اللہ تعالیٰ نے دعوتِ دین کو اِس اُمّت پر فرضِ کفایہ قرار دیاہے اور اِس اُمّت کا شِعار بھی بتایاہے ۔اِس کے ساتھ ساتھ دعوتِ دین کااُسلوب بھی تعلیم فرمایاہے ،ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ترجمہ:''آپ (لوگوں کو) اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلایئے اور اُحسن طریقے سے اُن کے ساتھ بحث کیجئے ،(النحل:124)‘‘۔امام رازی نے بتایاکہ حکمت سے مراد اپنے موقف کو یقینی ،قطعی اور ناقابلِ تردید دلائل کے ساتھ پیش کرنا ہے اور موعِظَۂ حَسَنہ سے مراد خُلوص اور شفقت بھرے اندازمیں دین کی بات دوسروں تک پہنچانا ،یعنی مُخَاطَب کو لگے کہ آپ کو اُس سے ہمدردی ہے ،اِسی اندازِ دعوت کے بارے میں کہاگیاہے کہ :'' جو بات دل سے نکلتی ہے ، اثررکھتی ہے ‘‘ یا :''شاید کہ ترے دل میں اُتر جائے مری بات ‘‘۔
مَوعِظَۂ حَسَنہ میں ترغیب یعنی جزاکی اُمید اور ترہیب یعنی سزا کا ڈر دونوں شامل ہوتے ہیں ،اِسی کو قرآنِ مجید میں اِنذَار اور تبشیر سے تعبیر کیاگیا ہے ۔بعض اوقات مکالمے اور بحث وتمحیص کی نوبت آجاتی ہے ،لیکن اِس میں بھی جِدال اور لڑائی جھگڑے کی نوبت نہیں آنی چاہئے ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
'' اور (اے مسلمانو!)اہلِ کتاب سے صرف عمدہ طریقے سے بحث کرو،(عنکبوت:46)‘‘ ۔مناظرے اور مکالمے کا مقصد فریقِ مخالف پر غلبہ پانے کی خواہش نہیں ہونی چاہئے ، کیونکہ اِس میں نفسانیت غالب آجاتی ہے ،بلکہ مُخَاطَب کو قائل (Convince)کرنے کی نتیجہ خیز کوشش ہونی چاہئے ۔اگر انداز جارحانہ ہوگا تو مُخَاطَب بھی ضد اور ہٹ دھرمی پہ اُتر آئے گا اور قبولِ حق سے محروم ہوجائے گا ،جبکہ مومن کی کامیابی فریقِ مخالف کو قبول حق پر آمادہ کرنے میں ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓسے فرمایا :'' اللہ کی قسم!اگرتمہارے ذریعے اللہ تعالیٰ ایک شخص کو بھی ہدایت دے دے ،تو یہ تمہارے لئے سُرخ اونٹوں (گراں قدردولت) سے بہترہے ، (صحیح بخاری:3701)‘‘۔
الغرض مناظرے اور مُجادلے میں فریقِ مخالف پر غلبہ پانا نہیںبلکہ ہدایت دینا مقصود ہونا چاہئے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نمرودسے مناظرے کو قرآن نے اِن کلمات میں بیان فرمایا: ''کیا آپ نے اُس شخص کو نہیں دیکھا ،جس نے ابراہیم سے اُن کے رب کے بارے میں اِس بات پر جھگڑا کیا کہ اُسے بادشاہت اللہ نے دی ہے ،جب ابراہیم نے کہا: میرارب وہ ہے جو زندہ کرتااور مارتاہے ،اُس نے کہا : میں زندہ کرتااور مارتاہوں ، ابراہیم نے کہا : بے شک اللہ سورج کو مشرق سے نکالتاہے، تو اِسے مغرب سے نکال ،توکافر حیرت زدہ ہوکر لاجواب ہوگیا ،(بقرہ:258)‘‘۔
چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقصد محض فتح پانا نہیں تھا بلکہ نمرود کے سارے پیروکاروں پر حقانیت کو واضح کرناتھا ،اِس لئے اُنہوں نے اِماتت (Mortification)اور قتل(Murder) کی علمی بحث نہیں کی کہ بظاہر قاتل تو کوئی فردہوتاہے لیکن زندگی عطاکرنا اور سلب کرنا صرف اور صرف اللہ کا اختیار ہے ،باقی ظاہری اَسباب ہیں۔لہٰذا آپ نے فوراًبحث کا رُخ بدلا اورایک ایسی مشاہداتی دلیل پیش کی کہ نمرود کے پاس نہ اُس کا کوئی رَد تھا اور نہ ہی گریز (Avoidance)کا کوئی راستہ ، لہٰذا قرآن نے بتایاکہ وہ حیرت زَدہ (Confounded) ہوکررہ گیا ۔
حکمتِ دین کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ بعض اوقات اَفضل واَولیٰ چیز کو اعلیٰ تر مقصد کے لئے یا سَدِّ ذرائع کے لئے چھوڑنا پڑتاہے۔ حدیثِ پاک میں ہے : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا :کیاحطیم(بیت اللہ کا وہ حصہ جسے عمارت میں شامل نہیں کیاجاسکا ) بیت اللہ کا حصہ ہے ؟،آپﷺ نے فرمایا: ہاں! ،میں نے پوچھا:پھرکیاوجہ ہے کہ لوگوں نے اس کو بیت اللہ میں داخل نہیں کیا ؟، آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری قوم کے پاس خرچ کم تھا ،میں نے پوچھا :پھراس کی کیاوجہ ہے کہ اس کا دروازہ اونچا ہے؟،آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری قوم نے یہ اس لئے کیاہے کہ جس کو چاہیں کعبہ میں داخل کریں اورجس کو چاہیں منع کردیں۔ اگر تمہاری قوم کا زمانۂ جاہلیت ابھی تازہ تازہ نہ ہوتااور اس کے دلوں کے بگڑ جانے کا اندیشہ نہ ہوتا تومیں حطیم کو بیت اللہ میں شامل کردیتا اور اُس کا دروازہ زمین سے متصل بناتا،(صحیح بخاری:1584)‘‘۔ایک اور حدیث میں ہے: ''میں اُس کے دو دروازے بناتا ‘‘۔ایک اور روایت میں ہے : '' میں پیچھے کی جانب بھی ایک دروازہ بناتا ‘‘۔
اِس کا پس منظر یہ ہے کہ اعلانِ نبوت سے پہلے بیت اللہ کی عمارت سیلاب کے نتیجے میں مخدوش ہوگئی تھی ،تو قریش نے بیت اللہ کی اَزسرِ نو تعمیر کے لئے عطیات جمع کئے اور یہ شرط لگائی کہ صرف حلال مال دیاجائے ،تو اتناحلال مال جمع نہ ہوسکاکہ بیت اللہ کی پوری حدود کو شامل کرکے تعمیرِ نو کریں ۔تو اُنہوں نے شمال کی جانب کچھ حصے کو عمارت سے خارج کردیا ،لیکن اُس کی نشاندہی کے لئے آج بھی ایک چھوٹی سی دیوار موجود ہے ،جسے حطیمِ کعبہ کہتے ہیں ۔اب ماشاء اللہ وسائل دستیاب تھے ،مکہ فتح ہوچکاتھا ،رسول اللہ ﷺ حجاز کے بلاشرکتِ غیرے حاکم تھے اور آپ کی خواہش بھی تھی ،لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ نے دین کی عظیم مصلحت کو ترجیح دیتے ہوئے بیت اللہ کی عمارت کو نہیں چھیڑا اور تعمیرِ نو نہیں کی کہ کہیں لوگوں کا ایمان مُتزلزل نہ ہوجائے کہ بیت اللہ پر کُدال یا ہتھوڑا(Hammer) کیسے چلایاجاسکتاہے ۔
اِسی طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمانوں اور قریشِ مکہ کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ،اُس موقع پر سُہیل بن عَمرو،جو بعد میں اسلام لائے ، قریشِ مکہ کے نمائندے تھے ۔رسول اللہ ﷺ نے معاہدے کی دستاویز لکھنے کے لئے حضرت علی کو بلایا اور فرمایا: ''بسم اللہ الرحمن الرحیم ‘‘ لکھو ۔سُہیل نے کہا : میں الرحمن الرحیم کو نہیں جانتا ،پس ''بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ ‘‘لکھیں ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''بِاسْمِکَ اللّٰہُمّ‘‘لکھو،پھر آپ ﷺ نے فرمایا : لکھویہ معاہدہ ''محمد رّسول اللہ ‘‘ اور قریش کے درمیان طے پایا ۔سُہیل نے کہا: اگرہم آپ کو رسول اللہ مانتے ،تو آپ کا راستہ نہ روکتے ،ہاں! آپ محمد بن عبداللہ ہیں ، آپ نے فرمایا: ''میں رسول اللہ ہوں اور میں محمد بن عبداللہ ہوں ،پھر حضرت علی ؓسے فرمایا : رسول اللہ کے الفاظ مٹادو ‘‘۔ حضرت علی ؓ نے عرض کیا : میری کیامجال کہ آپ کے نام سے رسول اللہ کے کلمات مٹادوں ،پھر حضور نے خود وہ الفاظ مٹائے ،(صحیح بخاری:2698)‘‘۔
اب آپ غور فرمایئے کہ رسول اللہ ﷺ کے نام سے ''رسول اللہ ‘‘کے کلمات کو مٹانا مسلمانوں کے لئے کتنا جذباتی مسئلہ تھا کہ آج بھی مسلمان ایسے مسائل پر مُشتعل ہوجاتے ہیں اور اُن کے لئے اپنے جذبات پر قابو پانا دشوار ہوتاہے ، مگر رسول اللہ ﷺ نے دین کی عظیم تر مصلحت کی خاطر صحابۂ کرام ؓ کے جذبات کو کنٹرول کیا اور یہ معجزانہ کارنامہ صرف اللہ کے رسول ہی سرانجام دے سکتے تھے ۔
بعض اوقات ہم کسی خلافِ اَولیٰ کام کے خلاف ڈٹ جاتے ہیںاور آپس میں لڑائی جھگڑ ے کی نوبت آجاتی ہے جیسے یہ حق وباطل کا معرکہ ہو اور اِس میں کسی کے لئے رخصت یا رُو رعایت کی گنجائش نہیں ہے ،حالانکہ حقیقت میں ایسانہیں ہوتا ۔چنانچہ امام احمد رضا قادری ؒ لکھتے ہیں :''ان امور میں قاعدہ کلیہ جسے ضروریادرکھناچاہئے یہ ہے کہ فرائض کی ادائیگی اور حرام کاموں سے بچنے کو مخلوق کی خوشنودی پر ترجیح دے اور ان امورمیں کسی کی ناراضگی کی پروا نہ کرے، دینی حکمت کے تحت مخلوق کی دلداری اور ان کے جذبات کومستحب کاموں پر ترجیح دے ، یعنی لوگوںکی دلداری کی خاطر افضل کاموں کو چھوڑا جاسکتا ہے اور دینی مصلحت کے تحت بعض اوقات ایسے کاموں کو جن کا کرنا محض افضل واَولیٰ ہے،یعنی فرض ،واجب یا سنّت نہیں ہے ، چھوڑا جا سکتا ہے ۔ دین کے مبلغ کو لوگوں کے درمیان نفرت پیداکرنے سے گریز کرنا چاہئے، وہ لوگوںکے لئے اذیت اور دل آزاری کاسبب نہ بنے۔ اسی طرح لوگوں میں جو رسمیں اور طریقے جاری ہیں ،اگر وہ شریعت کے خلاف نہیں ہیں اور نہ ہی ان میں کوئی شرعی عیب ہے ،تو محض اپنی بڑائی ظاہر کرنے اور اپنی پاکدامنی ثابت کرنے کے لئے عام لوگوں سے ہٹ کر کوئی شعار اختیار نہ کرے ،بلکہ لوگوں کے ساتھ ان رسوم میں شامل ہو۔اگر وہ لوگوں کی عام روش سے ہٹ کر کوئی الگ راستہ اپناتا ہے، تو یہ لوگوں کے دلوں کو دین کی طرف مائل کرنے کے مقصد خیر کے بالکل خلاف ہے ۔خبر دار رہو،اس بات کوخوب توجہ سے سنو! کہ یہ بہت خوبصورت باریک علمی نُکتہ اور حکمت کی بات ہے اور دین کے معاملے میں سلامتی اور وقار کا راستہ ہے ،جس سے بہت سے خشک مزاج زاہد اور باطنی کشف کا دعویٰ کرنے والے غافل اور ناواقف ہوتے ہیں،وہ بزعم خویش بڑے دین دار بنتے ہیں، لیکن درحقیقت وہ دین کی حکمت اورشریعت کے مقاصدسے بہت دور ہوتے ہیں ، اس حکمت ودانش کے اس پیغام کو مضبوطی سے پکڑیئے ، یہ چند سطریں ہیں ، مگر ان میں علم کا بڑا خزانہ ہے اور اللہ کی فضل ہی سے فہمِ دین کی ایسی توفیق نصیب ہوتی ہے ۔سب کو اسی طرف لوٹ کرجاناہے،(فتاویٰ رضویہ ،جلد4، ص:528 )‘‘۔آپ کی اصل عبارت الفاظ وتراکیب کے اعتبارسے نہایت دقیق اور مشکل ہے ، میں نے نسبتاً آسان الفاظ میں اُس کا مفہوم بیان کیاہے ۔