اﷲتعالیٰ نے قرآن مجید میں غزوۂ بدر کو ''یوم الفرقان‘‘ سے تعبیر فرمایاہے، یعنی حق وباطل اور اسلام وکفر کے درمیان فیصلہ کن دن ، حق اور باطل کو پرکھنے کی کسوٹی اور میزان ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''اگر تم اللہ پر اور اُس (نصرتِ غیبی) پر ایمان رکھتے ہو، جو ہم نے اپنے بندے پر ''یوم الفرقان‘‘ کو نازل فرمائی ، جس دن دو لشکر ایک دوسرے کے مقابل صف آراہوئے،(الانفال:41)‘‘۔دوسر ی چیز جسے اللہ تعالیٰ نے ''فرقان‘‘ سے تعبیر فرمایا، وہ قرآن کریم ہے۔
بدر مدینہ منورہ سے تقریباً ستر میل کے فاصلے پر ایک میدان ہے، جہاںحق وباطل کا یہ معرکہ17رمضان 02ھ کو بر پاہوا۔ ابتدا میں مسلمان ابوسفیان کے تجارتی قافلے کی ناکہ بندی کے لئے گئے تھے، کیونکہ اس تجارتی قافلے کا سارا منافع مسلمانوں کے خلاف جنگی مقاصد پر صرف ہونا تھا۔ ڈاکٹرحمید اللہ مرحوم نے لکھا ہے کہ مجھ سے پی ایچ ۔ ڈی کے مقالے کے زبانی امتحان کے موقع پر ممتحن نے پوچھا:''کیا تجارتی قافلے کی ناکہ بندی اخلاقی اعتبار سے درست ہے؟‘‘۔ میںنے جواب دیا:ـ''موجودہ متمدّن دنیا میں بھی حالتِ جنگ میں دشمن کی رسدکو ہدف بنایا جاتاہے‘‘ ، اس پر ممتحن خاموش ہوگیا اور مجھے پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کردی گئی۔
ابو سفیان کو جب اپنے تجارتی قافلے کی ناکہ بندی کی مہم کا پتا چلا، تو اس نے قریشِ مکہ کو مدد کا پیغام بھیجا۔ مشرکینِ مکہ اطلاع ملتے ہی پوری جنگی تیاری کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ اس دوران ابوسفیان کا تجارتی قافلہ راستہ بدل کر سلامتی کے ساتھ اپنی منزل پر پہنچ گیا اور قریش مکہ کے لشکر کو اطلاع بھی مل گئی، مگر طاقت کے زعم میں انہوں نے مسلمانوں کے خلاف معرکہ آرا ہونے کا حتمی فیصلہ کرلیا اور بدر کے مقام پر پڑاؤ ڈالا اور اپنی ترجیح کے مطابق اپنے لئے جگہ کا انتخاب کیا۔
مسلمان بنیادی طور پر باقاعدہ منظم لشکر کے ساتھ جنگ کا منصوبہ کرکے نہیں آئے تھے، اس لئے انتہائی عجلت میں جو افرادی قوت اور وسائل دستیاب ہوئے ، لے کر چل پڑے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:''اور یاد کرو جب اللہ نے دو گروہوں (تجارتی قافلہ اور لشکر قریش) میں سے ایک پر تم سے (غلبے) کا وعدہ فرمایاتھا کہ یہ تمہارے لئے ہے اور تم چاہتے تھے کہ غیر مسلح گروہ تمہارے ہاتھ لگے اور اللہ نے ارادہ فرما لیا تھا کہ اپنے کلمات سے حق کو ثابت کردے، خواہ مجرموں کو (یہ امر) ناگوار ہو،(الانفال:7-8)‘‘۔ یعنی اگر تجارتی قافلے پر مسلمان غلبہ پابھی لیتے، تو کفار مکہ طَعن کرتے کہ کون سا تیرمارا، باقاعدہ منظم لشکر کا مقابلہ کیا ہوتا تو پتا چل جاتا۔
کفار مکہ نے اپنے لئے بہتر محل وقوع کا انتخاب کرلیا تھا، پانی کا ذخیرہ بھی کرلیاتھا، اُن کی طرف کی زمین سخت تھی اور اس پراُن کے لئے چلنا پھرناآسان تھا اور مسلمانوں کے طرف کی زمین رتیلی تھی، اس پر چلنا پھرنا دشوار تھا اور پانی کی قلت کا یہ عالم تھا کہ غُسلِ واجب اور وضو کے لئے بھی پانی بقدرِ ضرورت دستیاب نہیں تھا، ایسے عالم میں شیطان نے دلوں میں وسوسے ڈالے۔ اللہ تعالیٰ نے غیبی اسباب سے زمینی حقائق کو یکسر تبدیل فرمادیا ۔ مسلمانوں پر غنودگی طاری فرما دی اور آسمان سے بارش برسا دی، کفار کی سخت زمین کیچڑ اور پھسلن والی اور مسلمانوں کی رتیلی زمین سخت ہوگئی اور وافر مقدار میں پانی بھی دستیاب ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا؛''یاد کرو جب اللہ اپنی طرف سے بے خوفی کے لئے تم پر غنودگی طاری کررہا تھا اور تم پر آسمان سے بارش نازل کررہا تھا تاکہ اُس کے ذریعے تمہیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ناپاکی دور کردے اور تمہاری ہمت بندھائے اور اس کے ذریعے تمہیں ثابت قدم کردے،(الانفال:11)‘‘۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوسرا غیبی فیصلہ یہ ہوا کہ اس نے اپنے نبی کریم کو بھی خواب دکھایا اور کفار کو بھی خواب دکھایا۔ سورۂ الانفال میں آیات44-43میں اس خواب کی تفصیل یہ بیان کی گئی ہے کہ نبی کریم ؐکو کفار تعداد میںکم دکھائے گئے اور کفار کو مسلمانوں کی تعداد کم دکھائی گئی۔ مسلمانوں کی نظروں میں کفار کو کم دکھانے کی حکمت تو عقل میں آتی ہے کہ مسلمانوں کے حوصلے بلند رہیں اورجم کر لڑیں۔ لیکن مسلمانوں کی تعداد کم دکھانے کی حکمت ظاہر بیں عقل کی سطح سے بلند تر معاملہ ہے، کیونکہ انسانی عقل تو یہ کہے گی کہ مسلمان زیادہ دکھائے جاتے تاکہ کفار پر ہیبت طاری ہوجاتی اور ان کے حوصلے پست ہوجاتے۔ لیکن اس صورت میںوہ میدان سے پسپائی بھی اختیار کرسکتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی فیصلہ فرما لیا تھا کہ آج حق اور اہلِ حق کو غالب ہی کرنا ہے اور کفار کوذلیل ورسوا کرنا ہے، اس کے لئے اُن کا میدان میں جما رہنا ضروری تھا۔
قرآن مجید میں فرشتوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی غیبی تائید اور نصرت کا بھی بیان ہے اور بعض روایات کی رو سے فرشتوں نے جنگ میں حصہ بھی لیا، لیکن امام فخرالدین رازی کا موقف یہ ہے کہ فرشتوںنے عملاً جنگ میں حصہ نہیں لیا بلکہ ُان کا نزول مسلمانوں کی ہمت بندھانے کے لئے تھا،ورنہ صحابۂ کرام ؓکو غیرمعمولی شجاعت اور بظاہر ناقابلِ یقین فتح کا اعزاز کیسے ملتا، وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے استدلال کرتے ہیں:''اور اللہ تعالیٰ نے اس (ملائک کے نزول) کو تمہارے لئے صرف خوش خبری بنایا تاکہ اس سے تمہارے دل مطمئن رہیں اور نصرت تو بس اللہ ہی کو جانب سے ہوتی ہے،(الانفال:10)‘‘۔ جب رسول اللہ ﷺ کو یہ معلوم ہوا کہ کفارِ مکہ کے تمام بڑے بڑے سردار بدر میں موجود ہیں ، توآپ ﷺ نے فرمایا:''اہلِ مکہ نے اپنے جگر پارے تمہاری طرف بھیج دئیے ہیں‘‘۔
افرادی قوت کے اعتبار سے مسلمانوں اور کفار کا تناسب ایک اور تین کا تھا، لیکن سامانِ حرب اور مادّی وسائل کے اعتبار سے کُفّارمکہ شاید دس گنازائد تھے۔ اُس زمانے کے جنگی دستور کے مطابق سب سے پہلے نامی گرامی سورما میدان میں اترتے اور ون آن ون مقابلے کا چیلنج دیتے۔ کفار کی طرف سے عتبہ ، شیبہ ، ولید اور اُمیّہ بن خلف میدان میں اترے، اِدھر سے انصاری جوان میدان میں کودے ۔ عتبہ نے کہا: محمد! یہ کسان ہمارے جوڑ کے نہیں ہیں ، ہماری ٹکر کے مرد میدان میں بھیجو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بنوہاشم اٹھو اور حق کی حمایت کے لئے میدان میں اترو، چنانچہ حضرت امیر حمزہ ، حضرت علی اور حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہم میدان میں اترے۔ یہ وہ اُسوہ اور رول ماڈل ہے ، جو امام المرسلین نے پیش فرمایا اور آج تک عدیم النظیراور فقید المثال ہے۔عتبہ نے پہچان کر کہا: ''یہ برابر کا جوڑ ہے‘‘۔ پھر گھمسان کا رن پڑا، اس امت کے فرعون ابوجہل کو دوانصاری نوجوانوں نے زیر کیا۔ 70کفار ِمکہ ذلت کی موت سے دو چار ہوئے اور چودہ صحابۂ کرام شہید ہوئے ۔ا للہ کایہ فرمان سچ ثابت ہوا:'' کہہ دیجئے !حق آگیا اور باطل مٹ چکا ، (آخرِ کار) باطل نے مٹنا ہی ہے،(بنی اسرائیل:81)‘‘۔
اب آئیے! اس طرف کہ قرآن کریم نے بدر کو ''یوم الفرقان‘‘ سے کیوں تعبیر فرمایا؟۔ ذرا بدر میں ایک دوسرے مقابل صف آرا لشکروں کا جائزہ لیں۔ ان کا ایک دوسرے کے ساتھ نسب ونسل یعنی خون کا ، قبیلے اور برادری کا اور زبان ووطن کا ہر وہ رشتہ موجودتھا، جو انسانوں کو باہم جوڑتاہے، جس کو سربلند رکھنے کی خاطر اُس دور میں بیسیوں سال تک انتقامی جنگوں کا سلسلہ جاری رہتاتھا۔ لیکن آج وہ براہِ راست ایک دوسرے کے ساتھ کیوں برسرپیکار تھے؟، صرف اس لئے کہ یہ رشتے ایمان اور اسلام کے رشتے سے متصادم تھے ۔ تو پھر بدر کا پیغام یہ ہے کہ دنیا کے تمام رشتوں اور قرابتوں کی اہمیت مُسلّم ، لیکن جب یہ رشتے ، رشتۂ ایمانی سے ٹکرا جائیں ، تو انہیں ایمان پر قربان کرکے پرچم اسلام کو سربلند وسرفراز رکھا جائے گا۔
کوئی ہے جو آج اپنے ایمان کو بدر کی کسوٹی پر پرکھ کر کھرا اور سچا ثابت کرسکے، کوئی ہے جو اپنے دل ودماغ میں پالے ہوئے طرح طرح کی عصبیت کے بتوں کو پاش پاش کرکے اپنے دل میں شمع ِایمان کو فروزاں کرے،د عویٰ آسان ، مگر ثبوت مشکل ہے ، اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا:''جس نے عصبیت کی طرف دعوت دی، جو عصبیت کی خاطر لڑا اور جس کی موت عصبیت پر ہوئی ہو ، وہ ہم میں سے نہیں(یعنی اس کا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے)‘‘۔ صحابی ؓنے پوچھا:''یارسول اللہ ! عصبیت کیاہے؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ''عصبیت یہ ہے کہ تو ظلم میں اپنی قوم کا مددگار بن جائے ‘‘۔