کالم کا عنوان فارسی زبان کا ایک مقولہ ہے، جس کا معنی ہے:''ایک بلائے ناگہانی نازل ہوچکی تھی، لیکن اللہ کے کرم سے خیر سے گزر گئی‘‘۔ یہ بلا سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کی تھی، کافی حد تک یہ بلاٹل گئی، اگر چہ مکمل طور پر نہیں ، کیونکہ اندرونِ خانہ سیاسی اُمور سے آگہی رکھنے والوں کا دعویٰ ہے کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہواہے۔ سب سے زیادہ دباؤ جناب عمران خان پر تھا،چنانچہ وہ خود میدان میں اترے اور صوبائی اسمبلی کی تحلیل کی دھمکی دے دی۔ اس کے بعد وزیر اعلیٰ خیبرپختونخواجناب پرویزخٹک متحرک ہوئے اور عزتِ سادات بچ گئی۔ البتہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو اپنے شاہانہ مزاج اور شانِ بے اعتنائی پر بلوچستان میں جھٹکا لگا اور اب پنجاب میں بھی کھٹکا لگا ہوا ہے کہ منحرفین کون تھے۔تاہم یہ درست ہے کہ سیم وزَر کی چمک کو بڑے پیمانے پر ہاتھ دکھا نے کا موقع نہ مل سکا۔
جناب عمران خان نے اپنی اس کامیابی پر بے انتہافرحت و انبساط کا اظہار کیا، انہوں نے اور جناب سراج الحق نے قرار دیا کہ اراکینِ اسمبلی نے اپنے ''ضمیر‘‘ کے مطابق ووٹ دیا ہے۔ اس پر مجھے وہ لمحہ یاد آگیا جب 2002ء میں جناب میر ظفراللہ خان جمالی ایک ووٹ کی اکثریت سے وزارتِ عظمیٰ کا انتخاب جیت گئے، توارکانِ اسمبلی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ ارکان نے اپنے ''ضمیر‘‘ کے مطابق ووٹ دیا ہے۔ اس پر مولانا فضل الرحمن نے پھبتی کسی اور کہا کہ میجر جنرل (احتشام)نے ضمیرکی ہدایت کے مطابق ووٹ دئیے ہیں ، کیونکہ ان انتخابات کو ''نتیجہ خیز‘‘ بنانے کی ذمے داری ان پر تھی۔ان کی ذمے داری یہ تھی کہ قابلِ انتخاب (Electables) پرندوںکو چن چن کر ق لیگ کے ڈربے میں بند کریں، آخر میں جب مطلوبہ تعداد میں بیس کی کمی رہ گئی، تو اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے پیپلز پارٹی کی لاٹ سے تھوک میں خرید لئے۔ اس لئے اس موقع پر بھی کہا جاسکتا ہے کہ ضمیر نہیں بلکہ حکمِ امیر کے مطابق ووٹ دئیے ہیں ۔
سو خفیہ رائے شماری اور ضمیر کی آواز بھی ایک مُعَمّہ اور چیستان ہے۔ اگر ضمیر کے مطابق ووٹ دینے کی آزادی ہوتی تو جناب عمران خان کو یہ مطالبہ نہ کرنا پڑتا کہ شو آف ہینڈز یعنی دست نمائی کے ذریعے ووٹنگ کرائی جائے۔ لیکن چونکہ ارکان کے ضمیر کے فیصلے پر اعتماد مشکل تھا اور پھر اس کے لئے انہیں لاٹھی (Stick) اور جناب پرویز خٹک کو گاجر(Carrot)کا انتظام کرنا پڑا۔ سو اگر ہماری جمہوری اخلاقیات میں اپنی جماعت کے سربراہ کے حکم یا اشارۂ اَبرو پر ہی ووٹ دینا ضمیر کی آواز ہے، امانت ودیانت کا مظہر ہے اور ہماری سیاسی اخلاقیات کا معیار بھی یہی ہے، تو پھرزیادہ آسان بات یہ ہے کہ خفیہ رائے دہی یا دست نمائی کی بجائے ہر سیاسی پارٹی کو ارکان کے تناسب سے سینیٹ کی نشستیں الاٹ کردی جائیں ، کیونکہ سینیٹ کے امیدوار چننے میں ارکان کا کوئی عمل دخل یا اختیار نہیں ہے ، یہ سو فیصد پارٹی سربراہ کی صوابدید یا حُسنِ انتخاب پر منحصر ہے۔
تھوڑی دیر کے لئے فرض کر لیں کہ ارکانِ اسمبلی دیانت و امانت کے اعلیٰ معیار پر فائز ہیں ، سیم وزَر کی چمک دمک سے بے نیاز ہوچکے ہیں ، انہیں ہر آن اپنی عاقبت کی فکررہتی ہے، اُن کے ضمیر کو کوئی دولت کے انبار سے بھی خریدنے کا تصور نہیں کرسکتا، وہ اپنے آپ کو صرف اﷲتعالیٰ اور عوام کے سامنے جوابدہ سمجھ کر اہل امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں۔مگراس کے باوجود ہماری سیاسی اخلاقیات میں ضمیر کی آواز پر فیصلہ کرنے والے کو مطعون کیا جاتاہے ، اسے لوٹا کریسی اور ہارس ٹریڈنگ سے تعبیر کیا جاتاہے، اس پر بِک جانے یا منحرف ہوجانے کی پھبتی کسی جاتی ہے ، تو پھر ارکان کی رائے تو بے اعتبار ہے، پارٹی سربراہ ہی سب کچھ ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے سیاسی نظام میں سینیٹ کی چنداں اہمیت نہیں ہے۔ ایک تجویز یہ آئی کہ پورا صوبہ ایک حلقۂ انتخاب قرار پائے اور ہر پارٹی اپنے سینیٹ کے امیدواروں کی ترجیحی فہرست الیکشن کمیشن کے پاس پیشگی جمع کرادے ، تب بھی فیصلہ توصرف اور صرف پارٹی سربراہ ہی کا چلے گا۔ امریکہ میں سینیٹ کا انتخاب براہِ راست ہوتاہے اور بہت سے اُمور میں سینیٹ ایک طاقت ور ادارہ ہے۔
دراصل حزبِ اقتداراور حزبِ اختلاف کی سیاست اسلام کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی۔کیونکہ آپ حزبِ اقتدار میں ہیں تو آپ کو صحیح اور غلط کی تمیز کے بغیر حکومت کا ساتھ دینا ہے، ورنہ اختلاف کا کوئی نہ کوئی پہلو تلاش کرنا ہے۔ اصولی طور پر پوری اسمبلی یا پارلیمنٹ کو ''حزبِ احتساب‘‘ کا کردار ادا کرنا چاہئے کہ اگر حاکمِ وقت کے اقدامات ، حکمتِ عملی اور فیصلے درست سَمت میں ہیں تو سب پران کی حمایت لازم ہے اور اگر وہ غلط سَمت میں جارہا ہے، تو سب پر اس کے غلط فیصلوں کی مخالفت کرنا اور اسے راستی پر لانا لازم ہے۔ رسول اللہ ﷺ تو ''معصوم عنِ الخطاء‘‘ تھے ، آپ پر تو وحیِ ربّانی نازل ہوتی تھی، اس لئے ہر صورت میں آپ کی اطاعت لازم تھی، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''آپ کے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے، جب تک کہ اپنے باہمی تنازعات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر آپ کے فیصلے پر اپنے دلوں میں (بھی) کوئی گھٹن محسوس نہ کریں اور( آپ کے کئے ہوئے ہر فیصلے کو) خوش دلی سے تسلیم کریں ،(النساء:65)‘‘۔ لیکن آپ کے بعد کوئی معصوم نہیں ہے، اب ہر حاکم کے ہر فیصلے کو قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا، اُسے چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ ہر صحیح فیصلے کی حمایت کی جائے گی اور حاکم غلطی پر ہے تو اسے راستی پرلایا جائے گا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور تم میں سے جو صاحبانِ امر ہیں ان کی اطاعت کرو، پس اگر کسی معاملے (کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے ) میں تم میں اختلاف ہوجائے ، تو (آخری فیصلے کے لئے) اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو، اگر اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہی (رَوِش) بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا ہے،(النساء:59)‘‘۔
امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اندازِ حکمرانی اس کی عمدہ مثال ہے ، ایک بار آپ نے اپنے خطبہ میں متنبہ کیا کہ لوگوں نے مہر زیادہ مقرر کرنے شروع کردئیے ہیں، اس پر ایک خاتون کھڑی ہوئی اور کہا :امیرا لمومنین اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:''اور اگر تم ان میں سے ایک کو(یعنی اپنی بیوی کو مہر میں) ڈھیروں مال دے چکے ہو، تو اس مال میں سے کچھ بھی واپس نہ لو،(النساء:20)‘‘۔یعنی قرآن میں تو ''قِنطار‘‘ کا کلمہ آیا ہے اور آپ مہر کی رقم کی تحدید کرنا چاہتے ہیں ۔ اس پر حضرت عمر فاروق نے کہا:''عورت نے درست کہااور عمر سے غلطی ہوگئی‘‘، چنانچہ انہوں نے اپنی رائے سے رجوع کرلیا،(سنن کبریٰ للبیہقی،جلد7،ص:233)‘‘۔ اسی طرح ان کے عہدِ خلافت میں ایک شخص طواف کے دوران کچلا گیا اور اس کی موت واقع ہوگئی ۔ اُس کا معاملہ امیر المومنین کے سامنے پیش ہوا۔ انہوں نے کہا کہ یہ پتا چلانا مشکل ہے کہ کس کے پاؤں تلے کچلنے سے اس کی موت واقع ہوئی ، اس لئے اس کی دیت کسی پر بھی عائد نہیں کی جاسکتی ، اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:''امیر المومنین !مومن کا خون رائگاں نہیں جاتا، اس کی دیت بیت المال سے اداکی جائے‘‘۔ حضرت عمر فاروق ؓنے اپنے فیصلے سے رجوع کیا اور کہا:''اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا‘‘۔ ایک موقع پر حضرت عمر ؓنے خطبے کے دوران کہا کہ اگر میں غلط روش اختیار کروں تو تم کیا کرو گے ۔ اس پر ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا: ''میری یہ تلوار آپ کو سیدھا کردے گی‘‘ ۔ اس پر حضرت عمر ؓنے اللہ کا شکر ادا کیاکہ جب تک انہیں روکنے اور ٹوکنے والے موجود ہیں، امت کے معاملات درست سَمت پر چلتے رہیں گے۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسلامی امارت وخلافت کے لئے زریں اصول اپنے اولین خطبۂ خلافت میں ارشادفرمایا:''جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے جادۂ مستقیم پر چلتا رہوں، تم پر میری اطاعت لازم ہے اور اگر (بفرضِ محال )میں اس سے انحراف کروں تو تم پر میری اطاعت لازم نہیں ہے‘‘۔