"MMC" (space) message & send to 7575

الارمنگ فیصلہ

ہمارے ہاں سیاسی سطح پر چھیڑ چھاڑ کے لئے اور قومی مناصب پر فائز، خواہ وہ اقتدار میں ہوں یاحزبِ اختلاف میں، بعض شخصیات کوزِچ کرنے کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان میں شوقیہ مُقدمات بھی دائر کئے جاتے ہیں اورکچھ لوگ اِس کے لئے کافی معروف ہیں ؛ حالانکہ اُن کا اِن معاملات سے براہِ راست کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ لیکن دستور کے آرٹیکل 184یعنی بنیادی حقوق کی آڑ لے کر یہ کارِخیر انجام دیاجاتا ہے اور ہم کئی عشروں سے اِس طرح کی عدالتی پٹیشنز کی داستانیں اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں ،اورآج کل تو الیکٹرانک میڈیا پر بھی اِن اُمور سے متعلق رپورٹنگ ہوتی رہتی ہے۔ قومی اسمبلی وسینٹ (مجلسِ شوریٰ ) کے اَرکان، صوبائی اسمبلیوں اورکابینہ کے اَرکان کی اہلیت کے بارے میں دستورِ پاکستان میںآرٹیکل 62اور 63موجود ہیں۔
اِن آرٹیکلز میں اَہم شرائط یہ ہیں: (الف)ایسا شخص مالی بدعنوانی میں مُلوّث نہ ہو (ب) نظریۂ پاکستان پر یقین رکھتاہو (ج) وہ عملی (Practicing)مسلمان ہو(د)اسلام کے فرائض وواجبات کا پابند ہو (ہ)کبیرہ گناہوں کا مرتکب نہ ہو (و)اچھے کردار کا حامل ہواور اسلامی اَحکام کی حکم عدولی کرنے والے کے طورپر معروف نہ ہو (ز)اسلام کی کافی معلومات رکھتاہو ،(ح) عدالت سے اُسے دیوالیہ قرارنہ دیاگیاہو (ط) عدالت نے اُسے کسی جرم کا مرتکب (Convict)قرارنہ دیاہو(ی)اُس نے ملکی سالمیت کے خلاف کام نہ کیاہو(ک) وہ صادق اورامین ہو (ل) پاکستان کا شہری ہو(م) وہ دماغی طورپر صحیح اورراست باز ہووغیرہ۔
ہم نے لفظی ترجمہ نہیں کیابلکہ ترجمانی کرتے ہوئے اَہم نکات کو نمایاں کیاہے اور بعض ایسی شرائط جو معہود (Understood)ہوتی ہیں، قارئین ِ کرام کا وقت بچانے کے لئے اُن کے ذکر سے احتراز کیاہے۔ آرٹیکل 62-63 میں بعض شرائط ایسی ہیں کہ اگر نیت صحیح ہو تووہ Self Explanatoryیعنی اپنی وضاحت آپ ہیں، ورنہ گرفت سے بچنے کے لئے اِن میں سے گریزکے دسیوں راستے نکل آتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ یہ شرائط لکھنے والوں کی نیت بھی صالح اور صادق نہیں تھی بلکہ ان میں سے بعض شرائط کو ڈَرَاوے اور بلیک میلنگ کے لئے استعمال کرنا مقصود تھا۔ چنانچہ سابق صدر جنرل محمد ضیاء الحق جنہوں نے اِن شرائط کو آئین میں شامل کیا تھا ،کے زیرِ اقتدار جب 1985ء میں پہلے غیر جماعتی انتخابات ہوئے تو اُنہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سب ہی پاپی ہیں اورکسی کا دامن بھی پاک نہیں ہے،یعنی کوئی بھی طیب وطاہر (Mr.Clean)نہیں ہے۔
اِس کے واضح معنی یہ ہیں کہ اِن شرائط کو ڈالنے والوں کی نیت یہ نہیں تھی کہ پارلیمنٹ کا ممبر بننے والے ہرفرد کو اِن کی چھلنی سے چھان پھٹک کر گزاراجائے تاکہ پاکیزہ کردار کے لوگ قومی نیابت (Representation)کے مَناصِب پر فائز ہوں اور ہر معیار سے صادق اور امین ہوں یا یوںکہئے کہ اُن کی نظر میں ہمارا معاشرہ ایسے پاکیزہ کردار لوگوں سے خالی ہے۔۔۔۔۔ گویا اِس حمام میں سب ہی ننگے ہیں ۔
چونکہ اِن آرٹیکلز میں جو شرائط لگائی گئی ہیں،اُن کی وضاحت نہیں کی گئی،اِس لئے کوئی اُن کی خلاف ورزی کی گرفت میں نہیں آتا۔ یہ جو جلسوں میں سیاسی رہنما ایک دوسرے پرمالی بدعنوانی (Corruption)کاالزام لگاتے ہیں،وہ سب جانتے ہیں کہ جب تک عدالت کسی کو بدعنوانی کے الزام میں مجرم (Convict)قرار نہ دے، محض الزام سے وہ نااہل نہیں قرار پاتا اور یہ بات اُن جماعتوں کے سینئر وکلا ء بھی جانتے ہیں جو اِن رہنماؤں کے دائیں بائیں کھڑے ہوتے ہیں ۔اِسی طرح قرض کا نادہندہ (Defaulter)وہ قرار پائے گا جسے عدالتِ عالیہ یا عدالتِ عظمیٰ نادہندہ قراردے ۔ ہمارے ملک کا ضابطۂ قانون (Procedural Law)یہی ہے، باقی سب رونقِ محفل کی باتیں ہیں اور یہ ضوابط بنانے والے اپنا بُرا کب چاہیں گے۔
حال ہی میں وزیرِ اعظم جناب محمد نوازشریف کے خلاف سپریم کورٹ میں نااہلی کی پٹیشن دائرکی گئی ہے ؛ چنانچہ جنابِ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ڈویژن بنچ نے کہا، اب وقت آگیا ہے کہ آرٹیکل 62-63کی تشریح کردی جائے ،پھر بعدمیں جس کی بھی گردن پھنسے پروا نہیں ۔ چنانچہ اُنہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے کہاہے کہ بہتر ہے کہ سپریم کورٹ کا بڑا عدالتی بنچ تشکیل دیاجائے جو اِن آرٹیکلزکو لفظاً اور معنیً (In Letter & Spirt)واضح کرے تاکہ آئندہ یہ آرٹیکلزاطلاق (Application)کے حوالے سے جامد وساکت ، بے جان اور بے معنیٰ نہ رہیں،بلکہ چنگھاڑ کر بولیں ۔ لیکن اگر ایسا ہوگیا اوراللہ کرے ایسا ہوجائے توپھر روایتی طورپر ہماری نمائندگی کرنے والے سب پھنسیں گے اور شایدکوئی بھی نہ بچے یا بہت کم بچیں۔۔۔۔۔کوئی ڈیفالٹ میں گھر جائے گا ،کوئی کسی ڈی این اے ٹیسٹ کی زَد میں آئے گا اور کوئی کسی شراب خانے یا قحبہ خانے سے نکلتاہوا گرفت میںآئے گا ،کوئی اختیارات کے غلط استعمال کی زَد میں آئے گا، کسی کے محلے سے شہادتوںکا اَنبار لگے گا کہ اِسے کبھی کسی نے نماز پڑھتے دیکھاہی نہیں،جہاں پارلیمنٹ اورکیبنٹ کے بعض نامی گرامی ارکان کو سورۂ اخلاص یعنی''قل ھواللہ احد‘‘بھی نہ آتی ہو،اُن کے بارے میں آپ یہ حسنِ ظن کیسے قائم کرسکتے ہیں کہ اُنہوں نے کبھی نماز پڑھی ہوگی۔
الغرض یہ ایک ایسا اَژدھا ہوگا جس کے درجنوں پَھن ہوں گے اور ہر پَھن سے ہمارے پارسا رہنما ڈسے جائیں گے ۔ پس ایک دوسرے کو چھیڑخانی کا شوق گلے بھی پڑ سکتا ہے اورپاؤں کی زنجیر بھی بن سکتا ہے۔
جب یہ حقائق سامنے آئیں گے تو پھر سب پناہ کی تلاش میں ہوں گے ۔ سرِ دَست تو صورتِ حال یہ ہے کہ بندہ خود ہی مُدَّعِی، خود ہی گواہ اور خود ہی مُنصِف ہے، لہٰذا اُس کو کوئی بھی فیصلہ صادر کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ، لیکن حتمی فیصلے کے لئے آخر کار کسی نہ کسی عدالت میں پیش ہونا پڑے گا اور اُس کے فیصلے کو ماننا پڑے گا۔
ابھی تومائیک ہمارے ہاتھ میں ہے، سو جو فیصلہ ہمارے حق میں آئے، وہ عادلانہ ہے اور جوفیصلہ ہمارے خلاف آئے وہ ظالمانہ ہے جس کی سوچ ہماری سوچ سے نہ ملے وہ بکاؤ مال ہے، ضمیر فروش ہے یا حقیر انسان ہے۔ کیا دفاع اورانٹیلی جنس اداروں سمیت ریاست کے مختلف اداروں کے لئے بجٹ میں رقوم مُتعین نہیں ہوتیں اور وزارتِ خزانہ اُن رقوم کا اجرانہیں کرتی۔ سو اس طرح کے کاغذ لہرانا محض شعبدہ بازی ہے اور وقت آنے پر ایک دوسرے پر ڈالاجاتاہے۔ چنانچہ آج میں ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا ٹِکر ٹیلیویژن اسکرین پر دیکھ رہاتھا کہ میں نے تومحض رقم کے اِجرا کی بات کی تھی۔ میڈیا ہاؤسز، صحافیوں ،اینکرپرسنز اورکالم نگاروں کے ضمیروں کی خریداری کی بات عمران خان صاحب نے کی ہے اوراس کا بارِثبوت اُن پر ہے۔ سویہ سیاسی قیادت کی ثقاہت (Authenticity)اور ساکھ (Credibility)کاحال ہے۔
آج ہمارے ملّی اور قومی انتشارکا عالم یہ ہے کہ ہماری بڑی سیاسی جماعتیں بطور چیف الیکشن کمشنرکسی ایک شخص پر مُتّفق نہیں ہوپا رہیں، ہرجماعت اپنے پاس ویٹو پاور رکھنا چاہتی ہے جبکہ یہ شِعار جمہوری رِوایات واَقدار کے مُنافی ہے ۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا پاکستان کی 20کروڑکی آبادی میں ایک بھی ایساشخص نہیں ہے جس کی دیانت وامانت ، صداقت ، عدالت ، قُوتِ فیصلہ اور اِصَابتِ رائے اورساکھ پر سب کو اتفاق ہو ۔ سو ہرایک کا مزاج اپنی جگہ آمرانہ ہے اورسیاسی جماعتیں بھی اِسی مزاج کے مطابق چلائی جارہی ہیں ۔
خدشہ ہے کہ اگر ہمارے سیاسی رہنما کسی معقولیت کی طرف نہ آئے اور مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش نہ کیا توملک یا تو اَنارکی اور لاقانونیت کا شکار ہوجائے گا یا ایک بار پھر آمریت کی آغوش میںچلاجائے گا اور اُس کے بعد سب خواستہ وناخواستہ اپنی اپنی تحدِیدات میں چلے جائیں گے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں