17فروری کو منصورہ لاہور میں تحفظِ ناموسِ رسالت مآب ﷺ کے مسئلے پر غورکرنے کے لئے امیر جماعتِ اسلامی پاکستان جناب سراج الحق نے ایک کل جماعتی کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے لئے دعوت نامے جاری کئے ہیں۔یہ بلاشبہ ایک مستحسن اقدام ہے ،لیکن لازم ہے کہ یہ مجلس محض جذباتی تقریروں پر مشتمل نہ ہو اوراس کا اختتام''نشستند وگفتند وبرخاستند‘‘ اورایک متفقہ اعلامیہ کے اجرا پر ہی نہ ہو بلکہ سب سرجوڑ کر بیٹھیں اورایک منظم ومربوط حکمتِ عملی ترتیب دیں اوراس کے Follow upاوراس پر عملدرآمد کا بھی کوئی انتظام ہو،یقینا اس کے لئے مالی وسائل بھی درکار ہوں گے ۔عام مسلمان خواہ عربی ہو یا عجمی ،سیاہ فام ہویا سفید فام ، شرقی ہو یا غربی،کا توایمان یہ ہے کہ بقول مولانا ظفرعلی خان ؎
زکوٰۃ اچھی‘ حج اچھا ‘ روزہ اچھا اور نماز اچھی
مگر میں باوجود ان کے مسلماں ہو نہیں سکتا
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجۂ یثرب کی حرمت پر
خدا شاہد ہے‘ کامل مرا ایماں ہو نہیں سکتا
مغربی دنیا میں وقفے وقفے سے توہینِ رسالت مآب ﷺ کے واقعات رونماہوتے رہتے ہیں۔ان واقعات سے اُمّتِ مسلمہ کوروحانی اذیت پہنچتی ہے اوراُن کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔یہ محض اتفاق نہیں ہے ،بلکہ دیدہ ودانستہ طورپر اسلام اورمسلمانوں کے خلاف اُن کے خُبثِ باطن اورنفرت کا اظہار ہے۔وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے لئے اس مسئلے میں اپنے جذبات پر قابو پانا مشکل ہے ۔اوراب تومسیحیوں کے سب سے بڑے فرقے کیتھولک کے روحانی پیشوا پوپ فرانسِس(Francis) نے بھی کہاہے :''آپ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ آپ دوسروں کی توہین کریں، آپ دوسروں کے عقائد کا مذاق نہیں اُڑا سکتے‘‘۔ پوپ فرانسِس فلپائن کے دورے پر تھے، انہوں نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے اپنے دورے کے منتظم البرٹو گاسپری کا بطورِ مثال ذکر کرتے ہوئے کہا : اگر وہ میری ماں کو لعنت کرے گا یعنی گالی دے گا ،تو اُسے جواب میں مکّے (Punch)کے لئے تیار رہناچاہئے۔انہوں نے مزید کہا کہ''اظہارِ رائے کی آزادی‘‘ کی بھی حدود ہوتی ہیں‘‘۔ان کی تفصیلی گفتگو انگلینڈ کے گارجین اخبار میں موجود ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ اگر تم دوسرے پر تعدّی(To Overreach) کرو گے اور دوسرے کی توہین کرو گے ، تو یہ فطرت کا تقاضا ہے کہ ردِّعمل اُس کا حق ہے۔پس لازم ہے کہ پریس کی آزادی اور اظہارِ رائے کی آزادی کی حدود اور دائرۂ کار کو عالمی برادری ازسرِ نو متعیّن (Redefine)کرے ، کیونکہ کسی ایک فرد یا افراد کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ اپنے کسی قول یا فعل (Action)سے دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو ایمانی ، اعتقادی اور روحانی اذیت واَعذار میں مبتلاء کردیں۔ اگر ایک یا چند افراد کو جسمانی اذیت پہنچانا دہشت گردی ہے ، تو کہا جاسکتا ہے کہ بیک وقت ڈیڑھ ارب انسانوں کو ذہنی اذیت میں مبتلاء کرنا دنیا کی سب سے بڑی دہشت گردی ہے اور اس کے لئے عالمی سطح پر قانون سازی اَزحد ضروری ہے۔
امریکہ اوراہلِ مغرب اس مذموم حرکت کوپریس کی آزادی(Freedom of Press)اور اظہارِ رائے کی آزادی (Freedom of Expression)کے دلکش عنوانات کے تحت تحفظ دیتے ہیں ۔صدر ِامریکہ نے ہماری اشک شوئی کے لئے یہ تو کہہ دیا کہ ہمیں اس پر افسوس ہے اورہم اس کی مذمت کرتے ہیں،لیکن اسی لمحے اُنہوں نے فرانس کے واقعے کی بھی مذمت کی ۔ اس معاملے پر پیش رفت یہ ہوئی کہ یورپ کے بیش تراور بطورِ خاص سرکردہ یورپی ممالک کے حکمرانوں نے پیرس میں فرنٹ لائن میں شانہ بشانہ کھڑے ہوکر ایک بڑی ریلی میں شرکت کی اور یہ ایک طرح سے گستاخانِ رسالت کے ساتھ اظہارِ یکجہتی تھا ۔اس کے برعکس امتِ مسلمہ کی صورتِ حال یہ ہے کہ عوام تو احتجاج کے لئے بے اختیار سڑکوں پر نکل آتے ہیں ، ریلیاں نکالتے ہیں اوربعض اوقات ان میں ناخوشگوار واقعات بھی رونما ہوجاتے ہیں،لیکن مسلم حکمرانوں کی طرف سے اس حسّاس مسئلے پر کبھی بھی اجتماعی طورپر دینی وملّی حمیّت کا مظاہرہ نہیں کیاگیا اورامّتِ مسلمہ کے لئے اس بے حسّی کا رنج اغیار کی سنگ دلی سے بھی زیادہ ہے،بقول شاعر ؎
تکلیف کم وبیش پہنچتی ہے سبھی سے
اپنوں سے جو پہنچے تو گزرتی ہے گراں اور
ہماری پارلیمنٹ نے بھی قراردادِ مذمّت تو پاس کردی اورمعزز ارکان نے مذمّت پر مبنی تقاریر بھی کیں ، لیکن منظّم سفارتی پیش رفت کی منصوبہ بندی نظر نہیں آئی۔
عام مسلمانوں کے احتجاجی جلسوں ،جلوسوں اورریلیوں سے اُن کے جذبات کا اظہار تو یقینا ہوجاتاہے ،لیکن تاحال اس کے مُثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے ۔انسانی تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ ہردور میں جو سلطنتیں، تہذیبیں اورسماج مادّی لحاظ سے غالب رہے ہیں،اُنہوں نے اپنا یہ استحقاق سمجھا کہ انہی کی اَقدار کو غلبہ حاصل رہے گا اورمادّی اعتبار سے کمزور اورزیرِ دست اقوام اورتہذیبوں پر اُن کے تَفوُّق اور بالا دستی (Supremacy)کو تسلیم کرنا لازم ہے ، ان کی دادوفریاد اوراحتجاج کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔اور تو اور برطانیہ کی اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس نے تازہ احکام جاری کرکے احتجاج اورریلیوں کے امکانات کو محدود کردیاہے ،انہوں نے قراردیاہے کہ جلوس اورریلی کے منتظمین کو سیکورٹی کے اخراجات اداکرنے ہوں گے اورٹریفک کی روانی میں خَلل نہ پڑنے کی بھی ضمانت دینی ہوگی۔
لہٰذا اب لازم ہے کہ مسلمانوں کے اہلِ علم ،اہلِ فکر ونظر ،قانونِ بین الاقوام کے ماہرین ،سابق ماہر سفارت کار اوراہلِ ثروت مل کر ایک حکمتِ عملی ترتیب دیںاورعالمی سطح پر مختلف فورموں پر یہ مسئلہ اٹھائیں ۔اس میں اُن کی مجالس مفکرین (Think Tanks)،عالمی شہرت کے حامل مذہبی سربراہان ،ماہرین آئین وقانون ، موجودہ اورسابق حکمرانوں ،سفارت کاروں اور ذہن ساز طبقات (Opinion Makers)کے ساتھ مل کر مشترکہ حکمتِ عملی ترتیب دیں۔ماضی میں امریکہ کی ویت نام کی مُسلط کردہ ظالمانہ جنگ کے خلاف عالمی رائے عامہ ہموار کرنے اورسفارتی دباؤ ڈالنے کے لئے لارڈبرٹرینڈرسل نے عالمی ماہرین ِ آئین وقانون کی غیر سرکاری عدالت لندن میں قائم کی، اس میں امریکہ کا ٹرائل کیا اور امریکا کوجنگی جرائم کا مرتکب قراردیاگیا ،اس ساری تگ وتاز کا فوری قانونی نتیجہ توبرآمد ہونا نہیں تھا،لیکن اس سے اخلاقی دباؤ زبردست پڑا اورخود امریکا میںویت نام کی جنگ کے خلاف زبردست تحریک چلی اوربالآخر امریکہ کو اس جنگ کی بساط خائب وخاسر ہوکر لپیٹنی پڑی۔
اس امر پر بھی غو رکرنے کی ضرورت ہے کہ آیا اسلامی کانفرنس کی تنظیم او آئی سی یعنی مسلم حکمرانوں کو بھی متحرک کیاجاسکتا ہے اور وہ سفارتی اور اقتصادی میدان میں کوئی مؤثر کردار اداکرسکتے ہیں،اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو اس کی حکمتِ عملی اورطریقۂ کار (Mechanism)کیاہونا چاہئے ۔کیا یہ ممکن ہے کہ تمام مسلم حکمران لندن یا نیو یارک میں شانہ بشانہ کھڑے ہوکر ایک ریلی کی قیادت کریں اور اس کے بعد اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کا خصوصی اجلاس طلب کرنے کے لئے ایک اجتماعی قرارداد جمع کریں۔ امریکہ کے صدر باراک حسین اوباما نے مسلمانوں سے روابط کے لئے اپنا ایک خصوصی سفارتی نمائندہ (Special Envoy)مقرر کررکھا ہے، اس کے ذریعے واشنگٹن میں مسلم سفارت کار صدرِ امریکہ سے ایک خصوصی ملاقات کا اہتمام کریں ۔
حال ہی میں اسرائیل کے حوالے سے صدرِ امریکہ پر دباؤ ڈالنے کے لئے امریکی سینٹ کے چیئرمین نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو امریکی کانگریس کے خصوصی اجلاس سے خطاب کی دعوت دی ہے اور انہوں نے یہ دعوت قبول کرلی ہے۔ اگر چہ صدرِ امریکہ نے کہا ہے کہ میں صرف اُس صورت میں بنجمن نیتن یاہو کا استقبال کروں گا جبکہ وہ اُن کی دعوت پر واشنگٹن آئیں، لیکن اس سے امریکی حکمراں طبقے کی نظر میں اسرائیل کی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے۔
مسلمانوں کے لئے سوچنے کا مقام ہے کہ چند ملین یہودی تو عالمی قوّتوں کے لئے اپنے آپ کو ناگزیر بنادیںاور انہیں نظرانداز کرنا امریکہ اور اہلِ مغرب کے لئے ممکن نہ رہے، یعنی وہ اِسے Affordنہ کرسکتے ہوں ، صدرِ امریکہ کے لئے یہودیوں کو ناراض کرکے اقتدار میں رہنا عملاً ناممکن ہوجائے، ہولوکاسٹ کی حقیقت کو چیلنج کرنے والے کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑے، تو کیا ڈیڑھ ارب مسلمان اتنے بے توقیر ہیں کہ اُن کی کوئی اہمیت نہیں، وہ گردِ راہ ہیں، اُفتادۂ خاک ہیں کہ جو چاہے انہیں کُچل دے، مسل دے اور روند ڈالے، کیا یہ اُمّت جو ایک وقت میں دنیا کی واحد سپرپاور تھی ، کوئی سوچ سکتا تھا کہ اتنی پستی بھی اُس کا مقدر بنے گی؟۔ علامہ اقبال نے اسلام کا مرثیہ ان الفاظ میں منظوم کیا ہے ؎
میں اگر سوختہ ساماں ہوں، تو یہ رُوزِ سیاہ
خود دکھایا ہے مرے گھر کے چراغاں نے مجھے
کوئی کافر مری تذلیل نہ کر سکتا تھا
مرحمت کی ہے یہ سوغات مسلماں نے مجھے
اور آخر میں بارگاہِ رسالت میں یہی استغاثہ ہے ؎
اے خاصۂ خاصانِ رُسل وقتِ دعا ہے
اُمت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے!