"MMC" (space) message & send to 7575

مَنارۂ نور

استاذی واستاذ العلماء علامہ مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے عہد کی ایک منفرد وممتاز اور جامعِ کمالات شخصیت تھے ، آپ اَسلاف کے ایثار، اخلاص، استقامت و عزیمت‘ وَرَع وتقویٰ کاکامل مظہر، ان کی علمی وراثت کے امین ، معاصرین میں اپنی ہمہ جہت شخصیت کی وجہ سے ممتاز اور اپنے اَخلاف کے لئے اُسوہ وقُدوہ اور منارۂ نورہیں ۔ 
ہر علم اور ہر فن پر آپ کو کامل عبور اور مَلکۂ تامّہ حاصل تھا۔آپ علومِ اسلامیہ وعلومِ عربیہ کے بے مثال معلّم تھے۔ تدریس اور فیض رسانی کا ملکہ قدرت نے آپ کو ودیعت فرمایا تھا۔ آپ علومِ دینیہ میں جامعِ معقول ومنقول تھے۔ اسی لئے تمام علمی تحقیقات، نِکات اور مشکل مقامات آپ کو اَزبر تھے اورآپ علومِ عربیہ واسلامیہ کی تدریس کے شہسوار تھے ۔ ایسا نابغۂ روزگار، بیہقی دوراں، وحید العصر اور فرید الملّت شخص اب شاید ہی نظر آئے جس نے علمی مسابقت کے میدان میں ہر جانب اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہوں اور دور دور تک کوئی ان کی گردِ راہ کو بھی پانے والا نظر نہ آئے جو بیک وقت قرآن، حدیث، فقہ اور جملہ علوم ِعربیہ، معقول ومنقول میں مہارت تامّہ رکھتا ہو۔ 
حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمۃ اپنی حیاتِ مبارکہ میں جن علمی رفعتوں اور مناصبِ جلیلہ تک پہنچے ان میں سے کچھ بھی موروثی نہ تھا۔ ایسا نہیں کہ آپ کو سجی سجائی مسند مل گئی ہواور زیبِ سجادہ بن گئے ہوں، دولت وثروت کے انبار اور اہلِ عقیدت وارادت کا جمِ غفیر آپ کو ورثے میں مل گیاہو ،بلکہ آپ اُن لوگوں میں سے تھے جو اپنی دنیا آپ تعمیر کرتے ہیں، اپنے لئے امکانات (Opportunities) خود پیدا کرتے ہیں ، یعنی وہ عہدِجدید کی اصطلاح میں ''Self Made‘‘انسان تھے۔ حضرت مفتی صاحب قدّس سرّہم العزیز ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو مناصب کے متمنّی وطلبگار ہوتے ہیں،بلکہ آپ ان نادرِ روزگار ہستیوں میں سے تھے جن سے مناصب کو عزت ملتی ہے،آپ جس علمی مجلس میں رونق افروز ہوتے، اُس پر چھاجاتے۔ 
حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے تلامذہ کے روحانی باپ، مربی اور مُحسن تھے۔ اکثر پیار سے اپنے شاگرد کو بھائی جان کہہ کر مخاطب کرتے۔ اعلیٰ مشینیں بنانا ،فن پارے تخلیق کرنا ،بلند و بالا عمارات اور یادگاریں تعمیر کرنا اور تیشہ فرہاد سے جوئے شیر کشید کرنا آسان ہے، باکمال انسان بنانا ایک مشکل ترین فن ہے۔ انسانی شخصیت کی تراش خراش کرکے اسے ایک پیکرِکمال میں ڈھالنا ،اس کی شخصیت کی داخلی تہوں میں مستور فطرت کے ودیعت کردہ نقوشِ جلال وجمال کو نکھار کرباہر لانا، اسے پیکر ِعلم وعمل بنانا، ایک لاشیٔ کو وجود کامل بنادینا، ابنِ آدم کو انسان بنادینا، الغرض انسانیت سازی اور شخصیت سازی یہ سب سے مشکل ترین فن ہے‘ دراصل یہی اعجازِ نبوت،فیضانِ نبوت اور وراثتِ نبوت ہے اور مفتی صاحب کو قدرت نے اس میں سے وافر ملکہ ودیعت فرمایا تھا۔ 
یہی تربیتِ نبوت تھی جس نے گڈریوں، گنواروں، وحشی انسانوں اور صحراؤں اور ریگستانوں کے مکینوں کو رہتی دنیا تک کے لئے علم ، تہذیب ، اَخلاق ، عدالت ، صداقت ، شجاعت ، دیانت،فیاضی ، زُہد وتقویٰ ، ایثارواخلاص،آدابِ جہاں بانی و حکمرانی کا امام بنادیا۔ حضرت مفتی صاحب اسی وراثتِ نبوت کے امین تھے، وہ زرنگاہ، زرپرست وزرخرید نہیں تھے بلکہ انسانیت کے ہیرے تراشنے والے جوہری تھے۔ وہ جوہرِ انسانیت کے عقیقوں اور ہیروں کے شناور تھے، انہیں ریت کے ٹیلوں میں سے ڈھونڈ نکالتے تھے اور ان کی تراش خراش کرکے قابلِ رشک بنادیتے: 
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار جب عقیق کٹا تب نگیں ہوا
حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کااندازِ تربیت ایساحکیمانہ تھا کہ آپ ایک جانب اپنے تلامذہ کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے، ان کو بلندہمتی کا درس دیتے تھے، جن طبقات سے انہیں علمی واعتقادی میدان میں مقابلہ درپیش تھا ،ان کی افرادی قوت، اداروں کی ظاہری وجاہت ، اسبابِ ظاہری کی فراوانی اور اہلِ اقتدار سے قربت کے مادّی مظاہر کو اپنے تلامذہ کی ہمت اور عزیمت واستقلال کو قائم رکھنے کے لئے قرآن کی آیات مبارَکہ کے مصداق بے توقیر وبے مایہ قرار دیتے تھے۔
لیکن اس کے ساتھ وہ انہیں ان کی علمی نارسائی، عملی کوتاہی اور بشری کمزوریوں کا بھی احساس دلاتے رہتے تھے تاکہ وہ فریبِ نفس اور عُجبِ نفس کے مہلک مرض میں مبتلا نہ ہوجائیں ، مخالفین کو لاشیٔ سمجھ کر تساہل وتغافل کا شکارنہ ہوں اور جہدِ مسلسل کو ترک نہ کریں۔ الغرض وہ بہت بڑے ماہرِنفسیات اور نبّاضِ فطرت بھی تھے۔ مفتی صاحب بلاشبہ عصبیت ِ جاہلیہ کے داعی ومبلغ نہیں تھے جس کی تعریف رسول اللہﷺ نے یہ بیان فرمائی کہ : ''اَلْعَصَبِیَّۃُ اَنْ تُعِیْنَ قَومَکَ عَلَی الظُلْمٍ‘‘۔''یعنی عصبیت یہ ہے کہ تم حق وباطل اور صواب وخطا کی تمیز کئے بغیر ظلم پر اپنی قوم کے حامی وناصر بن جاؤ،(سنن ابو داؤد:5078)‘‘۔ عصبیتِ جاہلیہ سے مراد کَٹ حُجّت‘ اَڑیل اور ضِدّی بن کر جانتے بوجھتے حق کا انکار کرناہے۔
لیکن اس کے باوجود آپ ''تصلُّب فی الدین‘‘ کی علامت تھے اور یہی جذبۂ صادقہ اپنے تلامذہ کے قلوب واَذہان میں راسخ کرتے تھے تاکہ بڑی سے بڑی ترغیب یا ترہیب ، ہوائے نفس اور خوف سے ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئے اور وہ احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کافریضہ ادا کرتے رہیں۔ حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے عہد کے ان لوگوں میں سے تھے جنہیں معیار حق کہنا شاید مبالغہ نہ ہو‘ وہ حق گوتھے ، حق پر ڈٹ جانے والے اور حق پر مرمٹنے والے تھے۔ 
حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے اَخلاف ، اولادِ امجاد اورتلامذہ کے علاوہ ان کی دو عظیم یادگاریں ہیں: (1)جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور وشیخوپورہ کمپلیکس (2)تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان ۔ان دونوں اداروں کی تشکیل وتعمیر پر انہوں نے اپنے شباب اور عمرِ عزیز کا ایک ایک لمحہ صَرف کردیا۔آپ بعد فجرتا عشاء ادارے ہی میں رہتے ، اس لئے ان کی خَلوت وجَلوت سب کے سامنے تھی۔ آپ فائل ورک اور دفتری ضابطوں کے عادی نہ تھے، لیکن جب انہوں نے تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کی ذمہ داری سنبھالی تو نئے معیارات قائم کئے۔ 
