔
جب ہم دکھی لوگوں کو اس طرح کی بشارتیں سناتے ہیں ، تو ہمارے آزاد خیال دوست طنز کرتے ہیں کہ یہ محض بہلاوے اور پُھسلاوے ہیں۔ بعض کے نزدیک ہم لوگوں کو یہ بشارتیں سناسنا کر بے عملی میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں ، موہوم امیدوں پر زندہ رکھنا چاہتے ہیں ، لیکن جنہیں وحی اور صاحبِ وحی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صدقِ قطعی پر ایمان وایقان ہے، اُن کے لئے یہ بشارتیں بڑا سہارا ہیں ، ایک آس بند ھتی ہے اور انسان دکھوں کو بھلا کر آگے قدم بڑھا لیتا ہے۔
ضیاء الرحمن سادہ اور بے ضرر سا انسان تھا۔ ہم نے بچپن سے لے کر وفات تک اسے کسی سے الجھتے نہیں دیکھا، کسی سے تُو تُو، میں میں کرتے نہیں دیکھا، کسی پر غیظ وغضب کے عالم میں نہیں دیکھا، اس سے آگے کے کسی مرحلے کا تو اس کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے میں نے اس کے سوئم کے پروگرام میں کہا : اس نے کسی کو دکھ نہیں پہنچایا،لہٰذا مجھے کامل یقین ہے کہ اللہ عزّ وجلّ بھی اسے برزخ وآخرت کے تمام مراحل میں دکھوں سے امان عطا فرمائے گا اور اپنی آغوشِ رحمت میں جگہ دے گا۔
ضیاء الرحمن نے پوری زندگی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کی،کبھی کوئی معمولی سی خواہش بھی ہوتی تو اپنی والدہ کے ذریعے اس کااظہار کرتا۔وہ اپنے آپ میں سمٹا ہوا انسان تھا، Reserveرہتا تھا۔وفات سے ایک دن پہلے جب وہ بے چین تھا ، وہ اشارہ کرتا تو ہم اسے سہارا دے کر بٹھاتے،لیکن پھر بیٹھنے کی ہمت نہ کرپاتا تو اسے لٹاتے۔ اس کے درد وکرب کو دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ اس نے کہا:''آپ رو رہے ہیں ، آپ تو بہت بہادر ہیں ، جس بات کو درست سمجھتے ہیں ، اس پر ڈٹ جاتے ہیں‘‘ ۔ اس نے میرے آنسوپونچھے، مجھے گلے لگایا، میرے سر، پیشانی اور رخسار کو بوسے دئیے اور اپنے آپ پر ضبط کیا اور آنسو بھی نہ ٹپکائے ، حالانکہ اندر سے اس کے وجود میں ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔
جب وجود کے داخلی اعضا ایک ایک کرکے کام کرنا چھوڑ رہے ہوں ، وجودِ انسانی کا طبیعی نظم آہستہ آہستہ مفلوج ومُعطَّل ہورہا ہو، تواُس کَرب کا ادراک وہی کرسکتا ہے، جو اس میں مبتلا ہوتاہے، ہم اندازہ ہی کرسکتے ہیں ۔ کبھی آنسو بہائے ، مگرفریادیں نہیں کیں ، ہر دکھ اور درد کو اپنے وجود ہی میں جذب کرتارہا۔ آخری دنوں میں اپنی بیوی سے صرف اتنا کہا:''محمد انیس الرحمن کو مارنا نہیں ، نورالعین کو کچھ نہ کہنا‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد انسان کی کتنی بڑی کمزوری ہوتی ہے۔ اسی لئے رحمۃ للعٰلمین سیدنا محمد رسول اللہ ﷺکی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ نکلے۔
میں نے ضیاء الرحمن کی فاتحہ وسوئم میں عرض کیا کہ ُدعا، دَوا، طبیب سب اسباب ہیں اور بیماری کے علاج کے لئے اسباب کو اختیار کرنا سنّتِ سیدالمرسلین ہے، لیکن یہ اسباب ، حیلے اور تدبیریں اسی وقت مؤثّر ہوتی ہیں ، جب ذاتِ مُسَبِّبُ الاسباب کی مشیت ہوتی ہے، اَمرِ ربِّی ہوتاہے، اس کا حکم ہر صورت میں نافذ ہو کر رہتا ہے، اس کی تقدیر اٹل ہے، اس کی قضا مُبرَم(Irrevocable, Final)ہے۔ البتہ اتنا فرق ضرورہے کہ مادّی اسباب غیرمؤثر ہوجاتے ہیں، دعا اللہ تعالیٰ کے پاس امانت رہتی ہے اور آخرت میں اجر کا باعث بنتی ہے۔
