اسلام میں تمام دینی عظمتوں،رفعتوں، عنداللہ قُربتوں اور محبوبیت ومقبولیت کا مرکز ومحور سید نا محمدرّسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی ہے، جس کو جتنی زیادہ آپ سے قربت ہے، نسبت ہے، محبت ہے اور اطاعت واتباع کا تعلق ہے ، وہ اسلام میں اتنا ہی عظیم المرتبت قرار پاتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''ہر نکاح اور نسبت کا رشتہ قیامت کے دن منقطع ہوجائے گا، سوائے میرے سبب اور نسب کے،(مسند احمد:18930)‘‘۔ اور ایک روایت میں آپ نے رشتۂ مصاہرت کا بھی ذکر فرمایا۔ (مصاہرت میں داماد اور خسر دونوں شامل ہیں) ۔
گزشتہ کالم میں ہم نے ''مقامِ صحابہ‘‘ پر قرآن وسنت کی روشنی میں گفتگو کی تھی، اہلِ بیت میں سے جنہیں شرفِ صحابیت حاصل ہے ، وہ اُن تمام فضیلتوں کے حق دار ہیں اور اہلِ بیتِ نبوت ہونے کا شرف اس سے سِواہے۔ قرآنِ مجید میں ''اہل‘‘ اور ''آل‘‘ کے کلمات آئے ہیں، بالعموم یہ دونوں کلمات ہم معنی استعمال ہوتے ہیں۔ مفسرینِ کرام نے یہ بھی کہا ہے کہ ''آل‘‘ شرفِ نسبت کے لئے بولا جاتاہے، خواہ یہ شرف محض دُنیوی اعتبار سے ہو یا دینی اور اُخروی اعتبار سے ، آج کل بھی ''آلِ سعود‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ قرآن میں ''آل‘‘ محض پیروکاروں کے لئے بھی استعمال ہواہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:'' اور(یاد کرو )جب ہم نے تمہارے لئے سمندر کو چیر دیا، پھر ہم نے تم کو نجات دی اور ہم نے ''آلِ فرعون(فرعون اور اس کے متبعین )‘‘کو غرق کردیااور تم دیکھ رہے تھے، (البقرہ:50)‘‘۔ سب کو معلوم ہے کہ فرعون کی اولاد نہیں تھی اور یہاں آلِ فرعون سے مراد فرعون اور اس کے پیروکار ہیں۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اسلام لائے ، تو وہ سرزمین عرب میں اجنبی تھے ، فارس کے رہنے والے تھے ، مہاجرین نے کہا:سلمان ہم سے ہیں ، انصار نے کہا: سلمان ہم سے ہیں، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''سلمان ہمارے اہلِ بیت میں سے ہیں‘‘،(تاریخ طبری:91-92/2)‘‘۔
اہلِ بیتِ رسول اور آلِ رسولﷺ کی شرافت وتکریم مسلّم ہے ، رسول اللہﷺ نے اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہااور اپنے نواسوں حضراتِ حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہما کے بارے میں ارشاد فرمایا:(1)''فاطمہ میرے وجود کا ٹکڑا ہے، سو جس نے اسے غضبناک کیا ، اس نے مجھے غضبناک کیا، (صحیح بخاری:1051)‘‘۔ایک بار رسول اللہﷺ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو اپنے دوشِ مبارَک پر اٹھائے فرما رہے تھے:(2)''اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں ، تو تو بھی اس سے محبت فرما،(صحیح بخاری:3749)‘‘۔دوسری حدیثِ مبارَک میں ان الفاظ کا اضافہ ہے:(3)''جو اِس سے محبت کرے ، تو بھی اُس سے محبت فرما، (بخاری:2122)‘‘۔ایک اور حدیث میں حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا:(4)''یہ دونوںمیرے لئے دنیا میں دو خوشبودار پھول ہیں،(صحیح بخاری:3753)‘‘۔(5)''حسن اور حسین نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں،(ترمذی:3768)‘‘۔
(6)''ایک بار رسول اللہﷺ (مسجد ِ نبوی میں) خطبہ ارشاد فرما ر ہے تھے کہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سرخ قمیصیںپہنے لڑکھڑاتے چلے آرہے تھے،آپ (نے خطبہ موقوف فرمایا) منبر سے اترے، ان دونوں کو اٹھایا، پھر (منبر پہ بیٹھے) ان دونوں کو گود میں بٹھایا اور فرمایا:اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے:'' تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لئے آزمائش ہیں‘‘، میں نے ان دو بچوں کو دیکھا کہ یہ لڑکھڑاتے ہوئے چل رہے تھے ، تو مجھ سے صبر نہ ہوا، میں نے اپنی گفتگو کو روکا اور انہیں اٹھا لیا، (اس کے بعد آپ نے خطبہ دوبارہ شروع کیا)، (ترمذی:3774)‘‘۔ (7)''عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:''رسول اللہﷺ امام حسن کو اپنے دوشِ مبارَک پہ اٹھائے ہوئے تھے، ایک شخص نے (رَشک بھر ی نظروں سے دیکھا اور )کہا : (اے خوش نصیب لڑکے) ! کتنی اچھی سواری ہے ، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: (یہ بھی تو دیکھو)سوار کتنا پیارا ہے،(سنن ترمذی: 3783)‘‘۔ (8)آپﷺ نے فرمایا:''حسین مجھ سے ہیں (یعنی میری اولاد سے ہیں)اور میں حسین سے ہوں(یعنی وہ میرے کمالات کا مَظہر بنیں گے)، جو حسین سے محبت کرے اللہ اسے اپنا محبوب بنائے ، حسین میری اولاد سے ہیں، (ترمذی:3775)‘‘۔ (9)''میرے اہلِ بیت کی مثال سفینۂ نوح کی سی ہے ، جو اس میں سوار ہوا، نجات پاگیا اور جو اس میں سوار ہونے سے رہ گیا وہ ہلاک ہوگیا(یعنی جس نے ان کی محبت واطاعت کو اپناشِعار بنایا ، وہ نجات پاگیا اور جس نے ان سے تعلق توڑا ، اس نے اپنی عاقبت کو برباد کیا)،(المستدرک للحاکم:151/3)‘‘۔
نجران کے نصاریٰ نے جب حق پر مبنی دلائل سننے کے بعد بھی آپﷺ کی دعوتِ حق کو قبول نہ کیا ، تواللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو فرمایا:''آپ کہئے !آؤ ہم بلائیں اپنے بیٹوں اورتمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو اور تمہیں (بھی)،پھر ہم(سب) عاجزی سے اللہ کے حضور دعا کریںاور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں، (آل عمران:61)‘‘۔اسے اصطلاح میں ''مُباہَلہ‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی تنازع کے دونوں فریق مل کر یہ دعا کریں اے اللہ! ہم میں سے جو فریق جھوٹا ہو، اس پر لعنت فرما۔جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہﷺ نے نجران کے نصاریٰ کے وفد کو ''مُباہَلہ‘‘ کے لئے بلایا ، رسول اللہﷺ حضرت حسین کو گود میں اٹھائے ہوئے اور حضرت حسن کا ہاتھ پکڑے ہوئے نکلے اور حضرت فاطمہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما آپ کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے اور آپ ان سے فرما رہے تھے کہ جب میں دعا کروں تو تم آمین کہنا۔ نصاریٰ کے چیف پادری نے کہا: اے نصاریٰ! میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا کہ اگر وہ اللہ سے دعا کریں کہ وہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا دے ، تو اللہ ان کی دعا کو قبول کرکے پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا دے گا، سو تم ان سے مُباہَلہ نہ کرو ، ورنہ تم ہلاک ہوجاؤ گے اور قیامت تک روئے زمین پر کوئی عیسائی باقی نہیں بچے گا،پھر انہوں نے جزیہ دینا قبول کیااور مباہلہ کئے بغیر واپس چلے گئے، (المستدرک ، جلد:02،ص:594)‘‘۔
اللہ عزّوجل کا ارشاد ہے:''آپ کہہ دیجئے ، میں اِس(تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا، سوائے قرابت کی محبت کے،(الشوریٰ:23)‘‘۔ اس کے ایک ظاہری معنی تو یہ ہیں کہ میں اپنی تبلیغِ رسالت کے صلے میں تم سے اپنے قرابت داروں(یعنی اہلِ بیت ) کے ساتھ محبت طلب کرتاہوں اور بعض لوگ یہ معنی مراد لیتے ہیں ۔ ہماری رائے میں یہ رسول اکرمﷺ کے شایانِ شان نہیں ہے، قرآن مجید کی متعدد آیاتِ کریمہ میں حضرات نوح، ہود، صالح، لوط اور شعیب علیہم السلام کے اقوال نقل فرمائے گئے ہیں:''میں تم سے اس (تبلیغ) رسالت پر اجرت کا طلبگار نہیں ہوں، میرا اجر تو اللہ کے ذمۂ کرم پر ہے‘‘۔ سو یہ ہم کیسے تصور کرسکتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنے دعوتِ حق کے مشن کا کوئی مادّی اجرطلب کریں گے، لہٰذا عبداللہ بن عباس نے اس کے ایک معنی یہ روایت کئے گئے ہیں کہ ''قرابت کے رشتوں میں محبت کوشِعار بناؤ‘‘۔
خطبۂ حجۃ الوداع میں آپﷺ نے فرمایا:''اے لوگو! میں ایسی چیز چھوڑ کر جارہا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوطی سے تھامے رہے، تو میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہوگے، ان دونوں میں ایک دوسری سے بہت بڑے مرتبے والی ہے، یعنی کتاب اللہ، اللہ کی رسی جو آسمان سے زمین تک دراز ہے اور میری عِترت یعنی میرے اہلِ بیت،(سنن ترمذی:3788)‘‘۔ اور مؤطا امام مالک کی حدیث میں کتاب اللہ کے ساتھ سنت رسول اللہﷺ کا ذکر ہے۔