الحمدﷲ!اب جامعہ نظامیہ رضویہ اپنی ظاہری وباطنی شان و شوکت، عظیم الشان عمارت اور علمی وجاہت کے اعتبار سے اس مقام پر ہے کہ اسے ایک یونیورسٹی کا چارٹر حکومت کی جانب سے عطا کیا جانا چاہیے۔ جامعہ نظامیہ رضویہ پاکستان میں اہلسنت کا سب سے بڑا ادارہ ہے اور اس کے نیٹ ورک میں تقریباً پانچ ہزار طلبہ وطالبات زیر تعلیم ہیں۔
امامِ احمد رضا خان قادری قُدِّس سرُّہ العزیز کانام لینے والے ، اَعراس منانے والے ، ان کے مسلک پر تصلُّب کا دم بھرنے والے توبہت ملیں گے، لیکن رضوی مشن کی جو عظیم خدمت آپ نے انجام دی ہے، اس میں آپ کا کوئی ثانی اور مقابل نہیں ہے۔ آپ نے''فتاویٰ رضویہ‘‘ کو تخریج و تحقیق اورجدید اسلوب کے مطابق 33مجلّدات میںمُدوّن کرکے عصرِ حاضر سے ہم آہنگ کردیا اور رہتی دنیا تک اب یہ شاہکار لائبریریوں کی زینت بنارہے گا اور موافق ومخالف اہلِ علم اس سے صَرفِ نظر نہ کرپائیں گے۔ آپ نے ''الدولۃ المکیۃ بالمادّۃ الغیبیۃ اور انباء الحی‘‘ کو جدید عربی اسلوب پر مُدوّن کرکے امامِ اہلسنت کو بین الاقوامی و بین الاسلامی علمی شخصیت کی حیثیت سے منوایا۔ اب ''دیدۂ کور‘‘ کے سوا عرب وعجم کے کسی بڑے سے بڑے صاحبِ علم وتحقیق کے لئے اعلیٰ حضرت کی علمی وجاہت کو تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں ۔
حضرت قبلہ مفتی صاحب کی حیاتِ مبارَکہ ہی میں ان کا علمی و دعوتی صدقۂ جاریہ‘ جامعہ نظامیہ رضویہ کی چہاردیواری سے نکل کر بین الاقوامی سطح پر پھیل چکا تھا۔ ان کے تلامذہ نے جابجا ادارے قائم کئے ، مساجد بنائیں ، پہلے سے قائم اداروں کو جِلا بخشی ، دعوت و ارشاد، تدریس ، تصنیف وتالیف ، خطابت اور جدید پرنٹ والیکٹرانک میڈیا کو ابلاغِ دین کے لئے مہارت کے ساتھ استعمال کیا،یہ تاقیامت ان کے لئے صدقۂ جاریہ رہے گا۔
حضرت مفتی صاحب کی زندگی اخلاص وایثار ، سعیِ پیہم ، جُہدِ مسلسل اور عزمِ صمیم سے عبارت تھی۔ وہ اپنی زندگی کے آخری سانس تک مصروفِ عمل رہے۔ ان کی حیاتِ مبارَکہ کو اگر ہم الفاظ میں سمیٹ کر کوئی عنوان دینا چاہیں تو وہ فقط یہی ہے''کام ، کام اور صرف کام‘‘ ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس راز کو سمجھنے اور اس پر کاربند رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ان کے صاحبزادگان علامہ محمد عبدالمصطفیٰ ہزاروی، مولانا عبدالمجتبیٰ،مولانا غلام مرتضیٰ اور محمد سعید احمدہیں اور یہ ان کے دینی وعلمی مشن کونہ صرف کامیابی کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ ان کے ادارے روز بروز ترقی کی منزلیں طے کررہے ہیں اور اس سے یقینا مفتی صاحب کی روح کو تسکین مل رہی ہوگی۔
نوٹ: 16مارچ بروز پیر ایوانِ اقبال لاہور میں مفتی صاحب کی شخصیت کے بارے میں آگہی کے لئے ''مفتیٔ اعظم سیمینار‘‘ منعقد ہورہاہے ،اُس کی مناسبت سے یہ سطور لکھی گئی ہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں