"MMC" (space) message & send to 7575

حرف مُدَّعا

الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے میری گزارشات پر مشتمل ایک کالم طبع ہوا تھا۔حیدرآباد سندھ سے ایک محب ومشفق سید منیر احمد صاحب کا اُس پر مفصّل تبصرہ ایک مؤقر روزنامہ میں شائع ہوا ہے ۔ میں نے الیکٹرانک میڈیا کے ذمے داران سے گزارش کی تھی کہ وہ پاکستان کی دینی ، ملّی ، تہذیبی اور سماجی اَقدار کے حوالے سے اَخلاقیات کا کوئی کم اَزکم معیار باہمی اتفاقِ رائے سے وضع کریں اور اسے رضا کارانہ طور پر اپنے اوپر نافذ کریں ۔حکومت سے بالخصوص اس شعبے میں اصلاحِ احوال کی توقع عَبث ہے۔ میڈیا کی مثال اب بے لگام منہ زور گھوڑے کی سی ہے جو نہ تو کسی ضابطے اور اَخلاقی حدود وقیود کا پابند ہے اور نہ ہی اس کی کوئی سَمت یا منزل واضح ہے، البتہ کبھی کبھی بعض مؤثر طبقات یا تنظیموں کا غیر سرکاری جبراور دباؤ مؤثر نظر آتاہے، لیکن اس کا تعلق دینی یا ملّی اقدار سے نہیں ، بلکہ ان کی کوریج سے ہوتاہے۔
سید منیر احمد صاحب نے لکھا ہے کہ آپ نے پرنٹ میڈیا کو دانستہ یا نادانستہ نظرانداز کردیا ہے،جبکہ اس دوڑ میں یہ بھی الیکٹرانک میڈیاسے کم نہیں ہے۔ اُن کی یہ بات سوفیصد درست ہے اور بالواسطہ سب ہی میرے مخاطَب تھے۔ لیکن اب ہم دن بدن اَخلاقی وتہذیبی اَقدار کے حوالے سے زوال کی طرف جارہے ہیں اور ہمارا یہ سفر نہایت تیز رفتاری سے جاری ہے اور کہیں اس کے رکنے کے آثار نظر نہیں آرہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
''بے شک جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ، اُن کے لئے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے،(النور:19)‘‘۔ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کا نام ونشان اسی اَخلاقی پستی کے سبب صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''سو جب ہمارا عذاب آپہنچا توہم نے ان کی بستی کو تہ وبالا کردیا اور ہم نے اُن پر پتھر کے کنگر لگاتا ر برسائے، جو آپ کے رب کے نزدیک (ہر مجرم کے لئے) نشان زدہ (Guided)تھے اور یہ سزا ان ظالموںسے کچھ دور نہ تھی،(ھود:82)‘‘۔ اُن کا یہی انجام سورۃ الحجرآیات: 74-75اور سورۃ الذّٰریات آیات: 33-34میں بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اُن کا جو جرم بیان فرمایا، وہ یہ ہے:''اور ہم نے لوط کو بھیجا، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا:بے شک تم بے حیائی کاکام کرتے ہو، جو تم سے پہلے جہان والوں میں سے کسی نے نہیں کیا اور تم ڈاکے ڈالتے ہو اور تم اپنی مجلسوں میں (کھلے عام) بے حیائی کاکام کرتے ہو،(العنکبوت:29)‘‘۔ اسی مضمون کو سورۃ الاعراف :80-81، الشعراء:164-165اور النمل:54-55میں بیان کیا گیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(1)ابنِ آدم پر زنا کا حصہ لکھ دیا گیا ہے ، جسے وہ لازمًا پائے گا۔ پس آنکھ کا زنادیکھنا ہے اور جب مرد کی نامحرم پر نظر پڑتی ہے، تو (نامحرم سے )رخ پھیر لینے سے (اس کی پاکبازی کی )تصد یق ہوتی ہے۔اور زبان کا زنا (شہوت انگیز) باتیں کرنا ہے اور دل میں (زنا کی) تحریک پیدا ہوتی ہے اور شرمگاہ (گناہ میں مبتلا ہوکر) کبھی اس کی تصدیق کرتی ہے اور کبھی (گناہ سے بچ کر) اس کی تکذیب کرتی ہے، یعنی پہلی صورت میں تصدیق مستحسن ہے اور دوسری میں مذموم ہے،(مسند احمد:8215)‘‘۔(2)جو شخص مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی (شریعت کے تابع رکھنے کی) ضمانت دے ، میں اسے جنت کی ضمانت دیتاہوں،(بخاری:6474)‘‘۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے اولین خطبۂ خلافت میںفرمایاتھا:''جس قوم میں بے حیائی فروغ پالے، اس پر بلیات یعنی آزمائشوں اور آفات کا نزول ہوتاہے‘‘۔ الغرض اسلام بندۂ مومن کو فواحِش ومُنکَرات سے بچانے کے لئے سدِّ ذرائع کو اختیار کرتاہے اورگناہ کے اسباب اورترغیبات کاراستہ روکتاہے، جن کو انسان پہلے پہل محض معمولی چیز سمجھ کر اختیار کرتاہے اور آخرکار گناہ میںمبتلا ہوجاتاہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''حلال واضح ہے اور حرام (بھی) واضح ہے اور ان دونوںکے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں ، جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ پس جو شخص مشتبہ چیزوں سے بچا اس نے اپنے دین اور آبرو کو بچالیا ۔ اور جو شخص شبہات میں ملوث ہوگیا ، وہ اس چرواہے کی طرح ہے، جو ممنوعہ چراگاہ کے گرد اپنے مویشی چرائے،خدشہ ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائیں گے۔ سنو!ہر بادشاہ کی ایک ممنوع چراگاہ ہوتی ہے، سنو! اس زمین میں اللہ کی ممنوع چراگاہ اس کے حرام قرار دئیے گئے احکام ہیں ، سنو! جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے ، جب وہ درست ہوتو پورا جسم درست ہوتاہے اور جب اس میں خرابی پیدا ہوتو پورا جسم فاسد ہوجاتاہے،سنو!وہ دل ہے،(بخاری:52)‘‘۔
اسی لئے فرمایا:کسی گناہ کو معمولی نہ سمجھو اور کسی نیکی کو بڑا نہ سمجھو، کیونکہ گناہ کومعمولی سمجھنے سے اس کے ارتکاب کا حوصلہ پیداہوتا اور نیکی کو بڑا سمجھنے سے انسان میں تقوے اور پارسائی کا زعم (گھمنڈ) پیدا ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشادہے:(1):''کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا ، جو اپنی پارسائی کادعویٰ کرتے ہیں، بلکہ اللہ ہی جس کو چاہے پاکیزہ بنادیتاہے،(النساء:49)‘‘۔(2):سو تم اپنی پارسائی کا دعویٰ نہ کرو، اللہ متقین کو خوب جانتاہے،(النجم:32)‘‘۔
پس ا نسان اللہ تعالیٰ کا عجب تخلیقی شاہکار ہے، جو متضاد صفات کا حامل ہے۔ انسان کی سرشت میں اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ ملکوتی صفات کاملکہ(Potential)بھی ودیعت فرمایا ہے اور اَدنیٰ اور رَذِیل خواہشات کے میلانات(Motives)بھی اس کی جبلت میں رکھے ہیںاور یہی وجہ ہے کہ اس کے ضمیر میں خیر وشر کی یہ کشمکش ہمیشہ جاری رہتی ہے ۔ اگر انسان کی ملکوتیت غالب آجائے، تو وہ رشک ملائک بن جاتاہے ، ایک حدیثِ پاک میں ہے :رسول اللہ ﷺ کا اپنے صحابہ کے ایک حلقے پر گزر ہوا، تو آپ ﷺ نے فرمایا:''تم (یہاں) کیوں بیٹھے ہو؟۔ اُنہوں نے عرض کی: ہم (یہاں) بیٹھ کر اللہ کا ذکر کررہے ہیں اور اس نے جو ہمیں دین کی ہدایت عطا فرمائی اور ہم پر احسان فرمایا:اس پر اس کی حمد بیان کرتے ہیں ۔ تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ کی قسم! کیا تم صرف اسی نیک مقصد کے لئے یہاں بیٹھے ہو؟، صحابہ نے عرض کی:جی ہاں!اللہ کی قسم ہم صرف اسی نیک مقصد کے لئے یہاں بیٹھے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا:''میں نے کسی بدگمانی کی بنا پر تمہیں قسم نہیں دی ، بلکہ میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور مجھے بتایا کہ اﷲعزّوجلّ ملائکہ کے سامنے تم پر فخرومباہات کااظہار فرما رہا ہے،(سنن نسائی:3441)‘‘۔
اور اگر انسان کی ملکوتی صلاحیت مغلوب ہوجائے اور شر کی تحریکات وترغیبات(Motives)غالب آجائیں ، تو پھر اس کا نفس''نفسِ امّارہ‘‘بن جاتاہے اور شیطنت کی راہ پر چل پڑتاہے۔ اللہ عزّوجلّ کا فرمان ہے:(1)''اور بے شک ہم نے جہنم کے لئے بہت سے ایسے جن اور انسان پیدا کئے، جن کے دل ہیں، مگروہ اُن سے(حق کی بابت) سوچتے سمجھتے نہیں اور اُن کی آنکھیں ہیں ، مگر وہ اُن سے (آیاتِ حق کو) دیکھتے نہیںاور ان کے کان ہیں ، مگر وہ ان سے (پیغامِ حق کو) سنتے نہیں، (درحقیقت) وہ جانور کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ، (الاعراف:179)‘‘۔(2):''بے شک ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا، پھرہم نے اس کو (اس کی سرکشی کے سبب) سب سے نچلے طبقے میں لوٹا دیا،(التین:4-5)‘‘۔
پس ہر ایک نے اپنے ایمان واعمال کا اپنے رب کے حضور جواب دینا ہے اور اس سے کسی کے لئے بچاؤ کا کوئی راستہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''ہر گز نہیں !اُس دن کہیں پناہ نہ ہوگی ، اُس دن آپ کے رب کی طرف ہی (سب کے) ٹھہرنے کی جگہ ہوگی ، اُس دن انسان کو اس کے تمام اگلے اور پچھلے کاموں کی خبر دی جائے گی،(القیامہ:11تا 13)‘‘۔بعض کی بداَعمالیوں کے اثرات ان کی ذات تک محدود رہتے ہیں اور بعض کے اثرات پورے معاشرے یا معاشرے کی غالب اکثریت کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اور آج کل میڈیا کی صورتِ حال یہی ہے کہ اُس کے خیروشر کے اثرات کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اس میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا ، انٹرنیٹ ، سوشل میڈیااور اس کے تمام شعبہ جات شامل ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں