ہمیں سکھایاگیا ہے کہ جب کوئی کام شروع کریں، تو یہ دعائیہ کلمات پڑھیں:''اے اللہ!یہ مہم جو ہمیں درپیش ہے، اس کو ہمارے لئے آسان فرما اور اس میں ممکنہ طور پر پیش آنے والی ہردشواری سے ہمیں بچا اوراس کا انجام خیر پر فرما، اے ہر بند راستے کو کھولنے والے! ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں‘‘۔ ''اے اللہ!اس کام کا آغاز اچھا فرما، اس میں درپیش ہر مشکل مرحلے میں ہم پر رحم فرما، اس کا انجام ہمارے لئے اچھافرما‘‘۔ ''اے اللہ! ہمارے دین ،دنیا اور آخرت سے متعلق تمام امور میں ہماری اصلاح فرما اور ہماری عاقبت یعنی ہمارے ارادوں اور افعال کے نتائج کو ہمارے لئے بہتر فرمادے‘‘۔
پوری قوم ایک مشکل صورتِ حال سے دوچار ہے اور عالمی سطح پر ملک کی رسوائی ہورہی ہے، ملکی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ حکومت نے کافی تحمل کا مظاہرہ کیا، جذبات پر قابو رکھا، حالات کا رخ طاقت سے بدلنے کی حکمتِ عملی سے گریز کیا، مگر لاہور میں جو بے تدبیری اور سنگ دلی ہوچکی تھی، وہ ناقابلِ تلافی ثابت ہوئی اور اس کے اثرات سے نکلنا حکومت کے لئے لمحہ بہ لمحہ دشوارسے دشوار تر ہورہا ہے، ادھر دھرنے والوں نے بھی غیر معمولی سکت دکھائی ۔
ساٹھ اور ستر کے عشرے میں جب ٹریڈ یونین ازم (یعنی مزدوروں کی سودا کاری انجمنوں) کاز مانہ تھا، تو وہ ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے مزدور لیڈر بھی اتناشعور رکھتے تھے کہ مثلاً ان کے پانچ بنیادی مطالبات ہوتے تو پانچ اضافی مطالبات شامل کرلیتے اور یہ اضافی مطالبات صرف دباؤ ڈالنے اور اپنی سودا کاری کی پوزیشن کو بہتر بنانے کے لئے ہوتے، ہڑتالیں ہوتیں، جلسے ہوتے، نعرے بازیاں ہوتیں اور آخر میں مذاکرات سے مسئلے کا حل نکل آتا، اضافی مطالبات سے یونین کے لیڈر دست بردار ہوجاتے اور اصل مسائل کو انتظامیہ مان لیتی اور کام رواں دواں ہوجاتا۔
چین کے صدر کا دوہ ملتوی ہوچکا، ملک سیلاب کی تباہ کاریوں کی زد میں ہے، انتظامیہ ایک طرح سے مفلوج یا جامد وساکت ہے۔ ہماری دونوں طرف کی قیادت میں تقریری مقابلہ جاری ہے۔ شکوک وشبہات ہیں ، ہر پاکستانی کی آنکھوں میں سوال ہے کہ اس سارے کھیل کا انجام کب اور کیا ہوگا؟، لیکن جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ بڑے بڑے ماہر لکھاریوںاور تجزیہ نگاروں کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ غزل کا مطلع کیا ہو اور مقطع کیا؟ کہاں سے مضمون باندھیں اور کہاں ختم کریں؟۔ ہر ایک سوچتا ہے میں کچھ کہوں یا کچھ لکھوں ، لیکن یہ سوچ کر قلم رک جاتاہے کہ میں کچھ لکھ دوں اور اگلے لمحے کچھ اور منظر سامنے آجائے،تو خواہ مخواہ ،بھَد اڑے گی۔لہٰذا ہر ایک کے لئے اپنی دانش کی ساکھ اور اعتبار کو قائم رکھنے کا بھی مسئلہ ہے۔پرائیویٹ ٹیلیویژن چینلوں پر نجومی، جوتشی اور ماہرینِ مستقبلیات (Future Predictors) بیٹھ کر سب کی قسمت کا حال بتاتے تھے کہ کس کے ہاتھ میں اقتدار کی لکیر ہے اور کس کے ہاتھ میں نہیں ہے۔جب ان کی اصل مہارتوں اور بشارتوں کا وقت آیا ،تو منظر کچھ یوں بناکہ ؎
محشر میں گئے شیخ تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے، وہی مال ندارد
یہاں پرمجھے قرآنِ مجید کی چند آیات یادآگئیں: ''(جنات کہتے ہیں:) ہم نے آسمان کی(خبریں جاننے کے لئے) کھوج لگائی، تو ہم نے دیکھا کہ کہ وہ سخت محافظوں سے اور آگ کے گولوں سے بھرا ہوا ہے۔ اور(اس سے پہلے) ہم (عالمِ بالا کے فرشتوں کی باتیں) سننے کے لئے گھات لگا کر بیٹھ جاتے تھے، سواب جو سننے کی کوشش کرتاہے، تو وہ اپنے عقب میں آگ کا شعلہ تیار پاتا ہے۔ اور ہمیں نہیں معلوم(اس تبدیلی سے) اہلِ زمین کے ساتھ کسی برائی کاارادہ کیا گیا ہے یابھلائی کا،(الجنّ:8-10)‘‘۔
ان آیات کا پسِ منظر یہ ہے کہ شیاطین یا جنات عالَمِ بالا میں ایک حدتک جاسکتے تھے۔ وہ وہاں گھات لگاکر بیٹھ جاتے اور ملائکہ کی آپس میں گفتگو کی سُن گن لیتے اور پھراُن ناتمام اور سیاق وسباق سے کٹی ہوئی خبروں میں اپنی طرف سے مرچ مصالحہ لگاکر یعنی اضافے کرکے کاہنوں تک پہنچاتے، جو ایک طرح سے شیطان کے چیلوں کاکام کرتے تھے اور پھر اس حربے کے ذریعے وہ لوگوں کو اپنے دامِ عقیدت میں پھنساتے ، ان سے نذرانے لیتے اور ضعیف الاعتقادی اور توہم پرستی میں مبتلا کرتے۔ پس لگتا ہے کہ ہماری موجودہ پریشان کُن اورتشویش ناک صورتِ حال میںہمارے عالَمِ بالاوالوں نے بھی ناپختہ پیغام رسانوں سے شاید نجات حاصل کرنے کا سوچ لیا ہو کہ اِن سے خیر کی بجائے شرہی برآمد ہواہے اور اُس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج سب کچھ جامد وساکت ہے۔
اب لازم ہے کہ تنازعے کے دونوں فریق ، جنہوں نے پوری قوم کو انتظار اور تشویش کی سولی پر لٹکایا ہواہے، اس مظلوم وبے ضرر قوم پر رحم فرمائیں اور ''تمّت بالخیر‘‘ کی کوئی آبرومندانہ صورت نکالیں، جس میں نہ کسی کی فتح ہو نہ شکست، کیونکہ اس وقت نقصان صرف پاکستان کا ہورہاہے، پاکستان کو مزید نقصان اور عالمی رسوائی سے بچائیں۔ پوری قوم''دیر آید درست آید‘‘ کے مصداق اِن سب کی شکرگزار ہوگی، کیونکہ حدیثِ پاک میں ہے:''اعمال کے حتمی نتیجے(خیر یا شر) کا مدارانجام پر ہے،(بخاری:6607)‘‘۔
انقلاب اور آزادی کے نام پر دھرنا دینے والوں کے بنیادی اہداف یہ تھے:(1)ماڈل ٹاؤن کی سفّاکی کی ایف آئی آر ان کی مرضی کے مطابق درج ہو، ان کے تمام نامزد ملزمون کے نام اس ایف آئی آر میں درج کئے جائیں ،ملزمان کے خلاف دیگر فوجداری دفعات کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی دفعات بھی لگائی جائیں، ان کی مرضی کے مطابق تمام تفتیشی اداروں کے ماہرین پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم مقرر ہو ، وہ بے لاگ تحقیق کرے اور تمام معاملہ کسی حکومتی جبر اور دباؤ کے بغیر عدالتی مراحل سے گزرے۔ (2)اس امر کی تحقیق ہوکہ آیا2013ء کے قومی انتخابات میں منظم دھاندلی ہوئی ہے، جس میں ادارے یا بااختیار شخصیات ملوث ہوں۔ اس کے لئے سپریم کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل ایک ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا جارہا ہے اور اس کے دائرہ ٔ اختیاراور مدت کار کا قطعی تعین کردیا جائے۔ (3)وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے استعفیٰ کا مطالبہ شایدقبول نہ ہو، پارلیمنٹ ان کے پیچھے کھڑی ہوگئی ہے اور یہ اُن کا مشترکہ مفاد ہے اور وہ بجاطور پر اسے جمہوریت اور نظام کے تسلسل اور پارلیمنٹ کی بالادستی سے تعبیر کرتے ہیں ۔ شاید یہ مرحلہ کسی ماورائے آئین اقدام کے بغیر طے نہ ہوپائے۔(4)آئندہ قومی انتخابات کے لئے شفاف اور دھاندلی سے پاک نظام وضع ہو اور ممکنہ طورپر بائیو میٹرک پولنگ سسٹم اختیار کیاجائے تاکہ صرف حقیقی ووٹر ہی ووٹ ڈال سکے اور اُس کے دوبارہ جعلی ووٹ ڈالنے کا امکان معدوم ہوجائے۔اس کے لئے پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی تشکیل دی جاچکی ہے اورجناب عمران خان کو اس کمیٹی کی سربراہی کی پیشکش بھی کی جاچکی ہے ۔
پس لازم ہے کہ ملک کے بہتر مستقبل ،امن وامان کی بحالی اور معیشت کی روانی کی خاطر تصادم کے فتح جُوتمام فریق اپنی پوزیشن سے ایک قدم نیچے آئیں اور تمام فریقوں کے لئے قابل عمل اور قابل قبول کسی معاہدے پر اتفاق رائے کریں،دھرنے کے سلسلے کا پر امن اختتام ہو اور طے شدہ اُمور کی نگرانی اور مثبت پیش رفت پر نظر رکھی جائے۔قومی جرگہ بدستور فعال رہے تاکہ کوئی فریق فاؤل نہ کھیل سکے اورنہ ہی معاہدے سے انحراف کرسکے ،یعنی معاہدے پر لفظاً اورمعنیً عمل ہو۔
ہمارے سیاستدان ،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے لوگ ہمیشہ مذہبی لوگوں کو کوستے تھے کہ یہ مسلکی منافرت اور تعصبات کو اس حد تک ابھارتے ہیں کہ ان کے اندر تحمل وبرداشت کی رمق تک نہیں،یہ لوگوں کو لڑاتے ہیں،دوسروں کی عزت کے دَرپے ہوتے ہیں۔آج کل ہمارے ہاں سیاسی عصبیت کے حاملین اس میدان میں اہل مذہب کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں اور لوگ ان سے اپنی عزت وآبرو کا تحفظ اورسلامتی مانگ رہے ہیں ۔لہٰذا سیاسی رہنماؤں کی بھی اخلاقی اور منصبی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں اورجاں نثاروں کو کچھ انسانی اَقدار اور ادب وآداب کی بھی تلقین فرمالیاکریں ،ورنہ ہم آئندہ نسل کو کون سا سیاسی اثاثہ اور اقدار واخلاقیات کا سرمایہ منتقل کریں گے،ذراسوچئے !