"MMC" (space) message & send to 7575

اُمّتِ مُسلمہ کی زَبوں حالی

اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ ڈالے ہیں ۔بے قصور بچوں ،عورتوں اور بوڑھوں کو نہایت سفّاکی کے ساتھ شہید کردیا گیاہے اور اسرائیل فلسطینیوں سے غزہ کی پٹی سے اِنخلا کا مطالبہ کررہاہے ۔اَقوامِ متحدہ،حقوقِ انسانی کے عالمی ادارے اور اہلِ مغرب کا اجتماعی ضمیر اِس سفّاکی کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کررہا ۔ماضی میں لارڈ برٹرینڈرسل نے شمالی ویت نام جنگ کے حوالے سے لندن میں امریکا کے جنگی جرائم کے خلاف ایک پرائیویٹ عالمی عدالت قائم کی تھی ، جس میں عالمی شہرت کے حامل وکلاء اور حقوقِ انسانی کے علمبردار شامل تھے ، پاکستان کے ممتاز قانون دان جناب محمودعلی قصوری بھی اُس ٹرائیبونل کے رکن تھے ۔اِس عدالت نے امریکا کوشمالی ویت نام میں جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیاتھا ،یہ دراصل امریکا کے خلاف عالمی سطح پر اجتماعی ضمیر کا پُرزور علامتی احتجاج تھا ۔اِس کا مُثبت اثر مرتب ہواتھااورخود امریکا اور مغرب میں ویت نام کی جنگ کے خلاف ایک مؤثر تحریک برپا ہوئی تھی ،جس کے نتیجے میں امریکا کو ویت نام سے اپنی فوجیں واپس بلانا پڑیں ۔
مگرہم ایک عرصے سے دیکھ رہے ہیں کہ یورپ اور امریکا میں امریکی اَفواج کے عراق ، افغانستان اور دنیاکے دیگر خطوں میںمظالم کے خلاف کوئی مؤثر احتجاج نہیں ہورہا ۔اَقوامِ متحدہ اور حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیمیں امریکا کے عالمی استعماری مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے آلۂ کار بن گئیں ہیں۔ مغرب میں خاص طورپر نہایت سائنٹیفک طریقے سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پیداکردی گئی ہے ۔اور اُس کے نتیجے میںامریکا اور مغربی دنیا پوری طرح سے اسلام دشمنی میں متحد ہیں ۔ یہی صورتِ حال اسرائیل کے مظالم اور جنگی جرائم کے حوالے سے ہے ۔فلسطینیوں کو اپنے آبائی وطن سے محروم کردیاگیاہے اور اُنہیں اپنے علاقے میں ایک کمزور سے کمزورعلامتی حکومت بنانے کی بھی اجازت نہیں ہے ۔
عراق ،افغانستان ،پاکستان اور فلسطین میں تسلسل کے ساتھ انسانی قتل وغارت اور بہیمانہ مظالم کے مظاہر عالمی میڈیاپر دکھائے جاتے ہیں،حتّٰی کہ انہیں زندگی کا معمول سمجھ لیاگیاہے اوربدترین انسانیت کُش مظالم کے مناظر کو دیکھ کر بھی کوئی رَدِ عمل یا رحم کے جذبات پیدانہیں ہوتے۔اُمّتِ مُسلمہ بجائے خود اِس قدر مُنتشر،مُنقسم اور باہم مُتصادم ہے کہ مستقبلِ قریب میں اُس کے یکجاہونے کے امکانات معدوم ہیں ۔پاکستان ، ایران، سعودی عرب ،مُتحدہ عرب امارات ،عراق ،شام اور مصر سب اپنے اپنے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اور اگرچہ سب کافی حد تک امریکا کے تابع ہیں ، مگر عالمی استعمار نے اُنہیں ایک دوسرے کا حلیف بننے کے بجائے حریف بنادیاہے ۔اہلِ نظر مستقبلِ قریب میں مسلم ممالک کی مزید تقسیم دَرتقسیم کے خدشات شدّت سے محسوس کررہے ہیں ۔
ایسے حالات میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد یاد آتا ہے کہ:(1)''اے مخاطَب!تواہلِ ایمان کو ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے ،ایک دوسرے پر رحم کرنے اورایک دوسرے کے ساتھ مہربانی کے ساتھ پیش آنے میں ایک جسم کی مانند دیکھے گاکہ جب ایک عضو کوکوئی درد یا تکلیف ہوتو اس کی وجہ سے سارا جسم بیداری اور بخار میں مبتلا ہوجاتاہے ،(بخاری:6011)‘‘۔(2) مومن باہم ایک فردکی مانند ہیں کہ اگرکسی کی ایک آنکھ میں تکلیف ہوتو اس کی کَسَک پورا وجود محسوس کرتاہے اوراگر سرمیں تکلیف ہوتواس کا دردپورا بدن محسوس کرتاہے،(مسلم: 6584 )‘‘۔
ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ غیر سرکاری سطح پر مسلمانوں کی وَقیع اور بااعتماد عالمی تنظیموں کا کوئی فورم بنایا جائے اور مغرب کے انصاف پسندیہود ونصاریٰ کے علماء اور حقوقِ انسانی کے فعّال لوگوں کو اُس میں شامل کیاجائے اور اِن مظالم کے خلاف کم ازکم اَخلاقی اور سیاسی بنیادوں پر ایک مؤثر آواز بلند کی جائے ۔
گزشتہ دنوں خبر پڑھی کہ متحدہ عرب امارات کی ایک شہزادی نے برطانیہ کے کیسینو(جواخانے) میں لاکھوں پاؤنڈ ہار دیئے ،یہ سنگ دلی اور شقاوت کی انتہا ہے کہ ان سے چند سوکلومیٹر کے فاصلے پر غزہ کی پٹی میں فلسطینی بچوں ،عورتوں ،بوڑھوں اورجوانوں کے لاشے پڑے ہیں،اُن کے دکھ درد بانٹنے والا کوئی نہیں ہے ،کہاں گیا اُمّت وملّت کا تصور اور اسلام اورایمان کا اٹُوٹ رشتہ ،حتیٰ کہ عربی قومیت کا رشتہ ،سب اپنی عشرتوں اورعیش ونشاط میں دادِعیش دے رہے ہیں۔امت مسائل سے یہی تو وہ لاتعلقی ،بے حسی ،بے اعتنائی ،خود غرضی اورسنگ دلی ہے،جو انتہاپسندی کو جنم دے رہی ہے اورعالم اسلام کے تمام خطوں میں نہایت سُرعت کے ساتھ انتہا پسندوں کو غیر معمولی پذیرائی مل رہی ہے ،کیونکہ نوجوان کویہ باور کرایا جارہاہے کہ آخرِکار اگر مظلومیت کی موت ہی ہمارا مقدر ہے،توکیوں نہ دشمن کو مارکے غازی بنیں یاجامِ شہادت نوش کریں اور ان کے نزدیک ظالم وسفاک یہودونصاریٰ اوراس دور کی نمرودی اورفرعونی طاقتوں کے کاسہ لیس ،آلۂ کار اور ان سے اپنے اقتدار کا تحفظ مانگنے والے مسلم سلاطین وملوک اورحکمرانوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اب تو اس ضمن میں ائمۂ حرمین کے فتوے ،وعظ اورخطبات بھی بے توقیر ہورہے ہیں،کیونکہ انتہا پسندان علماء کوبھی اپنے حکمرانوں اور استعمار کا ایجنٹ سمجھ رہے ہیں۔ ملک عبداللہ نے مصر میں محمد مرسی کی منتخب حکومت کو معزول کرانے اور غاصب جنرل سیسی کی سیاسی، مادّی، مالی اور اَخلاقی حمایت کرکے ایسی غلطی کی ہے ،جس کی تلافی بظاہر عملاً ناممکن ہے اور مصر کی فوجی حکومت کی جانب سے ''الاخوانُ المسلمون‘‘ پر بے پناہ مظالم نے اس نفرت کو دو آتشہ بلکہ سہ آتشہ بنادیاہے۔