مجھے بیٹے کی وفات پر پورے ملک سے ، قومی زندگی کے تمام طبقات سے، جن میں سیاسی رہنما، عمائدینِ حکومت، زعمائِ ملت ، بلاامتیاز تمام مکاتبِ فکر کے علمائِ کرام ، ملک بھر سے اہلِ مدارس ، عوام ، بیرونِ ملک بھارت، جاپان، کوریا، برطانیہ ویورپ، کینیڈا وامریکہ، مشرق وسطیٰ الغر ض بے شمار مقامات سے لاتعداد ہمدردی وتعزیت کے پیغامات ، بیٹے کے لئے مغفرت اور بلندیٔ درجات اور ہمارے لئے صبر وثبات کی جتنی دعائیں ملیں ، خدا شاہد ہے اس کے عُشر عشیر تک کا میںتصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ دینِ اسلام کی نسبت ہے، اُس کے حبیبِ مکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وسیلۂ رحمت ہے، ورنہ: من آنم کہ من دانم ، نہ کوئی علمی کمال اور نہ عمل کا کوئی قابلِ افتخار سرمایہ، وَرَع اور تقویٰ تو دور کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ سب مخلصین کو اپنے بے پایاں اجروجزا سے نوازے۔
آخر میں اپنے تمام قارئین سے التجا ہے کہ وہ ضیاء الرحمن کی مغفرت اور آخرت میں سرخ رو ہونے کے لئے دعا فرمائیں، اﷲتعالیٰ اسے اپنے حبیبِ کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شفاعتِ مقبولہ اور جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے ۔ اس کاسات سالہ بیٹا محمد انیس الرحمن اور تین سالہ بیٹی نورالعین ہے، دعا فرمائیں اللہ تعالیٰ انہیں اپنے حفظ وامان میں رکھے اور ان کی بہترین تعلیم وتربیت اور نگہداشت وپرداخت کے لئے غیب سے اسباب مقدر فرمائے۔ اس کی تین سالہ بیٹی نورالعین اب بھی کہتی ہے : ''میرے بابا ہاسپیٹل میں ہیں‘‘ ، پھر موبائل فون کان سے لگا کرکہتی ہے:''ہیلو بابا! آپ کیسے ہیں؟‘‘، دل پر چوٹ سی لگتی ہے، آخر: ''دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں‘‘۔
ایک بار اور عرض کرتا چلوں کہ ضیاء الرحمن کی سانس رک کر آرہی تھی، اسے آکسیجن لگائی گئی، ڈاکٹر ادیب رضوی صاحب اپنی ٹیم کے ہمراہ تشریف لائے اور کہا کہ ہم سب خدمت کے لئے موجود ہیں ۔ میں نے عرض کی: اگر قضائِ الٰہی سے اس کی سانسیں ختم ہیں ، تو میں اﷲ کی قضا پر راضی ہوں۔ میں نے بہت سے لوگوں کو شدید کرب میں Ventilatorپر دیکھا ہے ، میں اِسے اِس منظر میں نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس مرحلے میں ، میں نے ہاسپیٹل میں اپنے ایک دو دوستوں کے ساتھ باجماعت نمازِ عشاء پڑھی اور فرض کے بعد اللہ عزّ وجلّ سے دعا کی: ''اے اللہ!اگر ضیاء الرحمن کی موت مقدر ہے، تواُسے اِس کے لئے آسان کردے‘‘ ۔ پھر سنتیں اور وتر کی نماز پڑھی تو سلام پھیرتے ہی میرے ایک بھتیجے محمد جواد نے بتایا کہ بھائی جان چلے گئے۔ اس نے میرے چھوٹے بھائی سیف الرحمن کی گود میں جاں جاں آفریں کے سپرد کی، وہ سورۃ یٰسین پڑھتے رہے۔ انہوں نے ایک ماہ تک ضیاء الرحمن کی بہت خدمت کی، اللہ تعالیٰ انہیں ماجور فرمائے۔