بہادر شاہ ظفر نے کہاتھا ؎
بات کرنی مجھے مشکل ،کبھی ایسی تونہ تھی
جیسی اب ہے تیری محفل ،کبھی ایسی تونہ تھی
بہت سے کالم نگاروں اور میڈیا کے لوگوں کے دکھ بھرے شکوے شکایتیں سنتااور پڑھتاہوںکہ کچھ سیاسی پارٹیوں کے جیالے اورپُر جوش کارکن سوشل میڈیا پر اختلاف ِرائے کے'' جرم‘‘ کی پاداش میں مادَر زَاد گالیاں دیتے ہیں ، دینی ،اَخلاقی اورمعاشرتی اَقدار سے گرے ہوئے جملے کستے ہیں ،اُن کو ضمیر فروش اوربِکے ہوئے کے اَلقاب سے نوازتے ہیں ،تویہ سب کچھ سن کر سیاسی قیادت اوراُن کے پیروکاروں کے اَخلاقی زَوال پر دُکھ اور افسوس ہوتاہے ۔ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ میں اپنی داستان لے بیٹھاہوں،مجھے ذاتی شکایت نہیں ہے،ہوسکتاہے مجھے بے ضرر یا بے اثر سمجھ کر معاف فرمادیتے ہوں گے یا کم اَزکم دین سے نسبت کی وجہ سے رعایت فرمادیتے ہوں گے ۔لیکن یہ ہماراقومی المیہ توہے اور اِس قدر اَخلاقی زَوال ہمارے لئے دینی وتہذیبی لحاظ سے بہت بڑانقصان ہے ۔
اس لئے مجھے یہ عنوان قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ کیا اب ہمارے معاشرے میں کلمۂ حق کہنے یا آزادانہ اظہارِ رائے کو عملاً ناممکن بنادیاجائے گا ،حالات کے جبر کے تحت وہی الفاظ لکھنے اوربولنے پڑیں گے ،جو آپ کے منہ میں ٹھونسے جائیں گے ،یاکسی بااَثر طبقے یا داداگیر کو پسند ہوں گے، ورنہ جان کی اَمان نہیں ملے گی ۔ اگریہی شعار کوئی مذہبی انتہاپسند گروہ اختیار کرے ،توہمارا لبرل میڈیا آسمان سرپر اٹھالیتاہے۔ انتہا پسندی ڈاڑھی ،پگڑی اور زلفوں کا نام نہیں ہے ،بلکہ یہ ایک ذہنی نِہاد اور مائنڈ سیٹ کا نام ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے حدیث پاک میں علاماتِ قیامت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ''( ایک وقت آئے گا کہ) کسی شخص کی تکریم وتعظیم اُس کے شَر اورفساد کے خوف سے کی جائے گی،(سُنن ترمذی :2211)‘‘۔یعنی صلاحیتِ شَروایذا رَسانی وجہ ِتکریم بن جائے گی ،اللہ عزوجلّ کاارشاد ہے: (1)''اورجب اس سے کہاجاتا ہے : اللہ کا خوف کرو،توپندارِ نفس اُسے گناہ پر اُبھارتا ہے،(بقرہ: 206)‘‘۔ (2)''اپنی پارسائی کے دعوے نہ کرو ،بلکہ اللہ جسے چاہتاہے ،پاکیزہ بنادیتا ہے،(نساء:49)‘‘۔ پہلے کبھی ''اظہارِ رائے‘‘ کی آزادی کے حوالے سے ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑتاتھا ،وہ دور تو قصۂ ماضی بنا،کیا اب اُس کی جگہ غیر ریاستی جبر نے لے لی ہے؟،علامہ اقبال نے کہاتھا ؎
یہ دستورِزباں بندی ہے کیسا تری محفل میں؟
یہاں توبات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
ہرایک اپنی نیت اورعمل کے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جوابدہ ہے ،آپ کے پاس کسی کے بارے میں ٹھوس دلائل وشواہد موجود ہیں ،تو ضرور حوالے کے ساتھ بات کریں ۔لیکن اللہ تعالیٰ نے بدگمانی یعنی سوئِ ظنّ سے منع فرمایاہے ،اِرشاد ہوا: ''اے اہلِ ایمان ! بہت سے گمانوں سے بچو!، بیشک بعض گمان گناہ(کاسبب )ہوتے ہیں،(الحجرات:12)‘‘۔رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :'' (بد) گمانی سے بچو!،کیونکہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے، (صحیح بخاری: 6066)‘‘۔اِسی طرح سورۂ الحجرا ت اور سورۃ الھمزہ میں لوگوں کا تمسخر اُڑانے ، عیب جوئی ، طعن وتشنیع ، بُرے ناموں سے پکارنے ، پردہ دَری ، غیبت اوراُن پربہتان تراشی سے منع فرمایاہے ۔ لیکن یہ الٰہی وعیدیں ،تنبیہات اور اِنذَار اُن پر اَثر انداز ہوسکتا ہے،جن کا آخرت میں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں جوابدہی اور اُخروی حساب وکتاب اور جزاوسزا پر کامل ایمان ہو ،ورنہ تویہ لوگوں کے لئے ذہنی تفریح اور Enjoymentہے۔ ایسے لوگ دوسروں کو اَذیّت وآزَار پہنچاکر خوش ہوتے ہیں،اُنہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی سخت گیری سے ،جسے قرآن ِ کریم میں'' بَطْش‘‘ (Striking)سے تعبیر فرمایا گیا ہے ،ڈرناچاہئے ۔
بہتے ہوئے دھارے کے ساتھ چلنا ،پاپولر یامقبول عام بات کرنا توبہت آسان ہے،مشکل کام تواپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہناہے ،سچ بولنا ہے ، سیلابی ریلے کی مخالف سَمت میں چلنا ہے،حق کی راہ میں اور حق کی خاطر ہَدفِ طَعن اورنشانۂ ملامت بنتا ہے ،یہی انبیاء کرام علیہم السلام کا شِعار رہاہے اور یہی ہردور میں مُصلحین کا وتیرہ رہاہے اوریہی کارِدشوار ہے۔ا نبیاء کرام یہی کہتے رہے کہ( اِحقاقِ حق، اِبطالِ باطل اوردعوتِ حق کے لئے) میں تم سے کسی اجر کا طلب گار نہیں ہوں،میرا اجر توبس اللہ کے ذمۂ کرم پرہے ۔
ہردور کے مُتَمَرِّدین اور سرکشوں نے اسی ''جرم‘‘ کی پاداش میں انبیاء کرام علیہم السلام کو شہید کیا،امام الانبیاء سیدالمرسلین علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اسی لئے ظلم کے پہاڑ توڑے گئے ،طائف میں آپ پر سنگ باری کرکے آپ کو لہولہان کیاگیا ،چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایاکہ ''سب سے شدید آزمائش انبیاء کی ہوتی ہے اور پھر اُن کی جو مرتبے میں اُن سے قریب تر ہوں ‘‘،کیونکہ ع جن کے رُتبے ہیں سوا،اُن کو سوامشکل ہے ۔اس لئے ہماراپیغام یہی ہے کہ ع
حذر! اے چیرہ دستاں ،سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
دوسرا موضوع جس پر آج مجھے بات کرنی ہے،یہ ہے کہ میں نے ٹیلی ویژن پر ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کا Tickerدیکھاکہ :''قومی اسمبلی کی70 نشستیں یا ستر ارکان جعلی ہیں‘‘، مجھے ان کی اس بات سے سوفیصد اتفاق ہے۔لیکن ان ستر بالواسطہ نشستوں کا اضافہ جنرل پرویز مشرف نے ایک آمر کی حیثیت سے کیا،پھر اسے اپنے رسوائے زمانہ لیگل فریم ورک آرڈر (LFO)کا حصہ بنایا اور سترہویں آئینی ترمیم کے ذریعے اُسے پارلیمنٹ سے جبراً منظور کراکے دستو ر کا حصہ بنادیا ۔اتفاق یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب بھی اُس پارلیمنٹ کا حصہ تھے اور متحدہ مجلس عمل (MMA) سے ہمیشہ میرایہی گِلہ رہاہے کہ اگر وہ مصلحت سے کام نہ لیتے اوراُنہوں نے عزیمت کی راہ کو اختیار کیاہوتا ،تودورجدید کایہ عجوبہ معرضِ وجود میں نہ آیاہوتا ۔ دنیا کی کسی کانگریس، پارلیمنٹ یا مُقنِّنہ میں 60بیگمات جبراً شامل نہیں کی گئیں۔آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت انڈیا ،اُمُّ البرلیمان (Mother Parliament)یو کے ،حتیٰ کہ امریکن کانگریس میں بھی ایسانہیں ہے ۔
اگر 1973ء کا دستور اپنی اصل شکل میں نافذ رہتا،توآج ہماری قومی اسمبلی کی 217نشستیں ہوتیں ،جن کا انتخاب براہِ راست ہوتا ،کوئی مخصوص (Reserve)نشست نہ ہوتی ۔1988ء تا1997ء کے عرصے کے چار وسط مدتی (Mid Term)انتخابات میں بھی یہی تعداد تھی،کیونکہ 1973ء کے دستور میں قرار دیاگیا تھاکہ اس دستور کے نفاذ کے دس سال بعد یعنی 1983ء تک قوم جمہوری اعتبار سے بالغ نظر (Mature)ہوجائے گی اور اُس کے بعد پاکستان کی قومی اسمبلی میں کوئی مخصوص (Reserve)نشست نہیں ہوگی،اسی طرح سینیٹ آف پاکستان بھی غالباً 45نشستوں تک محدود تھی۔ چارصوبوں کی فی صوبہ دس دس نشستیں ،فاٹا کی چار اوروفاقی دارالحکومت کی ایک ،1977ء ، 1985ء اور 2002ء میں نشستوں کی تعداد میں اضافہ کرکے بالترتیب 63،87اور 100کردی گئیں ۔ قومی اسمبلی کی نشستیں 2002ء میں براہِ راست انتخاب کے لئے 272اور70مخصوص نشستیں (خواتین :60اور غیر مسلم :10) کردی گئیں ۔یہی وجہ ہے کہ برسراقتدار جماعتوں کی بیگمات بھی اسمبلیوں میں بیٹھی ہیں اور اس میں کسی کا استثنا نہیں ہے۔حتّٰی کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ جناب پرویز خٹک کا خاندان بھی اِس اعزاز میں شامل ہے۔ غیرمسلم بھی اپنی کمیونٹی کے نمائندہ نہیں ہوتے بلکہ جس جماعت کے کوٹے پرآتے ہیں، اسی کے نمائندہ ہوتے ہیں۔
ہمارے برعکس ہندوستان میں جس کی آبادی ہم سے چھ گنا یعنی ایک ارب اکیس کروڑ ہے اور آزادی کے بعد سے اب تک اُن کی پارلیمنٹ میں نشستوں کی کل تعداد 543ہے اور اُنہوں نے قراردیاہے کہ 2020ء تک ان میں کوئی اضافہ نہیں کیاجائے گا ۔ جب ایک امیدواراوسطا ً15لاکھ ووٹرز کے پاس جائے گا ،تواتنی بڑی تعداد کو نہ دولت کے بَل پر خریدا جاسکتاہے اورنہ دھاندلی سے الیکشن جیتاجاسکتاہے ۔موہن گاندھی نے کہاتھا :'' جمہوریت کے تحت میری قوم کے کمزور ترین فرد کووہی مواقع ملیں گے ،جو طاقت ورترین کو حاصل ہوں گے ‘‘۔اور رسول اللہ ﷺ کے اوّلین خلیفۂ راشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے اوّلین خطبۂ خلافت میں اپنا منشور خلافت بیان کرتے ہوئے فرمایاتھا :''تم میں سے جو کمزور ہے، وہ میرے نزدیک طاقت ور ہے تاوقتیکہ میں طاقت ور سے اُس کا حق چھین کر اُسے لوٹانہ دوں اورتم میں سے جو طاقت ور ہے ،وہ میرے نزدیک کمزور ہے تاوقتیکہ میں اُس سے مظلوم کا حق چھین کر اصل حق دار کو لوٹا نہ دوں‘‘۔یعنی حق طاقت ہے،طاقت حق نہیں ہے ،یہی تاریخ کا سبق ہے ،بدر تا کربلاہر معرکۂ حق وباطل کایہی پیغام ہے۔