اِس وقت بحیثیتِ مجموعی نارتھ وزیرستان کے بے گھر لوگوں (IDPs)کے بارے میں بھی صورتِ حال تقریباً ایسی ہی ہے ۔ آزادکشمیر اور ہزارہ کے زلزلے اورمالاکنڈ سوات کے آپریشن کے موقع پر پوری قوم متاثرین کی مدد کے لئے یکسو ہوگئی تھی اور عالمی برادری کو بھی حکمت کے ساتھ مُتوجہ کردیاگیا تھا ،اُس میں میڈیا کا بھی نہایت مُثبت اور حبّ الوطنی سے سرشار کردار تھا ،جس سے ایک متحد ومنظم اور ایک دوسرے کے دکھ دَرد میں شریک ہونے والی قوم کا تأثر پیداہوا ۔لیکن اس وقت صورت حال اس سے بالکل مختلف ہے۔ وفاقی اورصوبائی حکومت کا آپس میں نہ اُس طرح کا اعتماد کا رشتہ ہے اورنہ ہی مؤثر رابطہ ہے۔دونوں حکومتیں اپنے اپنے انداز میں مصروف کارہیں۔ دونوں نمبر گیم میں اپنے مقابل دوسرے کی کارکردگی کی نفی کرتی ہیں یا اسے ناکامی سے تعبیر کرتی ہیں اور بحیثیتِ مجموعی اس کا نقصان قومی اور ملّی وحدت کو پہنچتاہے ۔کم ازکم اتنا توہوکہ متاثرین کا سروے یعنی صحیح اعداد وشمار کا ڈیٹا ایک ادارے کے سپرد ہو،جو آئندہ چل کر منصوبہ بندی اوربحالی کی صحیح قانونی اور اخلاقی اساس بنے اورغیر مقامی لوگوں کابھی کوئی نہ کوئی ڈیٹا مرتب کیا جاسکے۔ مرکزیت کے فقدان کے باعث اعداد وشمار کے بارے میں جو دعوے کئے جارہے ہیں،ان کا تفاوت ہزاروں میں نہیں ،بلکہ لاکھوں میںہے۔جولوگ اپنے انتظامات کے تحت کہیں منتقل ہوئے ہیں یا اپنے عزیزوں ،رشتے داروں اوراحباب کے ہاں مقیم ہیں،ان کا بھی متاثرین میں اندراج لازمی ہونا چاہئے تاکہ مکمل اعدادوشمار سامنے آئیں ،کیونکہ وزیراعظم محمد نواز شریف نے سب کو بحال کرنے اورنئے مکانات تعمیر کرکے دینے کا وعدہ کیاہے۔
حکومت شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے کامیابی کے ساتھ انجام پذیر ہونے کا کوئی حتمی شیڈول دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے،بظاہر یہ ناخوشگوار عمل طویل ہوتادکھائی دے رہاہے ،جس سے نفرت کی خدانخواستہ ایک نئی لہر پھوٹ سکتی ہے۔حکومت اس بحران سے پہلوتہی کرکے اپنے اقتدار کے عرصے کو آکسیجن فراہم کرنے کی تدبیر میں لگی ہوئی تھی ،مگراب معاملہ بالکل اُلٹ ہوگیاہے۔ ہماری مسلح افواج اورریاست سے برسرپیکار عناصر نے ابھی بہت بڑے پیمانے پر جوابی انتقامی کارروائیاں شروع نہیں کیں۔ لیکن اگر سمندر کایہ سکوت عارضی ہے اور انہوں نے حکمت عملی کے تحت اپنی پوری قوت اور مالی ،مادّی وٹیکنیکی قوت اورافرادی اثاثوں کو محفوظ ٹھکانوں اورپناہ گاہوں میں منتقل کردیاہے اور اچانک بڑا رَدعمل سامنے آسکتا ہے ،توپھر خدانخواستہ خاکم بدہن ایک بہت بڑے خطرے اورتباہی کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتا ہے،لہٰذا بہتر ی کی امیدرکھتے ہوئے بدترین حالات کا سامنا کرنے کی بھی پیشگی تدبیر ہونی چاہئے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں