اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے:''(اے نبی!) کہہ دیجئے! وہی اس بات پر قادر ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے عذاب بھیجے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں مختلف گروہوں میں بانٹ کر ایک دوسرے سے بھِڑا دے اور تمہارے بعض کو بعض سے لڑائی کا مزہ چکھادے، دیکھئے! ہم کس طرح نشانیاں بیان کرتے ہیں ، تاکہ یہ سمجھیں،(الانعام:65)‘‘۔
اس آیت میں اللہ عزّوجلّ نے عذاب کی مختلف صورتیں بیان فرمائی ہیں ، یہ قدرت کی طرف سے تنبیہات (Warnings)ہوتی ہیں تاکہ لوگ سرکشی سے باز آجائیں ، معصیت سے پلٹ کر اطاعت کی طرف آئیں ۔ مفسرینِ کرام نے بیان کیا کہ اوپر سے عذاب کی ایک صورت طوفانی بارشیں، ہولناک آندھیاں ، بجلی کی کڑک اورچنگھاڑ ہے جسے قرآن مجید میں ''صَیحَۃٌ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، موسم کی شدت اور حِدّت بھی ایک صورت ہوسکتی ہے۔ اور نیچے سے عذاب کی صورت سیلاب ہیں ، زلزلے ہیں ، اچانک پھوٹ پڑنے والی مُہلک بیماریاں ہیں، جیسے ماضی میں مختلف انبیائِ کرام علیہم السلام کی امتوں پر طرح طرح کے عذاب نازل ہوئے۔ قومِ نوح، قومِ ھود، قومِ شعیب ، قومِ صالح ، قومِ لوط اور قومِ موسیٰ علیہم السلام پر عذاب کا تفصیلی بیان قرآن میں مذکورہے۔
نظامِ حکومت کی ابتری، فساد ، انتشار ، لاقانونیت اور ظلم وعُدوان کا دور دورہ ہونا بھی ایک صورتِ عذاب ہے۔حضرت عبداللہ بن عباس ؓنے فرمایا: ''اوپر کے عذاب سے مراد یہ ہے کہ ظالم اور بے رحم حکمران مسلَّط ہوجائیں گے اور نیچے کے عذاب سے مراد یہ ہے کہ ماتحت ملازمین بے وفا، غدار ، کام چور اور خائن ہوجائیںگے‘‘ ۔ حدیثِ پاک میں فرمایا :''جیسے تمہارے کرتوت ہوں گے، ویسے ہی حکام تم پر مسلط کردئیے جائیں گے،(شِعَبُ الایمان :3792)‘‘۔ عربی کا مشہور مقولہ ہے: ''تمہارے اعمال ہی تم پر حاکم ہیں‘‘۔حضرت سفیان ثوری نے فرمایا: ''جب میرے ماتحت اور خدام میری نافرمانی کرنے لگتے ہیں، تو مجھے احساس ہوجاتاہے کہ مجھ سے کوئی خطا سرزد ہوگئی ہے‘‘۔
کسی صاحبِ اقتدار کے وزراء، مشیروں اور مصاحبین کا صداقت شِعار اور مخلص ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیبی تائید کی علامت ہے اور ان کابرا ہوناحاکم کے لئے تائیدِ الٰہی سے محرومی کی علامت ہے۔حدیثِ پاک میں ہے: ''جب اللہ تعالیٰ کسی حاکم کے لئے خیر کا ارادہ فرماتاہے تو اس کے لئے صداقت شِعار وزیر مقدر فرمادیتا ہے تاکہ اگر اُس سے بھول ہوجائے، تو یہ اسے یاد دلادے اور اگر اُسے اپنی ذمے داری یاد ہوتو یہ اُس کی مدد کرے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کسی حاکم کے لئے برائی کا ارادہ فرماتا ہے تو کسی بُرے شخص کو اس کا وزیر بنا دیتا ہے کہ اگر حاکم سے کسی اہم معاملے میں بھول ہوجائے ، تو یہ اسے یاد نہیں دلاتا اور اگر حاکم کو اپنی ذمے داری یاد ہو تو یہ اس کی مدد نہیں کرتا، (سنن ابی داؤد:2925)‘‘۔
عادل حکمران اللہ تعالیٰ کی زمین پر اُس کے بندوں کے لئے اُس کی غیر معمولی نعمت اوربرکت کی علامت ہے اورحاکم کا ظالم وجابر ہونا عذاب کی صورت ہے۔ حدیثِ پاک میں فرمایا: (1)''تمہارے بہترین حکمران وہ ہیں کہ تم ان سے محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں ، تم اُن کے لئے دعا کروکہ ان کے اقتدار کو دوام ملے اور وہ تمہارے لئے دعا کریں ۔ اور تمہارے بدترین حاکم وہ ہیں کہ تم اُن سے نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں، تم اُن پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں،(صحیح مسلم: 1855)‘‘۔(2): ''جب تمہارے حاکم تمہارے بہترین لوگ ہوں اور تمہارے مال دار سخی لوگ ہوں اور تمہارے اجتماعی معاملات باہمی مشاورت سے طے ہوتے ہوں ،تو تمہارا زمین کے اوپر رہنا تمہارے لئے زمین کے اندر جانے سے بہتر ہے،(یعنی ایسی اجتماعی زندگی اللہ کی نعمت ہے)۔ اور جب تمہارے حاکم تم میں سے برے لوگ ہوں اور تمہارے مال دار بخیل ہوں اور تمہارے معاملات عورتوں کے ہاتھ میں چلے جائیں ، تو تمہارے لئے زمین کے اوپر رہنے سے زمین کے نیچے چلے جانا بہتر ہے،(سنن ترمذی:2266)‘‘۔یعنی ایسی اجتماعی زندگی عذاب ہے۔
جب علماء ان ارشاداتِ باری تعالیٰ کی روشنی میں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور متوجہ ہونے کی ترغیب دیتے ہیں ، اصلاحِ احوال کی دعوت دیتے ہیں کہ ہم سب مل کر اپنی اپنی جگہ توبہ واستغفار کریں، اپنے اندر جھانکیں، اللہ عزّوجلّ کی رحمت کو اپنی جانب متوجہ کریں ، تو ہمارے بعض اہلِ دانش اسے غریبوں کے ساتھ مذاق سے تعبیر کرتے ہیں کہ لوجی!''کرے کوئی اور بھرے کوئی‘‘، سرکشی اور عیش ونشاط میں بدمست اور مدہوش تو اہل اقتدر اورمُرفّہُ الحال طبقات ہوتے ہیں،تو قدرت کا تازیانۂ عبرت بھی اُنہی پر برسنا چاہئے تاکہ زیر دست طبقات ان کے انجام کو دیکھ کر ایک گونہ اطمینان محسوس کریں اور یہاں الٹی گنگا بہائی جارہی ہے۔
اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے:''اور جب ہم کسی بستی کے لوگوں کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں ، تو اس کے عیش پرستوں کو اپنے احکام بھیجتے ہیں، سو وہ ان احکام کی نافرمانی کرتے ہیں ، پھر وہ عذاب کے حکم کے مستحق ہوجاتے ہیں ،پھر ہم ان کو تباہ وبرباد کردیتے ہیں،(بنی اسرائیل:16)‘‘۔اس امت پرایسا عذاب تو نہیں آئے گا کہ نام ونشان صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے ، مگراقوامِ عالَم میں بے توقیری ہلاکت سے بھی بدتر ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ شام کے وقت اور صبح کے وقت ان کلمات کے ساتھ دعا مانگنے کو ترک نہیں کرتے تھے: اے اللہ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں عافیت کا سوال کرتاہوں، اے اللہ! میں تجھ سے اپنے دین اور اپنی دنیا میں، اپنے اہل اور اپنے مال میں عفو اور عافیت کا سوال کرتاہوں۔ اے اللہ! میرے عیوب پر پردہ فرما اور جن چیزوں سے مجھے خوف ہے، ان سے امان عطا فرما۔ اے اللہ! مجھے آگے اور پیچھے سے، دائیں اور بائیں سے، اوپر سے اور نیچے سے حفاظت میں رکھ اور میں نیچے کی مصیبت یعنی زمین میں دھنسادینے سے تیری پناہ میں آتا ہوں،(سنن ابن ماجہ: 3871)‘‘۔
زیرِ بحث آیت میں مسلمانوں کی باہمی آویزش اور اختلاف کو جو علمی بحث مباحثے اور مکالمے کی حد سے نکل کر تصادم اور جِدال وقِتال کی حدتک پہنچ جائے، عذاب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ پہلے ہمارے لبرل دانشور بڑے ذوق وشوق کے ساتھ مذہبی فرقہ واریت اور تصادم کو موضوعِ بحث بناتے تھے، مگر اب سیاسی محاذ آرائی اور منافرت نے سردست مذہبی منافرت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اب ہمارے الیکٹرانک میڈیا کی ساری رونقیں اسی کے دم سے قائم ہیں ۔ یہ بات اگرچہ ناخوشگوار اور رُسواکن ہے، مگرہے حقیقت کہ ہم بحیثیتِ ملک وقوم دنیا کی نظر میںناقابلِ حکمرانی ہیں اور بظاہر اصلاحِ احوال کے امکانات معدوم نظر آتے ہیں ۔ پانچ ہفتوں سے ہم دنیا کے سامنے تماشا بنے ہوئے ہیں، بیرونی سفارت کار اپنے اپنے ملکوں کو پَل پَل کی خبریں بھیج رہے ہوں گے، وہ فریقین سے ملاقاتیں بھی کررہے ہیں تاکہ جائزہ لیں کہ اپنی بربادی کا جشن منانے کے لئے ان میں کتنا دم خَم باقی ہے۔پاکستان کے ایک قابلِ اعتماد ہمسایہ ملک اور دنیا کی ایک ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت چین کے صدر کے دورے کا التوا سفارتی اعتبار سے غیرمعمولی واقعہ ہے۔
حال ہی میں آئی ایس پی آر کے ترجمان نے جو پریس اسٹیٹمنٹ جاری کیا ہے، اس پر ہمارے اہلِ اقتدار خوشی کے شادیانے بجانا چاہیں ، تو وہ بصد شوق ایسا کرسکتے ہیں ۔ لیکن اگر وہ کیفیتِ جذب سے باہر آکر اسے پڑھیں، تو اس میں ایک جہانِ معانی پوشیدہ ہے۔یہ معنوی اعتبار سے اسی طرح کا بیان ہے کہ جب تحریکِ طالبان پاکستان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لئے علمائِ کرام کے ایک طبقے سے حکومت نے مدد کی درخواست کی اور سہولت کارکا کردار ادا کرنے کے لئے بلایا، تو انہوں نے فریقین کے لئے ایک مختصر بیان جاری کیا تھا کہ: ''اللہ اور رسولؐ کا واسطہ دونوں فریق جنگ بندی کردیں‘‘ ۔
اہلِ نظر بھی منقسم نظر آتے ہیں ، ایک طبقہ اسے Status Quoیعنی موجودہ استحصالی اور غیر منصفانہ نظام کو برقرار رکھنے والی قوتوں کی مفاداتی جنگ اور آویزش سے تعبیر کرتاہے،کیونکہ ان کے مطابق دونوں طرف ڈرائیونگ سیٹ پراسی مفاداتی اور استحصالی طبقے کے افراد ہیں ، بس صرف باری نہ دینے کاگلہ ہے۔ جناب عمران خان نے تو مینارِ پاکستان کے اپنے پہلے بڑے جلسۂ عام میں کہا تھا:'' میاں صاحب! آپ دوباریاں بھگتا چکے ہو، اب ہمیں بھی باری لینے دیں‘‘۔اس کے برعکس ایک طبقہ ایسا بھی ہے کہ جسے اُفُق کے اُس پار سے امید کی کرن نظر آتی ہے، ہماری دعائیں ان کے ساتھ ہیں ، البتہ نوشتۂ دیوار اس کے برعکس ہے۔