اتوار 15مارچ کویوحنّا آباد لاہور میں ایک بڑا سانحہ پیش آیا۔ یوحنّا آباد مسیحیوں کی بڑی بستی ہے۔ اتوارکے دن عین اُس وقت جب مسیحی اپنے دو چرچوں میں عبادت میں مصروف تھے، مبینہ طور پر خود کش حملے کیے گئے،کئی افراد ہلاک اوردرجنوں زخمی ہوگئے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ''الاحرار‘‘ تنظیم نے اِس کی ذمّے داری قبول کی۔اس کے ردِّ عمل میں دو مسلمانوںکو تشدد کرکے مارا گیا اور ان کی لاشوںکو نذرِ آتش کردیا گیا۔ پھر میٹرو بس کی تنصیبات پر حملہ کرکے شدید نقصان پہنچایاگیا۔
اس سانحے میں ہمارے لیے بڑی تنبیہات (Warnings) اور سامانِ عبرت ہے ۔ سب سے پہلے تو یہ کہ ایسے تمام جرائم انتہائی افسوسناک، اذیت ناک اور قابلِ مذمت ہیں۔ یہ سنگدلی اور درندگی کی انتہا ہے اور شریعت کی رو سے حرامِ قطعی ہے۔ قرآن نے اسے اﷲتعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرم ﷺ سے جنگ اور فساد فی الارض قرار دیا ہے اور یہ ایساجرم ہے کہ قرآن میںاللہ تعالیٰ نے اس کی سب سے زیادہ سزا مقرر کی ہے، کیونکہ اس جرم کی شدت سب سے زیادہ ہے۔ یہ اسلام دشمنی، پاکستان دشمنی اورانسانیت دشمنی کی انتہا ہے۔ پہلے مسیحیوں پر ظلم ہوا اور پھر جواباً دو مسلمانوںکو اذیتیں دے کر مارا گیا اور ان کی لاشوں کو نذرِ آتش کردیا گیا اور قومی اَملاک کونقصان پہنچایا گیا۔ اس طرح مظلومیت اور ظلم دونوں جمع ہوگئے۔ ابھی ہم اس صدمے سے بحال بھی نہیں ہوئے تھے کہ کراچی میں جمعتہ المبارک کے دن ایک مسجد پر بم بلاسٹ ہوا اور رینجرزکی گاڑی پر مبیّنہ طور پر خودکش حملہ ہوا اور کئی افراد لقمۂ اجل بنے اور درجنوں زخمی ہوئے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ''ضرب عضب‘‘ کی کامیابیوں کے باوجود اب بھی پہل کرنے اور اپنی ترجیح کے مطابق ہدف مقررکرنے اور اسے روبہ عمل لانے کی صلاحیت ریاست سے متصادم دہشت گردوں کے پاس موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کارروائیوں کا مقصد سکیورٹی اداروں کی توجہ کو اپنے ہدف سے ہٹانا، قوم کو عدمِ تحفظ کے احساس اور بے یقینی میں مبتلاکرنا،خوف زدہ کرنا اور ملک کو عدمِ استحکام سے دوچارکرنا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ شمالی وزیرستان میں بے پناہ زک اٹھانے کے باوجود وہ شہروں میں اپنا ہدف حاصل کرنے میں تاحال کامیاب ہیں۔
مزید یہ کہ ہمارے میڈیا کا کردار بھی منفی ہے، ان مناظرکو براہِ راست نشرکرنے کی جب تک قانوناً ممانعت نہیں ہوتی، ہجوم اکٹھا بھی ہوتا رہے گا، بے قابو بھی ہوگا اور فسادی عناصراس میں نفوذ کرکے تخریبی کارروائیاں بھی کریںگے۔ اس کے نتیجے میں معاشرے میں ایک نیا رجحان جنم لے گا، مردم آزاری اور اذیت رسانی کو لوگ Enjoy کریں گے۔ اس کا دوسرا منفی نتیجہ یہ برآمد ہوتاہے کہ کسی سانحے کی واقعاتی شہادت غتر بود اور موقع پر شواہد جمع کرنے کے امکانات معدوم ہوجاتے ہیں۔
ہمارا میڈیا دوسرا نقصان یہ پہنچارہا ہے کہ غیرمسلموں یا ان کی عبادت گاہوں پر حملہ ہوتاہے تو پوری دنیاکو یہ تأثر دیا جاتا ہے کہ پاکستان میں غیرمسلموں کا جینا دوبھر کردیاگیا ہے، ان کی نسل کشی ہورہی ہے اور ان کے انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ واقعات کی یہ تعبیر درست مان لی جاتی، اگر صرف غیرمسلموں کو نشانہ بنایا جا رہا ہوتا اور مسلمان بے خوف وخطر رہتے، وہ سلامتی اور امان میں شاداں وفرحاں ہوتے۔ لیکن کیا مسلمانوں کی مساجد و مزارات پر حملے نہیں ہوئے، علمائیِ کرام کے قتل کے واقعات نہیں ہوئے، مارکیٹوں اور بازاروں میں بم بلاسٹ نہیں ہوئے، بلا امتیاز بوڑھے ، جوان ، بچے اور عورتیں لقمۂ اجل نہیں بنائے گئے، مسلح افواج، دفاعی تنصیبات اور سکیورٹی کے دیگر اداروں پر حملے نہیں ہوئے؟ لہٰذا میری مؤدبانہ گزارش ہے کہ ہر سفاکانہ حملے کو پاکستان پرحملہ تصورکیا جائے اور ہر نقصان کو قومی نقصان قرار دیا جائے۔ لوگوںکو اندازہ نہیں کہ جب غیرمسلموں پر حملے کو ملک کی مجموعی صورتِ حال سے الگ تھلگ کرکے پیش کیا جاتاہے تو پاکستان کا امیج دنیا میں کتنا مجروح ہوتاہے۔
اسلام غیرمسلم شہریوںکو مکمل تحفظ دیتا ہے۔ نجران کے نصاریٰ جب جزیہ قبول کرکے صلح پر آمادہ ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو تحفظ کی ضمانت دی اور اس وقت جو دستاویز مرتّب ہوئی اُس کا ترجمہ یہ ہے:''اہلِ نجران اور ان کے قرب وجوار میں رہنے والوں کے دین، جانوں ، اراضی، اموال ، غائب وحاضر اُن کے خاندان، ان کے تابع لوگوں ،خواہ کم ہوں یازیادہ اور ان کی ان عبادت گاہوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ضمان(Gaurantee)ہے۔ یہ کہ ان کے حقوق اوران کے دین میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی، نہ ہی ان کے پادریوں اور راہبوں کو تبدیل کیا جائے گا، زمانۂ جاہلیت کا کوئی قصاص یا دیت ان سے وصول نہیں کی جائے گی، انہیں جلاوطن نہیں کیا جائے گا، ان سے عُشر نہیں وصول کیا جائے گا اور ان کی زمین کو لشکر نہیں روندیں گے، ان کے باہمی معاملات میں انصاف کیا جائے گا، وہ سود نہیں کھائیں گے، البتہ ماضی کے معاملات معاف ہوںگے اوراُن کے کسی شخص کوکسی دوسرے کی زیادتی کے بدلے میں نہیں پکڑا جائے گا۔ اس دستاویز پر اللہ اور اس کے نبی محمد ﷺ کی ہمیشہ کے لیے ضمان ہے جب تک کہ وہ خود اِس عہدکو نہ توڑیں۔ آپ ﷺ نے اِس پر ابو سفیان ، غیلان بن عمرو، مالک بن عوف ، اقرع بن حابس اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہم کو گواہ بنایا‘‘۔(سُبُلُ الھدیٰ والرّشاد، جلد:6،ص:420)
اسی طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فتح بیت المقدس کے موقع پر القدس کے مسیحیوں کے لیے تحفظ کی باقاعدہ تحریری دستاویز لکھی، جو یہ ہے : ''یہ وہ امان ہے جو القدس الشریف (Jerusalem)کے رہنے والوں کواللہ کے بندے امیرالمؤمنین عمر رضی اللہ عنہ نے عطا کی۔آپ نے یہ امان اُن کو اُن کی جانوں، اموال ، کلیساؤں (Churches) ، صلیبوں(Cross)، ہر بیمار اور تندرست اور اُن کے تمام اہلِ مذہب کو عطا کی۔ امیرالمؤمنین نے ان سے عہدکیا کہ اُن کی عبادت گاہوں میں کوئی سکونت نہیں اختیار کرے گا، انہیںڈھایا نہیں جائے گا، ان کی حدود میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح ان کے مالوں اور صلیبوں میں بھی کوئی کمی نہیں کی جائے گی اور دین کے معاملے میں ان پر جبر نہیں کیا جائے گا، اُن میں سے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا اور القدس الشریف میں اُن کے ساتھ یہودی رہائش اختیار نہیں کرسکیں گے اور وہ ٹیکس ادا کریں گے۔ انہیں روم کی طرف جلاوطن نہیں کیا جائے گا، ہاں جو اپنی مرضی سے روم جانا چاہیں تو انہیںان کے اموال اور صلیبوں سمیت حفاظت کے ساتھ ان کی منزل تک پہنچایا جائے گا۔ اور جواپنی مرضی سے وہیں قیام کرنا چاہیں، انہیںمکمل تحفظ عطا کیا جائے گا‘‘۔ آخر میں لکھا : '' اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرم ﷺ کی طرف سے مسلمانوں کے خلفاء اور جملہ مسلمانوں پر اس عہدکی پاس داری لازم ہے‘‘۔ پھر آپ نے اس عہد پر اکابر صحابۂ کرام خالد بن ولید ، عمرو بن عاص، عبدالرحمن بن عوف اور معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہم کوگواہ بنایا۔ (الفاروق : ص : 292 بحوالہ طبری)
حدیثِ پاک میں ہے: ''یاد رکھو! جو شخص مسلمان ریاست کے پابندِ آئین وقانون یعنی'' مُعَاہِد ‘‘ غیرمسلم کو قتل کرے، جسے اللہ اور اس کے رسول نے تحفظ کی ضمانت دی ہے تووہ اللہ کے عہد کی بے حرمتی کرتا ہے، ایسا شخص جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا‘‘۔(ترمذی:1403)۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے : ''رسول اللہ ﷺ نے ایک ذمّی کے بدلے میں ایک مسلمان کو قصاص میں قتل کردیا اور فرمایا: میں سب لوگوں کے مقابلے میں اس بات کا زیادہ حقدار ہوں کہ اپنے عہدکو پوراکروں‘‘۔(سُنَنِ دارَ قطنی:3233)
سانحۂ لاہورکی ایک اور وارننگ یہ ہے کہ ہمارے سلامتی کے اداروں کے پاس جذباتی ہجوم کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، اسی صلاحیت کے فُقدان کے باعث دو انسانی جانیں اذیت رسانی کے بعد نذرِ آتش کی گئیں اور اَملاک کو نقصان پہنچایاگیا۔ لاہور پولیس کے سربراہ نے اس کا یہ عُذر پیش کیا کہ اگر ہم ایکشن لیتے تو اور زیادہ نقصان ہوتا۔ پس اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ایسے حالات میں ترقی یافتہ اَقوام کی پولیس یا سکیورٹی کے ادارے کیا حکمتِ عملی اختیار کرتے ہیں۔ جب دنیا میں ہر مسئلے کا حل تلاش کیا جاتاہے تو ہمارے اداروں کے پاس بھی اس کی واضح حکمتِ عملی ہونی چاہیے۔ ہماری ناکامی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ میڈیا یک طرفہ طور پر سکیورٹی اداروں کے پیچھے لگ جاتاہے اور ایک ہی فوٹیج کو بار بار پیش کرکے اشتعال پیدا کیا جاتاہے اور پولیس کوئی اقدام کرنے کے بجائے دفاع میں چلی جاتی ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں پوری ریاستی قوت سلامتی کے اداروں کی پشت پر کھڑی ہوتی ہے۔