اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کی سب سے پہلی سورت ''الفاتحہ‘‘ میں اپنے بندوں کو اپنی بارگاہ میںیوں دعا کرنے کا سلیقہ بتایا :''(اے اللہ!) ہمیں سیدھی راہ چلا، اُن لوگوں کی راہ جن پر آپ نے انعام فرمایا،(الفاتحہ:5-6)‘‘۔قرآن مجید کی تفسیر کا سب سے بلند درجہ ''تفسیر القرآن بالقرآن‘‘ ہے، چنانچہ قرآن نے اللہ کے ان انعام یافتہ بندوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا:''اور جو اللہ اور (اُس کے) رسول کی اطاعت کرے ، تو وہ آخرت میں ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے، جن پر اللہ انعام فرمایا ہے ، جو انبیاء، صدیقین ، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ (سب) کیا ہی عمدہ ساتھی ہیں،(النساء:69)‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قربت کے جن مقامات کو اپنے خصوصی انعامات سے نوازا ہے، اُن میں شہداء کی جماعت بھی شامل ہے۔قرآن مجید میں اِسے'' قُتل فی سبیل اللہ‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا:(۱)''اور جو اللہ کی راہ میں قتل کیا جائے ، اُسے مُردہ نہ کہو، (البقرہ:154)‘‘۔(۲):''اور جو اللہ کی راہ میں قتل کردئیے جائیں اُنہیں مردہ گمان نہ کرو،(النساء:169)‘‘۔یعنی جس شخص کی ظاہری اور طبی معیار کے مطابق موت واقع ہوچکی، اُسے راہِ خدا میں قتل کردیا گیا ، اُس کو قرآن نے مردہ کہنے اور مردہ گمان کرنے سے بھی منع کرتے ہوئے فرمایا :''بلکہ وہ زندہ ہیں ، لیکن تمہیں اُن کی زندگی کا شعور نہیں ہے،(البقرہ:154)‘‘اور دوسرے مقام پر فرمایا:''بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں ، انہیں رزق دیا جاتاہے،(النساء:169)‘‘۔
لفظ ''شہید‘‘ کے معنی ''گواہ ‘‘اور'' حاضر ہونے ‘‘کے ہیں، ''مقتول فی سبیل اللہ ‘‘پر اِس کلمے کے اِطلاق کی معنوی مناسبت یہ ہے کہ شہید زندہ ہوتاہے اور ظاہری موت کے فوراً بعد اُس کی روح جنّت میںحاضر اور موجود ہوتی ہے ،اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے ، اس کے حق میںجنت کی شہادت دیتے ہیں ، گویا شہید وہ ہے ، جس کے جنتی ہونے کی گواہی دی جائے۔ ایک وجہ مناسبت یہ ہے کہ ظاہری موت کے واقع ہوتے ہی فرشتے اس کی روح کے استقبال اور اِکرام کے لئے حاضر ہوجاتے ہیں، کیونکہ اس کا ظاہرِ حال اس کے ایمان اور'' خاتمہ بالخیر ‘‘پر گواہ ہوتاہے۔
اللہ کی مخلوق میں رسالت ونبوت سے بڑھ کر کوئی منصب نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے شہادت کو اعزاز عطا فرماتے ہوئے ،تکرار کے ساتھ اس کی تمنا فرمائی اور ارشاد فرمایا:''اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ، میں تمنا کرتاہوں کہ اللہ کی راہ میں شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں ، پھر شہید کیاجاؤں ، پھر زندہ کیا جاؤں ، پھر شہید کیاجاؤں ، پھر زندہ کیا جاؤں ، پھر شہید کیاجاؤں،(بخاری:2797)‘‘۔ رسول اللہ ﷺ سے سوال ہوا :''ایک شخص دادِ شجاعت پانے کے لئے لڑتاہے، ایک شخص (ذاتی یا قبائلی یا گروہی)عصبیت کے لئے لڑتاہے ، ایک شخص ناموری اور شہرت کے لئے لڑتاہے ، تو (ان میں سے اللہ کی راہ میں لڑنے والا کون ہے؟)، تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اس لئے لڑے کہ اللہ کا کلمہ (یعنی اللہ کا دین) غالب آجائے ، تو اس کا لڑنا اللہ کی راہ میں شمار ہوگا،(سنن ابن ماجہ:2778)‘‘۔
اس سے معلوم ہوا کہ دنیا کے ظاہری معیارات کے اعتبار سے جسم کے ساتھ روح کارشتہ قائم رہنا زندگی ہے اور انسان دنیا میں ساری تگ ودو اور جِدّوجُہداسی حیاتِ فانی کی بقااور فلاح کے لئے کرتاہے، لیکن بہرصورت یہ زندگی فانی ہے اور ایک دن یہ شمع لازمی طور پر بجھ جائے گی، کیونکہ قانونِ قدرت یہی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:''جو بھی اِس (زمین ) پر ہے ، وہ فناہونے والا ہے اور آپ کے رب کی ذات باقی ہے، جو عظمت اور بزرگی والا ہے،(الرحمن:27)‘‘۔
اس کے برعکس بندگی کا مرتبۂ کمال یہ ہے کہ دنیا کی ساری نعمتیں حتیّٰ کہ متاعِ حیات کو بھی اُس کے نام پر اور اُس کی رضا کے لئے قربان کردیا جائے ، جس نے یہ نعمتیں عطا کی ہیں، یہی مرتبۂ کمالِ ایمان ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اور لوگوں میں سے ایک شخص ایسا ہے ، جو اللہ کی رضا جوئی کے بدلے میں اپنی جان کو فروخت کردیتا ہے،(البقرہ:207)‘‘۔یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے وہ جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے:''مومنوں میں سے کچھ ایسے (وفاشِعار) مرد ہیں ، جنہوں نے اللہ سے اپنے کئے ہوئے عہد کو سچا کردکھایا، سو اُن میں سے بعض نے (شہید ہوکر) اپنی نذر ِ(وفا) پوری کردی اور ان میں سے بعض (اپنی باری کے) مُنتظِرہیں،(الاحزاب:23)‘‘۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:''بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کو جنت کے بدلے میں خرید لیا ہے، وہ اللہ کی راہ میںجہاد کرتے ہیں ،(کبھی) وہ (دشمنانِ دین کو) قتل کرتے ہیں اور (کبھی )خود شہید ہوجاتے ہیں، اِس پر تورات ، انجیل اور قرآن میں اللہ کا سچا وعدہ ہے اور اللہ سے زیادہ اپنے وعدے کو پورا کرنے والا کون ہے؟، پس تم اِس بیع کے ساتھ خوش ہوجاؤجو تم نے (اللہ سے)کی ہے اور یہی بڑی کامیابی ہے،(التوبہ:111)‘‘۔
اس لئے کبھی تو رشتۂ جان کو قائم رکھنا حیات ہے اور کبھی اس نعمتِ جان کوجاں آفریں کی رضا کے لئے قربان کردیناہی حیاتِ ابدی اور دوامِ حیات ہے، علامہ اقبال نے اسی مفہوم کو منظوم کلام میں بیان کیا ہے ؎
برتر از اندیشۂ سُود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی
تو اسے پیمانۂ اِمروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں پیہم دَوَاں، ہردم جواں ہے زندگی
جن کی نظر میں اسی دنیا کی زندگی ، عِشرتیں ، راحتیں اورنعمتیں ہی مقصودِ کل اور مطلوبِ کامل ہیں ، اُن کے لئے موت سے آنکھیں چار کرنا ناقابلِ تصور ہوتاہے، چنانچہ قرآن مجیدنے یہود کی اسی نفسیات کی کمزوری کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:''(اے رسول!) کہہ دیجئے: اے یہودیو! اگر تمہیں یہ خوش فہمی ہے کہ تمام لوگوں کے سوا تم ہی اللہ کے دوست ہو، پس اگر تم (اس دعوے میں) سچے ہو تو موت کی تمنا کرو(تاکہ جلد اپنے محبوبِ حقیقی سے جا ملو) اور وہ اپنے پہلے سے بھیجے ہوئے کرتوتوں کے سبب کبھی موت کی تمنا نہیں کریں گے اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے، (الجمعہ:07)‘‘۔دوسرے مقام پر فرمایا:''آپ کہئے :( اے یہود) اگر اللہ کے نزدیک اور لوگوں کی بجائے دارِ آخرت خالص تمہارے لئے ہے ، تواگر تم (اپنے اس دعوے میں) سچے ہو تو موت کی تمنا کرو، (قرآن نے پیشین گوئی کی) اوروہ جو اعمال پہلے کرچکے ہیں ، ان کی وجہ وہ ہر گز موت کی تمنا نہیں کریں گے اور اللہ ظالموں کو خوب جاننے والا ہے اور آپ تمام لوگوں اور مشرکین سے بھی زیادہ انہیں زندگی کا ضرور دلدادہ پائیں گے، ان میں سے ہر ایک یہ خواہش رکھتا ہے کہ کاش اس کی عمر ہزار سال ہوجائے ۔اور اگر یہ عمر اسے دے بھی دی جائے تو یہ اس کو عذاب سے دور کرنے والی نہیں ہے،(البقرہ:96)‘‘۔علامہ اقبال نے حیاتِ ابدی کے اسی تصور کو اور زیادہ وضاحت سے بیان کیا ؎
موت کوسمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوامِ زندگی
جب محرم الحرام کا مہینہ آتاہے تو آج سے 1375سال قبل دس محرم الحرام سن اکسٹھ ہجری میں امام عالی مقام حسین ، آپ کے اہلبیتِ اَطہار اور اَعوان وانصار رضی اللہ عنہم کی عظیم اور بے مثال قربانیوں اور شہادتوں کی یاد ہر مسلمان کے دل میں تازہ ہوجاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں عزیمت واستقامت اور ایثار وقربانی کے جتنے عنوانات اور دینِ حق کی سربلندی کے لئے ابتلاوآزمائش کی جتنی بھی صورتیں انسان کے حاشیۂ خیال میں آسکتی ہیں ، کربلا والوں نے ان سب کا سامنا کیا اور اللہ تعالیٰ کے حضور سرخرو رہے اور قیامت تک کے لئے عزیمت واستقامت کی ایک لازوال داستان سرزمین کربلا پر اپنے خون سے رقم کرگئے۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ محبتِ حسین ؓکے دعوے دار بھی بہت ہیںاور یا حسین ؓکا نعرہ لگانے والے بھی بے شمار ، مگر اَقدارِ حسین ؓکا اِحیا کرنے والے اور شِعار حسین ؓپرمر مٹنے والے کم ہیں ۔اُس یزید کو ،جو آج سے پونے چودہ سو سال پہلے ہوگزرا ، کوسنے والے اور ملامت کرنے والے تو بہت ہیں ، لیکن آج یزیدی اَقدار کو چیلنج کرنے والے کم یاب بلکہ نایاب ہیں ، اسی لئے علامہ اقبال نے کہا تھا ؎
گرچہ اب بھی تابدار ہے گیسوئے دجلہ وفرات
قافلۂ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں
اور انہوںنے پیغام دیا کہ ؎
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیریؓ
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری