16 دسمبر کے سانحۂ پشاور کے تتابُع (Follow Up) میں پارلیمانی جماعتوں کے اتفاقِ رائے سے ''قومی ایکشن پلان‘‘ تشکیل پایا اور اس کے نتیجے میں اکیسویں آئینی ترمیم منظور ہوئی۔ بعدازاں میڈیا کی کمین گاہوں میں ہمارے مہربانوں نے دینی مدارس کو موضوع بحث بنایا۔ ہم تو کہتے ہیں کہ جہاں مسئلہ ہے، ثبوت و شواہد کے ساتھ اس پر ہاتھ ڈالئے، کارروائی کیجئے، لیکن یہ کام دشوار ہے، مگر ''بیکار مباش، کچھ کیا کر‘‘ کے مصداق، جو لوگ آرام سے بیٹھے ہیں، کسی کے لئے بشمولِ ریاست کوئی مسئلہ نہیں پیدا کر رہے، ان کے بازو مروڑنے کی مشق کی جاتی ہے۔
مندرجہ ذیل سطور میں ہم ان کے تحفظات پر گفتگو کریں گے۔ ایک سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ مدرسے اور مسجدیں مسلک کے نام پر قائم ہیں۔ امریکہ میں بھی عیسائیوں کے سینکڑوں فرقے ہیں اور ہر ایک کی عبادت گاہیں الگ ہیں۔ یہودی اپنے بِیْعَہ اور کَنِیْسَہ (Temple)، مسیحی اپنے صَوْمِعَہ (Church)، مسلمان اپنی مساجد اور دیگر مذاہب کے ماننے والے اپنی عبادت گاہوں میں عبادات کرتے ہیں۔
ترکی میں ریاستی کنٹرول میں مساجد میں فقہِ حنفی کے مطابق عبادات ادا کی جاتی ہیں، مگر فقہِ جعفریہ کے ماننے والوں کی مساجد ریاستی کنٹرول سے آزاد ہیں۔ ہم استنبول کے علاقے زَیْنَبِیَّہ میں اہلِ تشیُّع کے ایک مرکز میں گئے، وہاں اربوں روپے کا پروجیکٹ زیرِ تعمیر تھا، اس میں تعلیمی ادارے، لائبریری، نشرواشاعت حتیٰ کہ پرائیویٹ ٹیلیویژن چینل کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ ہم نے اہلِ تشیُّع سے پوچھا کہ عمومی طور پر ملک میں مساجد حکومتی تحویل میں ہیں، آپ کو اتنا بڑا پروجیکٹ پرائیویٹ سیکٹر میں بنانے کی اجازت کیسے ملی، انہوں نے بتایاکہ زَیْنَبِیَّہ کے علاقے میں ہماری تقریباً 22 مساجد پرائیویٹ سیکٹر میں قائم ہیں۔ ہماری حکومت کے ساتھ ایک مفاہمت (Understanding) ہے کہ نہ ہم حکومت کے لئے مسئلہ پیدا کرتے ہیں اور نہ حکومت ہمیں بلاسبب چھیڑتی ہے۔
پس حکمرانی کی حکمت یہ ہونی چاہئے کہ جہاںکوئی مسئلہ ہے، جہاں درد یا ناسور ہے، اِدھر اُدھر ٹامک ٹوئیاں مارنے کی بجائے اگر حکومت میں ہمت ہے تو براہِ راست اس پر ہاتھ ڈالے۔ ہمارے ہاں اصل مسئلے کو جڑ سے اکھیڑنے کی بجائے اَطراف میں چھیڑ چھاڑ کو ترجیح دی جاتی ہے، جس سے اصل ناسور تو اپنی جگہ رہتا ہے؛ البتہ انتشار میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ ہمارے ہاں مذہبی شعبے میں اگر کوئی الجھن ہے، جو ریاست کے لئے مشکلات پیدا کر رہی ہے، تو وہ یہ ہے کہ دلیل و استدلال کی بجائے طاقت کے بَل پر اپنی بات کو منوایا جائے اور اسی سبب سے انتہا پسند مذہبی تنظیمیں وجود میں آئیں، ان کا نیٹ ورک مساجد و مدارس سے الگ ہے، یہ ممکن ہے کہ اُن کے زیرِ اثر مساجد یا مدارس ہوں۔ سچ یہ ہے کہ اس کے عوامل داخلی بھی ہیں اور خارجی بھی، حکومت کو چاہئے کہ ان برادر مسلم ممالک سے براہِ راست بات کرے اور اُن سے مطالبہ کرے کہ ہمارے ملک میں آپ اپنے زیرِ اثر مذہبی گروہ پیدا نہ کریں، یہ ایک جائز سفارتی مطالبہ ہو گا۔
ایران میں آج بھی قُم کا حوضۂ علمیہ ریاست کے کنٹرول میں نہیں ہے اور آزاد ماحول میں کام کر رہا ہے، زاہدان میں ایک بہت بڑا حنفی مدرسہ قائم ہے، جس کا نظریاتی تعلق پاکستان کے دیوبندی مسلک کے مدارس کے ساتھ قائم ہے، انقلاب کے باوجود ایران کی مذہبی انقلابی حکومت نے اس سیٹ اَپ کو نہیں چھیڑا۔ عراق میں بحیثیتِ مجموعی مساجد ریاست کے کنٹرول میں ہیں، لیکن نجفِ اشرف کے فقہِ جعفریہ کے مراکز آزاد ماحول میں کام کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں لوگ بعض مسلم ممالک کی مثالیں دیتے ہیں، جہاں سمندر کی بالائی سطح پر مسلکی امتیازات اور اِرتعاش نظر نہیں آتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست نے ایک مسلک اختیار کر رکھا ہے اور نہ صرف یہ کہ اسی کو کام کرنے کی آزادی ہے بلکہ ان کے بجٹ کا ایک حصہ بیرونی دنیا میں اپنے مسلکی نظریات کے حاملین کی سرپرستی پر خرچ ہو رہا ہے۔ لیکن پاکستان میں مذہب ریاستی کنٹرول میں نہیں اور ریاست کے لئے اسے چھیڑنا بھی آسان نہیں ہے۔ حکمت کا تقاضا ہے کہ ایک قابلِ قبول حکمتِ عملی وضع کی جائے کہ مساجد و مدارس اپنے اپنے مسلک کے مطابق اپنے اپنے دائرے میں کام کریں، مگر ریاست و حکومت کے لئے اور بحیثیتِ مجموعی معاشرے کے لئے مسائل پیدا نہ کریں۔
ایک تبصرہ یہ بھی سننے میں آیا کہ مذہب کے نام پر ایک معیشت وجود میں آچکی ہے، گویا اب یہ مفادات کے تحفظ کا مسئلہ ہے۔ ریاست کے متوازی تو ہمارے ہاں کئی معیشتیں کام کر رہی ہیں۔ بہت سے ماہرینِ معیشت کا دعویٰ ہے کہ ریاستی معیشت کے حُجم کے کم و بیش برابر ایک متوازی معیشت کام کر رہی ہے۔ یہ معیشت ہمارے قومی اقتصادی اشاریوں اور اعدادوشمار کا حصہ نہیں ہے۔ معترضین کو ہماری معیشت کے ایسے غیر سرکاری شعبے کیوں نظر نہیں آتے جہاں کالے دھن کی ریل پیل ہے اور وہ اپنے وسائل اور بے پناہ اثرو رسوخ کے ذریعے سیاست اور حکمرانی سمیت قومی زندگی کے اہم شعبوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور طرح طرح کے مافیا اس سے الگ ہیں۔ اس مادر پدر آزاد اور ریاستی کنٹرول سے ماورا معیشت کے ٹائیکون ہماری سیاست کے کھیل میں براہِ راست حصہ لیتے ہیں اور سیاست پر سرمایہ کاری بھی کرتے ہیں۔ آزاد الیکٹرانک میڈیا کی صورت میں اکیسویں صدی میں ایک نیا شعبہ وجود میں آیا ہے، جہاں پیسے کی ریل پیل کی داستانیں ناقابلِ یقین و بیان ہیں۔
ایک معیشت مغرب نواز NGOs کی ہے، جو 9/11 کے بعد خود رُو جھاڑیوں کی طرح اُگ آئیں اور کیری لوگر بل میں اُن کا مُعتَدبہ حصہ رکھا گیا، گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے اسلام آباد کے فائیو اسٹارز، فور اسٹارز اور تھری اسٹارز ہوٹلوں کی رونقیں انہی کے دم سے قائم ہیں، ان کے ذمے پاکستانیوں کو لبرل اور ماڈریٹ بنانے کا فریضہ ہے۔ یہ غیبی برکات کہاں سے آئیں اور کہاں صرف ہوئیں، یہ ریاست کے کنٹرول سے باہر ہیں۔ کرپشن کی معیشت کا ذکر تو زبانِ زدِ عام ہے۔
اس میں مدارس و مساجد ہی واحد شعبہ ہے، جہاں لوگ رضاکارانہ طور پر اپنے واجب اور نفلی صدقات و عطیات دیتے اور اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھتے ہیں۔ اس شعبے میں نہ کوئی دھونس ہے، نہ دھمکی ہے، نہ جبروجور ہے، نہ ہی منصب و عہدے کا ناروا استعمال ہے، بس حسنِ ظن اور باہمی اعتماد کا ایک رشتہ ہے، جس پر یہ ساری عمارت استوار ہے۔ ایک دانشور نے ٹیلیویژن پر کہا کہ دینی مدارس و مساجد کے مشاہرے کم ہیں، یہ درست ہے اور انہیں ریاست کی طرف سے مقررہ کم از کم معیار کے مطابق تو ہونا چاہئے، لیکن یہ وسائل کا مسئلہ بھی ہے؛ تاہم انتظامیہ کو بے حس نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن بعض پرائیویٹ اسکولوں کے مشاہرے تو مساجد اور دینی مدارس کے مقابلے میں بھی ہوشربا حد تک کم ہیں؛ تاہم کسی ایک کی غلطی یا غیر منصفانہ رویہ دوسرے کے لئے جواز نہیں بننا چاہئے۔ اسی طرح مدارس کو بھی اصلاح کے لئے ہمیشہ آمادہ رہنا چاہئے۔
ایک اعتراض یہ بھی آیا کہ مدارس کا نصاب فقہی اساس پر قائم ہے اور قرآن و سنت کی حیثیت ذیلی یا ثانوی رہ جاتی ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے، جب تک ہم اپنے خطے میں بند تھے، تو زمینی حقیقت اور تقاضے یہی تھے۔ اب دنیا سمٹ چکی ہے، اَسفار اور انفارمیشن کے ذرائع ناقابلِ یقین حد تک ترقی کر رہے ہیں، تو ہمیں بھی اپنی اساس پر قائم رہتے ہوئے اپنی سوچ میں کھلا پن پیدا کرنا ہوگا۔ میں تو اپنے اساتذہ سے کہتا ہوں کہ آپ قرآن و سنت کی فہم کے لئے صرف و نحو، لغت، ادب، معانی و بلاغت اور دیگر معاون علوم پڑھاتے ہیں، ان کو شروع ہی سے قرآن پر منطبق کریں اور طلبا و طالبات کو صیغوں (Tenses) کی تفہیم کے لئے بھی قرآن سے جوڑیں۔ یہ ہمارے بہت سے احباب کے علم میں نہیں ہے کہ اب ترجمۂ قرآن ہمارے ابتدائی نصاب کا حصہ ہے اور اسی طرح حدیث کی کتابیں ابتدائی درجات میں بھی شامل ہیں؛ تاہم قرآن و حدیث کو پوری گہرائی اور گیرائی کے ساتھ تفصیلاً پڑھانا اس دور کی ضرورت ہے، اس سے خود فکر میں وسعت پیدا ہوگی۔
باہمی اعتماد کے ساتھ مدارس کا مسئلہ حل کرنے کے لئے سیاسی عزم (Political Will) کی ضرورت ہے۔ ہمارا تقریباً دو عشروں پر محیط مذاکرات کا تجربہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت میں اس کا فقدان ہے، جب بھی ہمارے مسائل کسی حتمی حل کے قریب پہنچے تو بیوروکریسی نے اسے سبوتاژ کردیا اور سیاسی حکمران لاتعلق سے ہوکر رہ گئے۔ہماری بیوروکریسی کی ذہنی ساخت ہمیشہ یہ رہی کہ جس ادارے میں بیوروکریٹک کنٹرول نہ ہو، اسے قانونی حیثیت نہیں دی جاسکتی ۔سابق سیکریٹری مذہبی امورجناب وکیل احمد خان کے ہمراہ ''اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان‘‘ کے قائدین نے حکومتِ برطانیہ کی دعوت پر ایک مطالعاتی دورہ کیا ، وہاں ہمیں بتایا گیا کہ حکومت کا کام ریگولیٹر کا ہے ، مقررہ معیارات کے مطابق پرائیویٹ سیکٹر میں بھی تعلیمی بورڈ قائم ہوسکتا ہے۔