معروف سکالر علامہ جاوید احمد غامدی نے ''اسلام اور ریاست : ایک جوابی بیانیہ‘‘کے عنوان کے تحت ایک مؤقر روزنامے میں کالم لکھا۔ میں ان دنوں بیرونِ ملک تھا، معلوم ہوا کہ ایک سے زائد اصحابِ علم نے اُس پر اپنے تحفظات و ملاحظات پیش کئے اور دلائل سے اُس کا رَد کیا۔ یہ تو مجھے معلوم نہیں کہ علامہ غامدی صاحب نے کون سے بیانیے (Narrative)کا جوابی بیانیہ پیش فرمایا ہے۔ ہوسکتاہے کہ پاکستان کے دستوری میثاق میں اسلام اور قرآن وسنت کے ساتھ جوتمسّک اور اِعتصام (Conviction and Commitment)کا عزم (Resolve)ظاہر کیا گیا ہے، اُسے انہوں نے ریاستِ پاکستان کا بیانیہ قرار دے کراپنا جوابی بیانیہ پیش کیا ہو۔
اس کے بعد انہوںنے 21فروری کو'' ریاست اور حکومت ‘‘کے نام سے ایک اور کالم لکھا اور شاید اپنے سابق کالم پر مختلف زاویوں سے وارد ہونے والے اعتراضات کا جواب پیش کیا ہو۔ تمام تر احترام کے باوجود گزارش ہے کہ یہ کافی حد تک مغالطہ آرائی اور تعبیر کی غلط تشریح (Misinterpretation)پر مبنی ہے، اسے عربی میں : ''تعبیرُ بما لا یَرضیٰ بہ القائل‘‘کہا جاتاہے ،یعنی کسی کے قول کی ایسی تعبیر کرنا جو قائل کی فکر کے خلاف ہو۔اس کی چند مثالیں حسبِ ذیل ہیں:
علامہ صاحب لکھتے ہیں:''ایک جزیرہ نمائے عرب کی ریاست جس کی حدود خود خالقِ کائنات نے متعین کرکے اس کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے۔ چنانچہ اُسی کے حکم اُس کی دعوت اور عبادت کا عالمی مرکزاُس میں قائم کیا گیا اور ساتویں صدی عیسوی میں آخری رسول کی وساطت سے اعلان کردیا گیا کہ 'لا یجتمع فیھا دینا‘ ''اب قیامت تک کوئی غیرمسلم اِس کا شہری نہیں بن سکتا‘‘۔ یہ موقف ہم نے آج تک کسی صاحبِ علم کی نہ تحریر میں پڑھا اور نہ تقریر میں سناکہ خالق ارض وسما نے پورے روئے زمین میں سے ایک ''خطۂ حجاز ‘‘ کو اپنے لئے متعین کرلیا ہو اور باقی کو اپنی عملداری سے آزاد کردیاہو۔ قرآن تو جابجا فرماتا ہے: (1): ''آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ بھی ہے، وہ اللہ ہی کی ملکیت ہے، (البقرہ:284)‘‘۔اور وہ فرماتا ہے: (2):''حکم تو بس اللہ ہی کا چلے گا، وہ حق بیان فرماتا ہے اور وہ(حق وباطل کے درمیان) بہترین فیصلہ فرمانے والا ہے، (الانعام:57)‘‘۔ (3): ''سنو! حکم صرف اُسی کا چلے گا اور وہ سب سے جلد حساب لینے والا ہے،(الانعام:62)‘‘۔اسی موضوع کو سورۂ یوسف میں ایک سے زائد بار بیان کیا گیا۔ اگر علامہ غامدی صاحب کے بقول اﷲتعالیٰ نے اپنی تشریع عملداری کے لئے سرزمینِ حجاز پر ہی قناعت فرما لی، تو باقی سے محاسَبہ کس بات کاہوگا؟۔
ہماری رائے میں علامہ صاحب قائدِ اعظم کی تقاریر اور بیانات کی بھی اپنے زاویۂ نظر سے تشریح فرما رہے ہیں۔ قائدِ اعظم کا بیانیہ اس کا ساتھ نہیں دیتا۔ انہوں نے قائدِ اعظم کی تقریر کے یہ اقتباسات نقل کئے ہیں:''اب آپ آزاد ہیں ، اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں ، آپ مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں ۔ آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو، کاروبارریاست کا اس سے کوئی واسطہ نہیں... ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ ابتدا کررہے ہیں کہ ہم سب شہری ہیں اور ایک مملکت کے یکساں شہری ہیں۔ انگلستان کے باشندوں کو وقت کے ساتھ ساتھ آنے والے حقائق کا احساس کرنا پڑااوراُن ذمہ داریوں اوراُس بارگراں سے سبک دوش ہونا پڑا جو اُن کی حکومت نے اُن پر ڈال دیا تھا اور وہ آگ کے اُس مرحلے سے بتدریج گزر گئے۔ آپ بجاطور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب وہاں رومن کیتھولک ہیں نہ پروٹسٹنٹ ۔ اب جو چیز موجود ہے، وہ یہ کہ ہر فرد ایک شہری ہے اور سب برطانیہ عظمیٰ کے یکساںشہری ہیں ۔ سب کے سب ایک ہی مملکت کے شہری ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اسِ بات کو ایک نصب العین کے طور پر اپنے پیشِ نظر رکھنا چاہئے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو ہندو رہے گا ، نہ مسلمان مسلمان۔ مذہبی اعتبار سے نہیں، کیوں کہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی اعتبار سے اور ایک مملکت کے شہری کی حیثیت سے، (قائدِاعظم: تقاریر و بیانات: 3594)‘‘۔
علامہ غامدی صاحب نے تقاریر وبیانات کا عنوان اس لئے قائم کیا ہے کہ متفرقات کو انہوں نے ایک جگہ جمع کردیا ہے اور اس سے وہ نتیجہ اخذ کرنا چاہتے ہیں کہ ریاست سیکولر ہے، لامذہب ہے اور وہ دین میں فریق نہیں ہے۔ ہماری رائے میں قائدِ اعظم کے افکار کی یہ تعبیرد رست نہیں ہے، قائدِاعظم کے افکارِ عالیہ کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان یعنی اسلامی ریاست میں کسی غیرمسلم کو ترکِ مذہب پر مجبور نہیں کیا جائے گا، نہ ہی اُسے جبراً اسلام میں داخل کیا جائے گا، اُسے اپنے مذہب کے مطابق اپنی عبادت گاہ میں عبادت کی آزادی ہوگی ، شہری حقوق کے اعتبار سے اس کو جان ومال اور آبرو کے تحفظ میں مساوی حقوق حاصل ہوں گے، اُسے مسلمانوں کی طرح معاش، کاروباراور تجارت کی آزادی ہوگی، جوقوانینِ عامّہ (Common Laws) مسلمانوں پر عائد ہوتے ہیں، وہ اُن پر بھی عائد ہوں گے اوران کے بھی حقوق وفرائض ہوں گے، اسی کو برابر کے شہری یا شہری حقوق سے تعبیر کیا جاتاہے۔
ہماری دعا اور تمنا ہے کہ پاکستان میں نہ صرف مسلمان بلکہ غیرمسلم بھی مکمل عافیت ، سلامتی اور امان میں رہیں، یہی ہمارے دستور کا بھی تقاضا ہے۔ اِکّا دُکّا جو ناخوشگوار واقعات وقتاً فوقتاً ہوجاتے ہیں، اِ ن پر ہمیں شدید افسوس ہے، یہ ہمارے نظام کی کمزوری ہے، اس طرح کے ناخوشگوار واقعات مسلمانوں کے ساتھ بھی ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن کیا بھارت میں بابری مسجد کو نہیں گرایا گیا، مسلمانوں کے خلاف انسانیت کش فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوتے رہے ہیں ، برطانیہ میں مسلمانوں اور مساجد پر حملے نہیں ہوتے، کیا امریکہ میں مساجد کو آگ لگانے کے واقعات نہیں ہوتے ، مسلمانوں سے نفرت کے شواہد نہیں ملتے؟۔ لیکن اِن واقعات کی بنا پر کوئی نہیں کہتا کہ امریکہ یا برطانیہ سیکولر ملک نہیں رہے، وہا ں اب مذہبی اَشرافیہ کا غلبہ ہوگیا ہے اور اب وہاں جمہوریت نہیں بلکہ Theocracyہے،ہرجگہ ایسے واقعات کو نظام کی کمزوری یا ناکامی سے تعبیر کیا جاتاہے، ریاست اور اس کی نظریاتی اَساس کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاتا ، لیکن ہمارے ہاں اس طرح کے ناخوشگوار واقعات کو نظام کی ناکامی قرار دینے کے بجائے فوراً ریاست اور اس کے نظریۂ اسلام کو ہدفِ ملامت بنایا جاتاہے، یہی اصل تضاد ہے۔
علامہ غامدی صاحب ایک طرف تو ریاست کو لامذہب قرار دیتے ہیں، مگر پھر لکھتے ہیں:''اب دوسری ہی باقی ہے، جس کا لازمی نتیجہ اکثریت کی حکومت ہے۔ یہ اکثریت اگر مسلمانوں کی ہے اور اس کی بنیاد پر انہیں کسی ریاست میں اقتدار حاصل ہوجاتاہے ،تواُن کا جمہوری اور انسانی حق ہے کہ اُن کے دین نے اگر کوئی حکم اجتماعی زندگی سے متعلق دیا ہے تو وہ خود بھی اُس پر عمل پیرا ہوں اور اُس کے ماننے والوں کے تمام معاملات کا فیصلہ بھی اُسی شریعت کے مطابق کریں جو اُنکے پروردگار نے اپنے آخری پیغمبر کی وساطت سے نازل فرمائی ہے۔ قائدِاعظم جب پاکستان کے حوالے سے اسلام ، اسلامی تہذیب اور اسلامی شریعت کا ذکر کرتے ہیں تو اُن کی مراد بھی یہی ہوتی ہے‘‘۔
ہم یہی کہتے ہیں کہ پاکستان میں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے ، اس لئے انہوں نے قرآن وسنت کی ہدایات کے مطابق اپنے آپ کو اپنے دستوری میثاق میں اسلامی احکام کے نفاذ کا ذمے دار قرار دیا ہے، قرآن وسنت میں بہت سے ایسے اجتماعی احکام ہیں، جو اپنی تنفیذ(Implementation)کے لئے نظمِ اجتماعی اور قوتِ نافذہ جسے ہمارے ہاں اسٹیبلشمنٹ، مُقتدِرہ یا ایگزیکٹو کہا جاتاہے‘ کے متقاضی ہیں۔ یہاں ہم جگہ کی قلت کے سبب ان احکام کی تفصیلات بیان نہیں کررہے، لیکن ہر مسلمان اس سے بخوبی واقف ہے۔
آکسفورڈ ڈکشنری میں ریاست اور مَملکت کی تعریف یہ کی گئی ہے:''قوم یا خطۂ ارضی(یعنی جو معینہ سرحدات کے اندر واقع ہو) جو ایک منظم سماج ہواور ایک حکومت کے تحت ہو‘‘۔قرآنِ مجید نے اِسے سورۂ یوسف:21، سورۂ کہف:84، سورۂ اعراف:10اور سورۂ حج:41اور دیگر مقامات پر ''تَمَکُّنْ فِی الْاَرْض‘‘ یعنی کسی معینہ خطۂ زمین میں تحکّم اور اقتدار سے تعبیر فرمایا ہے ، جس کے معنی یہ ہیں کہ کسی معینہ خطۂ زمین کے بغیر ریاست متصور نہیں ہوسکتی۔ ریاست تو اپنی جگہ ایک وجودِ قانونی (Legal Entity)کا نام ہے، یہ قانونی وجود جامد اور ساکت ہوتاہے اور یہ اُس ہیئتِ مقتدرہ (Establishment) کے ذریعے بولتا ہے، جو اس پر حاکم ہے، اس کے تحفظ اور مفادات کی ضامن ہے ۔ اور اگر وہ ہیئتِ مقتدرہ مسلمانوں کی کل اکثریت یا غالب اکثریت پر مشتمل ہے، تو وہ اسلامی ریاست ہے، مسلمان اس بات کا مکلف ہے کہ وہ اسلام اور قرآن وسنت کا ترجمان بنے، وہ اللہ کی طرف سے اس کے نفاذ کا مسئول (جوابدہ) اور امین ہے۔اسی لئے اللہ عزّوجلّ نے سورۂ مائدہ کی تین آیات میں فرمایا:''اور جو اللہ کے نازل کردہ احکام پر فیصلے نہ کریں، وہ فاسق ہیں ، ظالم ہیں اور کافر ہیں‘‘۔ یہاں صرف اَحکامِ قرآنی پر عمل کرنے کامطالبہ نہیں ہے کہ کہا جائے ہر شخص انفرادی حیثیت میں اللہ کو جوابدہ ہے، بلکہ یہاں تحکیم اور فیصلہ کرنے کا مطالبہ ہے اور یہ فریضہ صرف نظمِ اجتماعی ہی انجام دے سکتا ہے اور ہمارے نزدیک ریاست کے اسلامی ہونے کے معنی یہی ہیں۔علامہ غامدی صاحب نے اپنی فکر سے ہمارے اختلاف کو ''تجاہلِ عارفانہ‘‘ یا ''سخن ناشناسی‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اپنے کالم کے اختتام پر وہ ہم جیسے کم فہم لوگوں پر پھبتی کستے ہیں : ع ''سخن شناس نہ ای ، دلبراخطاایں جاست‘‘۔