14 اگست سے پوری قوم شدید ذہنی اذیت، درد اور کرب سے گزررہی ہے اور خدشہ ہے کہ بہت سے لوگ نفسیاتی مریض بن جائیں گے۔ معیشت کی بربادی، نظمِ اجتماعی کا بے توقیر اور مفلوج ہونا ایک الگ المیہ ہے۔ ہم بحیثیت ملک وقوم عالمی سطح پر تماشا بنے ہوئے ہیں اور جنہوں نے اس سارے ناٹک کو یہاں تک پہنچایا ہے، وہ اسے انجوائے کررہے ہیں ، یعنی حَظ اٹھارہے ہیں۔ ایک اسٹیج پر توکنسرٹ لگاہواہے، مُرَفَّہُ الحال طبقات کی خواتین ہیں ، جن کے لئے یہ ایک میلہ ٹھیلہ اور پکنک ہے، تمام اخلاقی اقدار سے آزادی ہے۔ یہ موعود (Promised)آزادی کا ٹریلر ہے، جب یہ آزادی عملی شکل میں سامنے آئے گی، تو اس کا تصور بھی روح فرسا ہے۔ان میں کون ہے جو نانِ شبینہ کا آپ کو محتاج نظر آئے ۔ دوسری جانب وسائل کا انبار نظر آتاہے۔انبیائِ کرام علیہم السلام اور ختم المرسلین ﷺ کے اولین نقیب تو معاشرے کے مفلوک الحال اور پسے ہوئے طبقات تھے، وہاں عشرتوںاور اجنبی مردوزن کے اختلاط کا کوئی تصور نہیں تھا۔
یہ حضرات خود بھی بندگلی میں پہنچ چکے ہیں اور اپنے پیروکاروں کو بھی سہانے خواب دکھاتے دکھاتے بند گلی میں لے گئے ہیں ۔ اب یہ قوتِ فیصلہ سے محروم ہیں اور ہجوم کو محظوظ کرنا ان کا واحد مشغلہ رہ گیا ہے۔ مومن کو شِعار تو عقلِ سلیم اور فراستِ مومنہ ہوتی ہے، حدیث پاک میں ہے:''مومن کی فراست سے ڈرو، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نور سے دیکھتاہے، پھرآپ نے یہ آیت پڑھی: ''بے شک اس (قصے) میں اہلِ فراست کے لئے نشانیاں ہیں،(الحجر:75)‘‘،(سننِ ترمذی:3127)‘‘۔لیکن بعض اوقات ایک شخص اپنی بدعملی اور فکری کجی کے سبب اصابتِ رائے کی نعمت سے محروم ہوجاتاہے۔
کیونکہ چند خصلتیں ایسی ہیں ، جو انسانی فطرت میں بگاڑ پیدا کرتی ہیں اورجن کے سبب وہ کسی درپیش مسئلے کے بارے میں درست رائے قائم کرنے کی نعمت سے محروم ہوجاتاہے:ایک جب وہ مغلوب الغضب ہوجائے، تو دماغی توازن کھو بیٹھتا ہے ، انتہاپسندی اور انتقام اس کا مزاج بن جاتاہے۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(1):''جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اگر وہ کھڑا ہے تو بیٹھ جائے، اگر غصہ فرو ہوجائے ، تو فبہا ،ورنہ لیٹ جائے،(سنن ابی داؤد : 4782)‘‘۔ (2):''غضب ایمان کو اس طرح بگاڑ دیتاہے، جیسے ایلوا (مصبر،انتہائی کڑوی دوا)شہد کو بگاڑ دیتاہے،(سنن بیہقی : 8140)‘‘۔ (3):''حضرت عمر فاروق منبرپر ارشاد فرمارہے
تھے:''اے لوگو! عاجزی اختیار کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جو اللہ کی رضا کے لئے عاجزی اختیار کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے سربلند فرمائے گا، وہ اپنے دل میں اپنے آپ کو معمولی سمجھ رہا ہوگا، مگر لوگوں کی نظر میں اس کا بڑا مقام ہوگا اور جو تکبر کرے گا، اللہ اسے ذلیل ورسوا فرمادے گا، وہ اپنے دل میں اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھے گا ، لیکن لوگوں کی نظر میں وہ حقیر ہوگا، لوگ اسے کتے اور خنزیر سے بھی حقیر جانیں گے،(سنن بیہقی:8140)‘‘۔ (4):رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''تین خصلتیں نجات کا سبب بنتی ہیں : ظاہر وباطن میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا، کسی سے خوش ہویا ناراض ہر صورت میں انصاف کا دامن نہ چھوڑنا ، فقر وغنا ،ہر حال میں میانہ روی اختیار کرنا اور تین خصلتیں تباہ کن ہیں: جب خواہش ِنفس کی پیروی اور کمینوں کی اطاعت کی جانے لگے اور کوئی شخص غرورِ ذات اور فریب ِنفس میں مبتلا ہو اور یہ سب سے خطرناک خصلت ہے،(شعب الایمان:7252)‘‘۔(5):حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :'' دو آدمی نبی ﷺ کے سامنے لڑرہے تھے۔ ان میں سے ایک شخص بہت شدید غصے میں تھا اور یوں لگتا تھا کہ غصے سے اس کی ناک پھٹ جائے گی، نبی ﷺ نے فرمایا: مجھے ایک ایسے کلمہ کا علم ہے اگر یہ وہ کلمہ پڑھ لے گا تو اس کاغضب جاتارہے گا، حضرت معاذ نے پوچھا :یا رسول اللہ! وہ کلمہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا :وہ یہ کہے:'' اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ‘‘۔
خودرائی اور خود فریبی ، یعنی اس بات کو ایمان اور عقیدے کا درجہ دے دینا کہ جو کچھ میں سوچ رہا ہوں یا کہہ رہا ہوں ، صرف وہی حق ہے ، باقی سب باطل ہے۔ دوسروں کی تحقیر وتذلیل اور اہانت کرکے اس سے لذت وسرور حاصل کرنا۔ اپنے گردوپیش میں صرف ان لوگوں کو جگہ دینا جو ہاں میں ہاں ملائیں ، منہ پر کلمۂ حق کہنے کی جرأت نہ رکھتے ہوں ، الغرض فریبِ نفس ، عُجب نفس اور گھمنڈ ،وہ مذموم انسانی خصلتیں ہیں ، جوآخرِ کار انسان کو مکمل تباہی اور بربادی کی طرف لے جاتی ہیں ، ایسی کیفیت میںبندہ اپنے آپ کو خدا سمجھ بیٹھتا ہے اور اپنی بات کو حرفِ آخر سمجھتا ہے اور اصلا ح کی کسی بھی بات یا مشورے کو وہ توہین یا عداوت پر محمول کرتاہے اور اس کا لب ولہجہ قابو سے باہر ہوجاتاہے، آتش علی حیدر نے کہا ہے ؎
لگے منہ بھی چڑانے ، دیتے دیتے گالیاں صاحب!
زباں بگڑی تو بگڑی تھی ، خبر لیجئے ! دہن بگڑا
بناوٹ کیف ِمے سے کھل گئی ، اُس شوخ کی آتش
لگا کر منہ سے پیمانے کو ، وہ پیماں شکن بگڑا
اور بہادر شاہ ظفر نے کہا تھا ؎
ظفرآدمی اس کو نہ جانئے گا
ہو کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکاء
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی
جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا
اپنے سوا قوم کے سب منتخب نمائندوں کو چور اور لٹیرے قرار دینا،اِس نظام کا حصہ ہوتے ہوئے سارے نظام کو جعل سازی سے تعبیر کرنااورخود کو کوثر وتسنیم میں دھلا ہوا سمجھنا ، خودرائی اور خودفریبی نہیں تو اور کیا ہے؟۔ اپنے آپ کو اس حدتک ہمہ مقتدر سمجھنا کہ ان کا اقتدار میرے پاؤں کی ایک ٹھوکر کی مار ہے، تو لوگ تو یہی کہیں گے: حضور! وہ ٹھوکر مارہی دیجئے تاکہ قصہ تمام ہوجائے اور لوگوں کو اس کرب سے نجات ملے۔
جناب ِ عمران خان نے جو کنسرٹ اور مردوزن کے اختلاط کے جو مناظر پیش کئے ہیں ، وہ پاکستان میں شرفاء کے خاندانوں میں کسی بھی درجے میں قبولیت کا مقام نہیں پاسکتے، کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ ان کی بیٹیاں شمع محفل بنیںاور لوگوں کے لئے لذّت وسرور اور حظّ بَصَر کاکام دیں۔ سوان قائدین کو سوچنا چاہئے کہ جو چند ہزارنفوس (خواہ ان کی حقیقی تعداد جو بھی ہو) اُن کے جاں نثار یااُن کی عقیدت میں سرشار ہیں ، اُس سے باہر بھی پاکستان ہے اوراُس پاکستان کا ایک تہذیبی، تمدُّنی ، معاشرتی اور اخلاقی معیار ہے،ثقافتی اور دینی وملّی اقدار بھی ہیںاور اُن کے لئے یہ تمام مناظر اور یہ طرزِ تخاطُب اذیت ناک اور درد ناک ہے۔اگر یہی وہ موہوم آزادی ہے، جس کی طرف آپ پاکستان اور اہلِ پاکستان کو لے جاناچاہتے ہیں ، تو یہ آزادی پاکستانیوں کے لئے ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہے اور یہ انقلاب ایک سَراب سے زیادہ نہیں ہے۔ جوشِ خطابت میں کہنا تو آسان ہے کہ ہم سب کی تنخواہیں برابر کردیں گے،مگر حضور ! کیا آپ کے اداروں میں سب کی تنخواہیں برابر ہیں، یہ ''یوٹوپیا ‘‘تو کمیونزم کے علمبردار بھی پیش نہ کرسکے اور بالآخر سوویت یونین کے زوال اور تحلیل کے بعد وہ نعرے بھی ہوا ہوئے۔
انسان کی شخصیت کا اعتبار ، وقار اور احترام توازن اور اعتدال میں ہے، دوسرے کی عزت کرنے اور خود کو اپنے قول وفعل اور گفتار وکردارسے قابلِ عزت بنانے میں ہے ۔ دوسروں کے عیوب پر جینا کوئی جینا نہیں ہے، یہ چند لمحوں کا سَراب یا بیداری کا خواب ہوتاہے، جو حقائق سے منہ موڑنے اور سامنے کے منظر سے آنکھیں بند کرنے کا نتیجہ ہوتاہے۔ ہر کامیاب انسان اپنی خوبیوں پر جیتاہے اور تاریخ میں اَمَر ہوجاتاہے، اسے شہرتِ دوام اور لازوال عزت نصیب ہوتی ہے۔ اگر محض ایک ورلڈ کپ جیتنا ہی کمال ہے، حالانکہ وہ بھی فردِ واحد کا کارنامہ نہیں ہوتا، ٹیم ورک کا نتیجہ ہوتاہے۔ ایسے میں تو سارے ورلڈ کپ جیتنے والے کپتان اپنے اپنے ممالک کے صدر اور وزرائے اعظم ہوتے۔ اگر ایک نیم خیراتی ہسپتال بنا لینا ہی اقتدار کے اعلیٰ منصب پر فائز ہونے کا لائسنس ہے ، تو پاکستان میں اس کا پہلا حق دار سرجن ڈاکٹر ادیب رضوی ہے، جو کئی ایکڑوں پر مشتمل کسی فارم ہاؤس کا مکین نہیں ، فقیرانہ زندگی بسر کررہا ہے ۔وہ انسانیت کے لئے فیض رساں ہیں اور ان کی کیفیت یہ ہے کہ ع : ''نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پروا‘‘۔