پاکستان میں غیر قانونی اور ممنوعہ اسلحے کی آمد بڑے پیمانے پر جہادِ افغانستان کے بعد شروع ہوئی، اس کے ذیلی ثمرات کے طور پر ہیروئن کی وبا عام ہوئی ۔ 9/11کے بعد جب سے ہم نے دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی زیرِقیادت عالمی جنگ کو گود لیا ہے اور اسے اُس وقت کے صدر ِپاکستان جناب جنرل(ر) پرویز مشرف نے ''سب سے پہلے پاکستان‘‘کا خوبصورت نام دیا، ہم مسلسل ابتلاکے دور سے گزر رہے ہیں اور یہ عہدِابتلا ختم ہونے میں نہیں آرہا۔امن وسکون کے وقفے ضرور آتے رہے اور ''آپریشن ضربِ عضب‘‘ کے بعد صورتِ حال میں کافی بہتری آئی، لیکن وقفے وقفے سے دشمن اپنے وجود کا احساس دلاتا رہتاہے۔ پشاور، لاہور، شکارپور اور کراچی کے سانحات اس کی بڑی علامات ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم آگ اور خون کے ایک الاؤ پر کھڑے ہیں ، جوکسی بھی وقت اُبل کر باہر آسکتا ہے۔ دشمن یہ بھی احساس دلانا چاہتاہے کہ پہل کرنے اور اپنے من پسند ہدف کا انتخاب کرنے کی صلاحیت اس کے پاس موجود ہے۔
چیف آف آرمی اسٹاف جناب جنرل راحیل شریف پر قوم کو اعتماد ہے، ان کا عزم راسخ ہے، ان کے اخلاص پر قوم کو یقین ہے اور وہ ہر آن متحرک اورمُستعد نظر آتے ہیں ۔ لیکن چونکہ دہشت گردی کا نیٹ ورک اوراس وباکی جڑیں اپنی گہرائی وگیرائی کے اعتبار سے ہمہ گیراور محیط ہیں، اس لیے لگتا ہے کہ اسے جڑ سے اکھاڑپھینکنے میں کافی وقت لگے گا، یہ نیٹ ورک شیطان کی آنت کی طرح پھیلا ہواہے اور اس کا زہر دور دور تک سرایت کیے ہوئے ہے۔
دوسری جانب ہماری سیاسی قیادت ایک دوسرے کے لیے بے رحم ہے اور فریقِ مخالف بالخصوص اقتدار کے مسند نشیں کو زَک پہنچانے کے لیے بے چین رہتی ہے، لہٰذا وہ ایک دوسرے کو مہلت دینے کے لیے تیار نہیں۔ جب ملی مسائل یا امراض مُوذی بن جائیں اور مَرَضِ مُزمِن (Chronic) ہوجائے ، تو اس کے لیے قومی اتفاقِ رائے، طویل المدت منصوبہ بندی اور بڑی سرجری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرجسدِ ملّی کے صحیح سالم اعضاء کواس کی زَدسے بچانا مقصود ہو تو گلے سڑے اعضاء کو کاٹ کر پھینکنا ہوتاہے۔ پس سرجن اگر رحم کرنے لگے تو وہ جرّاحی کر ہی نہیں سکتا، اس کے مریض پر تَرحُّم کا تقاضا یہ ہوتاہے کہ وہ جسم کے غیر متاثرہ حصے کو بچائے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسماعیلی کمیونٹی پاکستان کی سب سے پُرامن اور بے ضرر کمیونٹی ہے۔ میں گزشتہ 51سال سے کراچی میں مقیم ہوں ، میں نے اس پوری نصف صدی میں کبھی نہیں سنا کہ اسماعیلی کمیونٹی کا کسی سے تصادم ہواہو۔ سب نے دیکھا کہ اتنے بڑے اور انتہائی المناک سانحے کے باوجود اسماعیلی کمیونٹی نے نہ کوئی احتجاج کیا، توڑ پھوڑ تو کیا وہ گھروں سے باہر بھی نہیں نکلے، ایک کنکر تک نہیں پھینکا اور یہ اُن کے پُرامن ہونے کی ایک روشن مثال ہے۔ عقائد ونظریات سب کے اپنے اپنے ہوتے ہیں، لیکن کسی کے مثبت سماجی رویّے کی تحسین کی جانی چاہیے۔اس کمیونٹی کے روحانی سربراہ پرنس کریم آغا خان کے عالمی روابط اور اثرات ہیں۔ لہٰذا اس سانحے سے عالمی سطح پر پاکستان کا امیج مزید خراب ہوگا۔
کراچی کے نظم کی منجملہ خرابیوں میں سے ایک پولیس اور شہری خدمات کے اداروں کا سلیکشن اور تقرر میرٹ پر نہ ہونا ہے، الیکٹرانک میڈیا پر ماہرین اور تجزیہ کاروں کا اس پر اتفاقِ رائے نظرآیا کہ کراچی کے مسائل کے پائیدار حل کے لیے پولیس، شہری نظم اورشہری خدمات کے اداروں کے اہلکاروں کاسیاست سے پاک ہونا ضروری ہے ۔ لیکن یہ ایک ایسا خواب ہے کہ مستقل قریب میں اس کی تعبیر پانا عملاً ممکن نظر نہیں آتا۔ اسی طرح صوبۂ سندھ میں دو بڑے اسٹیک ہولڈرز یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے اتفاقِ رائے اور عملی یکسوئی کے بغیر بھی دیر پا امن ممکن نہیں ہے اور یہ کام الزامات اور جوابی الزامات یعنی Blame Gameکے ذریعے سے نہیں ہوسکتا۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ سیاست اور مذہب کوپوری قوت کے ساتھ جرائم سے پاک کیاجائے۔ جب تک سیاست و مذہب اور جرائم کا تعلق قائم رہے گا ، اصلاح کی توقع عَبث ہے، سو جرائم پیشہ عناصر کو سیاست اور مذہب کی چھتری میں تحفظ دینے کی روایت یکسر ختم ہونی چاہیے ،سب جرم سے پاکیزہ سیاست کو شِعار بنائیں۔
ایک تجویز میڈیا کے ذریعے یہ سامنے آئی ہے کہ دستور کے آرٹیکل 245کے تحت گورنر راج لگا کر کراچی کو فوج کے حوالے کردیا جائے۔ میری دانست میں یہ رائے ممکن ہے کہ اخلاص پر مبنی ہو ، لیکن یہ فوج کے مفاد میں نہیں ہے ۔ موجودہ انتظامی ڈھانچے کے ساتھ فوج بھی شاید حسبِ توقع اور خاطر خواہ نتائج نہ دے سکے، جب کہ انتظامیہ کے اہل کاروں اور عمل داروں کو یہ پتا ہوکہ اس عارضی مدت کے بعد اپنے ایک ایک اقدام کے لیے انہیں کسی اور کے سامنے جوابدہ ہوناہے۔ اس سے فوج کی نیک نامی بھی متاثر ہوسکتی ہے، جبکہ موجودہ صورتِ حال میں ناکامی کی ذمے داری سیاسی حکمرانوں پر آسانی سے عائد کی جاسکتی ہے۔ یہاں تو حال یہ ہے کہ لوگوں کے ٹیکسوں کے پیسے سے ریلوے، پاکستان اسٹیل اور اس جیسے دوسرے اداروں کے عملے کو تنخواہیں دی جاتی ہیں اور خسارے پورے کیے جاتے ہیں۔ لیکن اگر ان اداروں میں ملازمین کو اوسَط مسلَّمہ عالمی معیارات پر لانے یا نجکاری کرنے یا کسی بھی اصلاح کی بات کی جائے تو سیاسی جماعتیں لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں آجاتی ہیں۔ یہ پاکستان سے وفا نہیں ہے۔ سناہے پاکستان ریلوے کی کارکردگی میںقدرے بہتری آئی ہے، اگر یہ خبر درست ہے تو اس کا کریڈٹ خواجہ سعد رفیق کو ضرور ملنا چاہیے۔
یہ مطالبہ بھی کیا جاتاہے کہ پاکستان بالخصوص کراچی کو اسلحہ سے پاک کردیا جائے۔ دو کروڑ آبادی پر مشتمل گنجان آباد شہرکراچی میں ہر مکان اور فلیٹ کے ہرہر گوشے سے اسلحہ تلاش کرکے ضبط کرنا آسان کام نہیں ہے۔ ایسا مطالبہ کرنا آسان ہے لیکن اس کے لیے لاکھوں کی نفری چاہیے ، سومسائل بہت گمبھیر اور پیچیدہ ہیں اور لگتا ہے کہ پاکستان اور اہلِ پاکستان کی ابتلاکا خاتمہ ابھی کافی دور ہے ۔ اللہ عزّوجلّ کی بارگاہ میں انتہائی عَجز ونیاز اور اخلاص کے ساتھ ہماری دعا ہے کہ ایسا ہوجائے اور وہ اس پر قادرہے کہ پلک جھپکتے ہی سب کچھ بدل جائے، لیکن زمینی حالات حوصلہ افزا نہیں ہیں۔
ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی بڑا بے رحم ہے۔ ایک بڑے قومی مسئلے پر بریفنگ دینے کے لیے وزیر اعظم نے قومی سیاسی رہنماؤں کا اجلاس پہلے سے طلب کیا ہواتھا اور سب لوگ اجلاس کے لیے پہنچ گئے۔ ظاہر ہے کہ طویل دورانیے کے اجلاس کے لیے کھانے کا اہتمام بھی پہلے سے ہوتاہے۔ اس دوران بدقسمتی سے کراچی کا سانحہ رونما ہوگیا۔ میڈیا پر سیاسی رہنماؤں کے کھانے کی تصاویر دکھا کراور کڑوے کسیلے تبصرے کرکے قوم کے سامنے اُن کی تذلیل کرنا کہ مرغن کھانوں کے چٹخارے لے رہے ہیں ،اس سے اُن کا وقار مجروح ہوا۔ اتنی زیادتی نہیں ہونی چاہیے۔ پس گزارش ہے کہ خدارا رحم فرمائیں اور کسی کی تذلیل میں اس حدتک نہ جائیں۔ کراچی کا المناک سانحہ چین کی بڑی سرمایہ کاری اور عالمی سطح کے حامل ''پاک چائنا کوریڈور‘‘ کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے کہیںہمارے دشمنوں کی سازش تو نہیں ہے ؟۔تاہم ایجنٹ اور کارندے تو مقامی ہی ہوتے ہیں، لیکن بعض اوقات منصوبہ سازاور وسائل فراہم کرنے والے بیرونی دشمن بھی ہوتے ہیں، لہٰذا اس جہت سے بھی تحقیق ہونی چاہیے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ایک منظم، ماہرانہ اور جامع انٹیلی جنس کے ذریعے دہشت گردی کے اس نیٹ ورک کی کھوج لگائی جائے اور ان کے سرچشموں اورمنصوبہ بندی کے مراکز تک رسائی حاصل کرکے یہ معلوم کیاجائے کہ تباہ کن اسلحے کو ذخیرہ کرنے اور اپنے اہداف تک پہنچانے کے لیے نقل وحمل میں مدد کون فراہم کرتاہے اور دہشت گردوں کو بڑے شہروں میں محفوظ کمین گاہیں کون فراہم کرتاہے؟۔ جب تک یہ پورا نیٹ ورک دریافت نہیں ہوگا، Case to Case کارروائیوں سے اس کا مکمل سدِّباب نہیں ہوپائے گا۔
مسلمانوں پر ابتلائیںپہلے بھی آتی رہی ہیں اور اس کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے:ترجمہ:''کیاتم نے گمان کرلیاہے کہ تم (یونہی) جنت میں داخل ہوجاؤگے ؟،حالانکہ ابھی تک تم پر ایسی آزمائشیں نہیں آئیں ،جوتم سے پہلے لوگوں پر آئی تھیں،اُن پر آفتیں اور مصیبتیں پہنچیں اوروہ (اس قدر)جھنجھوڑ دیئے گئے کہ (اُس وقت کے) رسول اور اُن کے ساتھ ایمان والے پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟،سنو!( تم اپنے حصے کا کام کرچکے) بے شک (اب)اللہ کی مدد قریب ہے‘‘ (بقرہ:214)۔ مگروہ ابتلائیں ہمارے اعتقادی اور خارجی دشمنوں کی طرف سے تھیں اور آج ہم جس آزمائش سے دوچار ہیں، وہ ہمارے ایسے دشمنوں کی جانب سے ہیں جوہمارے ملی وجود میںپوری طرح سرایت کرچکے ہیں، یہ ہمارے ہم رنگ اورہم وضع دشمن ہیں، یہ آستین کے سانپ ہیں، ان کوتلاش کرکے کیفرِ کردارتک پہنچانا کافی دشوار ہے۔