"MMC" (space) message & send to 7575

ہمارے اعداد وشمار

آج کل جدید دنیا کے ممالک اوراقوام اپنی منصوبہ بندی اور ترقی کا مدار اعداد وشمار (Statistical Data)پر رکھتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو کم وبیش ہر شہری کے بارے میں مطلوبہ معلومات کہیں نہ کہیں محفوظ ہوتی ہیں اور کسی جرم یا قانون شکنی کے ارتکاب کی صورت میں سارا ریکارڈچھَن کرسامنے آجاتاہے۔ اسی طرح امریکہ میں صدارتی امیدوار کا سارا کچا چٹھہ کھول کے رکھ دیا جاتاہے اور بعض اوقات امیدواروں کو مقابلے سے دست بردار ہونا پڑتا ہے، کیونکہ ان کے ہاں دیانت وامانت ، جنسی آوارگی اور اخلاقیات کے حوالے سے قیادت کے منصب پر فائز ہونے والے کے لئے معیارات نہایت سخت ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے میڈیا بھی بے رحم ہوتاہے اور قوم بھی کسی رُو رعایت کی رَوَادار نہیں ہوتی،حتیٰ کہ جو باتیں عام زندگی میں عام آدمی کے لئے معیوب نہیں سمجھی جاتیں ، قومی رہنمائی کے منصب پر فائز ہونے والے کے لئے ان میں بھی کوئی رعایت نہیں برتی جاتی۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں معاملہ یکسر مختلف ہے۔ 
اقوام اور ممالک درست اعداد وشمار کی بنیاد پر اپنا حال بھی مُنظّم کرتے ہیں اور مستقبل کی بھی بہتر منصوبہ بندی کرتے ہیں ، یورپی یونین کے ممالک کا ایک مشترکہ فورم یا ڈھیلے ڈھالے وفاق(Confederation)کی ایک صورت ہے، وہ پورے یورپ کو ایک مشترکہ منڈی (Common Market)اور مربوط معیشت کی صورت میں ڈھالنا چاہتے ہیں، چنانچہ یورپی یونین کے بجٹ سے مختلف رکن ممالک کے پسماندہ علاقوں ، شہروں اور قصبات کے لئے خصوصی اعانتی فنڈ مخصوص کئے جاتے ہیں تاکہ کم ازکم بنیادی شہری سہولتیں سب کو حاصل ہوں ۔ چونکہ بعض یورپی ممالک اپنی آبادی کے لحاظ سے اور بعض اپنے رقبے کے لحاظ سے چھوٹے ہیں ، اس لئے شاید وہ اپنی اجتماعیت، اجتماعی قوت وصلاحیت اور امکانات (Potentials) کو امریکہ کے مقابل لانا چاہتے ہیں۔ 
اس موضوع کی طرف میرا ذہن اس لئے متوجہ ہواکہ آئے دن ہم اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر ذیابیطس ، کینسر ، اَمراض قلب ودماغ اور نفسیاتی عوارض کے حوالے سے اعداد وشمار پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں۔ایسے ہی اعدادوشمار خواندگی (Literacy) اور ناخواندگی کے حوالے سے اور غربت (Poverty) واِمارت کے حوالے سے پڑھنے اور سننے کو ملتے ہیں ۔ یہی صورتِ حال آبادی کے اعداد وشمار کی ہے۔ کراچی کی آبادی کے تخمینے ڈیڑھ کروڑ سے شروع ہوتے ہیں اور دو کروڑ سے تجاوز کرجاتے ہیں۔ ہمارے سالانہ بجٹ اور مالیاتی وصولیابیوں (Revenue Recoveries)کی صورتِ حال بھی چنداں مختلف نہیں ہے۔ ماضی میں ہم عالمی مالیاتی اداروں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کو غلط مالیاتی اعداد وشمار پیش کرنے پر جرمانے بھی ادا کرچکے ہیں۔
الغرض ہمارے کسی بھی شعبے کے بارے میں درست یا اُس سے قریب تر اَعداد وشمار دستیاب نہیں ہیں ، نہ ہی ہمارے ہاں مختلف شعبوں کے بارے میں درست ڈیٹا مرتب کرنے کا کوئی سائنٹیفک نظام موجود ہے ۔ ہمارے پاس تو پولیو، ڈینگی اور ملیریا کے بارے میںبھی صحیح معلومات نہیں ہیں۔ ہمیں انہی معلومات پر انحصار کرنا ہوتاہے جو عالمی میڈیا یا عالَمی ادارے ہمیں فراہم کرتے ہیں ۔ بنیادی سبب یہ ہے کہ ہمارے ہاں مردم شماری (Census)بھی باقاعدگی سے ہر دس سال کے بعد نہیں ہوپارہی ۔ جو مردم شماری 2000ء میں ہونا تھی، وہ 2014ء کے اختتام تک نہیں ہوپائی اور کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ 2020ء تک بھی ہوپائے گی یا نہیں ۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم ذمہ دار قوم نہیں بن پارہے ، ہم ایک دوسرے کو قابلِ اعتماد نہیںسمجھتے ، ایک دوسرے کو دھوکا دینا اور دھوکا کھانا ہمارا شِعار بن چکا ہے۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:''مومن نہ دھوکا دیتا ہے اور نہ دھوکا کھاتاہے‘‘۔ 
اسی طرح جھوٹ کو بھی ہم نے ایک شِعار کے طور پر اختیار کرلیا ہے۔ آپ جلسوں ،ریلیوں اور دھرنوں کے بارے میں اعداد وشمار کے مختلف اور مُتضاد دعوے سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں۔ ایک ہی جلسے کے شرکاء کی تعداد پچیس تیس ہزار سے لے کر دو لاکھ یا بعض اوقات ملین تک بتائی جاتی ہے۔ کون سچا اور کون جھوٹا ہے، کسی کوخبرنہیںاور نہ ہی خوفِ خدا ہے، اس اِعزاز یعنی تعداد کی تقلیل (Minimizing)اور تکثیر (Multiplication)میں پارسا اور پاپی سب شامل ہوتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا:(یارسول اللہ!) کیا مومن بزدل ہوسکتاہے؟، آپ ﷺ نے فرمایا:ہاں! پھر پوچھا گیا: کیا مومن بخیل ہوسکتا ہے؟، آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، پھر سوال ہوا: کیا مومن جھوٹا ہوسکتا ہے؟، فرمایا:نہیں،(شِعَب الایمان للبیہقی :4732)‘‘۔
جب 2013ء کے قومی انتخابات کے لئے رائے دہندگان کی فہرست (Voters List ) نادرا کے ذریعے مرتب کی گئی تو جماعت ِ اسلامی کی کراچی کی قیادت نے اس میں گھپلوں کا واویلا کیا۔ دوسری جانب نادرا نے میڈیا کے ذریعے اپنے ووٹ کے اندراج کی تصدیق کاذریعہ بتایا۔ میں نے اس کے مطابق اپنے ووٹ کی تصدیق کی، تو جواب مثبت مل گیا۔ اس دوران جماعتِ اسلامی کے ذمہ داران سے ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں اپنا تجربہ بتایااور ان سے کہا کہ آپ لوگ اتنا واویلا کیوں کررہے ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ کراچی کے تین تا چارلاکھ ووٹ اِدھر اُدھر کردئیے گئے ہیں۔ میں نے اُن سے پوچھا :وہ کیسے؟۔ انہوں نے بتایا کہ بہت سے لوگ کراچی میں مستقل طور پر رہائش پذیر ہیں ، لیکن روایتی طور پر وہ اپنے شناختی کارڈ پر ایک رہائشی پتا اور ایک مستقل پتا لکھواتے ہیں ، سو جن کے شناختی کارڈ پر مستقل پتا کراچی کے علاوہ کہیں اور کا درج تھا ، ان کو کراچی کی ووٹرز لسٹ سے نکال دیا گیا اور بعض جو اِس زَد میں نہیں آتے تھے ، ووٹرز لسٹ میں ان کے نام ان کے رہائشی حلقوں سے نکال کر دوسرے حلقے میں ڈال دئیے گئے ہیں ۔ پھر جب ووٹر لسٹ کی تصدیق کے لئے کچھ سرکاری عملدار ہمارے مکان پر آئے تو ہمارے گھر میںدو مردانہ اور دو خواتین کے ووٹ تھے، لیکن نہ مردانہ ووٹ فہرست میں ایک ساتھ تھے اور نہ ہی خواتین کے ۔ اسی طرح ووٹرز لسٹ میں مکانات بھی صحیح ترتیب کے مطابق نہیں تھے۔ 
سو اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ہم سچ بولیں اور سچ کو مانیں۔ ایک دوسرے کو دھوکا بھی نہ دیں۔ ایک قوم بنیں اور قوم کے ہر فرد کو وہ جہاں کہیں بھی ہے، اپنا سمجھیں اور اس حقیقت کو دل وجان سے قبول کریں کہ ہماری آن، ہماری شان، ہماری پہچان اور ہماری بقا پاکستان سے وابستہ ہے۔ ہماری اور پاکستان کی ترقی لازم وملزوم ہے۔ اور لازم ہے کہ نہایت شفاف طریقے سے اور پوری دیانت داری کے ساتھ مردم شماری کی جائے تاکہ مالیاتی وسائل کی تقسیم انصاف پر مبنی ہو اورہم اپنے حال اور مستقبل کی ضروریات کا صحیح اندازہ لگاسکیں۔اس کے بغیر حقیقی منصوبہ بندی ممکن نہیں ہے۔ ہمارے بڑے شہروں کا بنیادی ڈھانچہ (Infrastructure)اتنی آبادی کے لئے نہیں تھا، جواب ہے۔ اس لئے ایک نئے وژن کے ساتھ وسائل کے اندر رہتے ہوئے بتدریج بجلی کی ترسیل، پانی کی سپلائی لائنوں اور سیورج لائنوں کی Upgradationکی ضرورت ہے۔ اسی طرح الیکشن کمیشن یا نادرا پر لازم قرار دیا جائے کہ جس علاقے کی فہرست مرتب کریں ، اس علاقے کے مکانات کی واقعاتی ترتیب کے مطابق کریں اور اس کے لئے وہ متعلقہ اداروں اورہاؤسنگ کے دیگر اداروں سے ان کے نقشے طلب کریں اور اُن کے مطابق رائے دہندگان کی فہرستیں مرتب کریں تاکہ ہر ایک کو اپنا نام تلاش کرنے اور حلقۂ انتخاب اور پولنگ اسٹیشن معلوم کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے ۔
پاکستان میں دنیا کے کسی بھی حصے سے کوئی شخص آکر بلا روک ٹوک رہ سکتاہے، جائیداد خرید سکتاہے، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوا سکتاہے۔ ہمارے ہاں بالعموم قانونی ذرائع سے جائز کام کرانا دشوار ہوتاہے، جبکہ غیرقانونی ذرائع سے غیر قانونی کام کراناآسان ہے ۔ قانون اور قانون نافذ کرنے والے ادارے غیر مؤثر ہوچکے ہیں اور حالیہ سیاسی بحران نے تو اس مسئلے کی سنگینی کو اورنمایاں کردیا ہے۔ جب بزعمِ خویش نیا پاکستان بنانے والی قیادت اپنے حامیوں کے ساتھ پولیس تھانوں پر چڑھائی کرکے حوالات سے لوگوں کوزورِ بازو اور دہشت سے چھڑا کر لے جائے گی اور میڈیا اس کی رواں کوریج کرے گا،تو پھر کیسی حکومت اور کیسا نظام؟۔ چند دانوں سے ہی چاول کی پوری دیگ کا پتا چل جاتا ہے اور ذہن میں یہ خدشات جنم لیتے ہیں کہ کیا موعود(Promised)یا مزعوم (Supposed)نئے پاکستان میں یہی نظام ہوگا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں