کہا جاتاہے کہ ہمارے ملک کے بڑے مسائل میں سے ایک مسئلہ خیانت اور بدعنوانی ہے، قومی امانتوں کی لوٹ مار ہے، معمولی استثناء کے علاوہ ہر کوئی اُس پر ہاتھ صاف کرنے اور ہڑپ لینے کے درپے ہے اور یہ بات زبان زدِ عام ہے۔ ہمارے ایک لیڈر کا دعویٰ ہے کہ سالانہ ایک ہزار ارب روپے کی کرپشن ہے، واللہ اَعلم باِلصَّواب ۔ لیکن اگر زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھ لیا جائے ، تو اس پردۂ زنگاری کے پیچھے کچھ نہ کچھ تو ہے، ہوسکتا ہے کہ اس تخمینے میں بیس تا تیس فیصد یا کم وبیش کی مبالغہ آرائی ہو، لیکن اس کی مکمل نفی کرنے کی جرأت کوئی نہیں کرسکتا، کیونکہ نوشتۂ دیوار آنکھیں بند کرنے سے نہ مٹتا ہے، نہ منظر سے غائب ہوتاہے۔ سو یہاں چند پاکباز ، فطرتِ سلیمہ اور نفسِ مطمئنہ کے حامل محدود لوگوں کے سواصرف وہی دیانت دار ہیں، جو بے اختیار ہیںاور جن کے قلم یازبان سے نہ کسی کو مالی فائدہ پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی اس سے کسی ضرر رسانی کا خطرہ ہے۔
بدعنوانی کے سدِّباب کے لیے قوانین تو موجود ہیں، لیکن حاکم اور محکوم یعنی قانون نافذ کرنے والے اور جن پر قانون کا نفاذ ہونا ہے، بالعموم سب ہی کے دامن داغ دار ہیں۔ مسیح علیہ السلام کی طرف منسوب یہ کہاوت ہم پر صادق آتی ہے:''زانیہ پر پہلا پتھر وہ پھینکے ، جس کا اپنا دامنِ ایمان وعمل اس گناہ سے آلودہ نہ ہو‘‘، تو مجمعِ عام میں پہلا پتھر پھینکنے والا دستیاب ہی نہ تھا۔ اوّل تو ہمارے ہاں قانون بنانے والے اپنے تحفظات کو سامنے رکھ کر قانون بناتے ہیں کہ کہیں یہ پھندا کل انہی کی گردن میں فٹ نہ ہوجائے۔ لہٰذا قانون میں جَھول رکھا جاتاہے اور پھر جرم کرنے والے اتنے ماہر اور ذہین ہوتے ہیںکہ قدموں کے نشان بھی پیچھے نہیں چھوڑتے اور جرم کو ضابطوں کے تحفظات کے خول میں مستور کردیا جاتاہے، مصطفی زیدی نے کہا تھا ؎
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
ہاتھ کی صفائی کا عالم یہ ہوتاہے کہ کلیم عاجز کا یہ شعر ہر ایک کو اپنے گردوپیش میں مجسم معنی کی صورت میں نظر آتا ہے ؎
دامن پہ کوئی چھینٹ ، نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ ہمارا نظامِ عدل مظلوموں کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہے، اس پر ہماری عدالتِ عالیہ اور عدالتِ عظمیٰ کے فاضل جج صاحبان ناراض بھی ہوتے ہیں کہ تحقیقاتی اداروں اور انتظامیہ کی ناکامی کا ملبہ اُن پر ڈال دیاجاتاہے۔ سوا صل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا ''ضابطۂ قانون‘‘ ہی انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور عدل کے پاؤں کی زنجیر ہے، لیکن آئیڈیل ازم کی علمبردار ہماری قابلِ احترام عدلیہ اور فاضل وکلاء اس مسئلے کا کوئی حل پیش کرنے پر آمادہ نہیں۔ حقوقِ انسانی کی پاس داری اورجرائم کی تحقیق وتفتیش کے وہ معیارات، فنی ذرائع، ماہر اور مُرفَّہ الحال تفتیشی عملہ کے افسران ہمارے ہاں دستیاب نہیں ہیں اور نہ ہی اُس طرح کے مالی وسائل دستیاب ہیں۔ پس اپنے وسائل کو دیکھ کر اپنے معروضی حالات کو سمجھ کر اور خاص طور پر مخصوص صورتِ حال میں اُس کے مطابق قوانین بنائے جاتے ہیں۔ تحفظِ پاکستان ایکٹ اور اکیسویں آئینی ترمیم اسی کا مظہر ہے، لیکن یہ چیف آف آرمی اسٹاف کی خواہش یا دباؤ پر ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ سینیٹ کے موجودہ چیئرمین جناب رضاربانی کو نہایت تأسف کے ساتھ یہ کہنا پڑا کہ چونکہ میری سینیٹ کی رکنیت پارٹی کی امانت ہے، اس لیے اپنے ضمیر کے خلاف ووٹ دے رہا ہوںاور سینیٹر اعتزاز احسن صاحب نے ووٹ دیتے ہوئے کہا کہ آج بیرسٹر چوہدری اعتزاز احسن مر گیا۔
سو حقیقی اور مکمل احتساب تو آخرت میں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ہوگا ، جہاں نہ کوئی مکروفریب کام آئے گا ، نہ کوئی حیلہ وتدبیر کارگر ہوگی اور نہ اپنے جرائم سے انکار کیا جاسکے گا ، اقرار واعتراف کے بغیر چارا نہیں ہوگا، چنانچہ اللہ عزّوجلّ نے ارشاد فرمایا:''آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگادیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پاؤں اُن کاموں کی گواہی دیں گے جو وہ کرتے تھے‘‘ (یٰسٓ65)۔ یعنی انسان کے اپنے اعضاوجوارح‘ جو جرائم کی لذتوں سے اس دنیا میں لطف اندوز ہورہے ہیں ،قیامت کے دن وہی سلطانی گواہ بن جائیں گے، اللہ عزّوجلّ نے فرمایا: ''حتیٰ کہ جب وہ دوزخ کی آگ تک پہنچ جائیں گے، تو ان کے کان اور اُن کی آنکھیں اور اُن کی کھالیں اُن کے خلاف اُن کاموں کی گواہی دیں گی جو وہ دنیا میں کرتے تھے۔اور(وہ حیرت زدہ ہوکر )اپنی کھالوں سے کہیں گے: تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی؟، (تم تو گویائی پر قادر نہیں تھے )،وہ جواب دیں گی: ہمیں اسی اللہ نے گویائی بخشی، جس نے ہرچیز کو بولنے کی صلاحیت دی‘‘ (حٰم السجدہ:21)۔
سو انسانی معاشرے کو گناہوں اور جرائم کی آلودگی اورہلاکتوں سے بچانے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے آخرت کی جزاوسز ا پر ایمان ، خَشیتِ الٰہی اور خوفِ خدا، اگر یہ ہے تو انسان کی اصلاح ممکن ہے ، ورنہ دنیا اور آخرت کی بربادی اس کا مقدّرہے ۔ اللہ عزّوجلّ نے فرمایا:''اور ہم نے ہر انسان کا اعمال نامہ اُس کے گلے میں لٹکا دیا ہے اور ہم قیامت کے دن اُس کا اعمال نامہ نکالیں گے جس کو وہ کھلا ہوا پائے گا، (اس سے کہا جائے گا:)آج اپنا اعمال نامہ پڑھ لو، آج تم خود اپنا احتساب کرنے کے لیے کافی ہو‘‘ (بنی اسرائیل:13-14) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:'' مومن کا صحیفۂ اعمال اُس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، تو وہ (فخر سے)کہے گا : آؤ! میرا نامۂ اعمال پڑھو، مجھے یقین تھا کہ مجھے احتساب کا سامنا کرنا ہے، پس وہ بلندوبالا باغ میں پسندیدہ زندگی میں ہوگا، جس کے پھلوں کے خوشے جھکے ہوئے ہوں گے، (اُس سے کہا جائے گا)اُن نیک کاموں کے عوض، جو تم نے (دنیا کی )گزشتہ زندگی میں (آخرت کے لیے) بھیجے تھے، خوب مزے سے کھاؤ اور پیو ۔ اور جس کا اعمال نامہ اُس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گاتو وہ (حسرت کے مارے) کہے گا: کاش! میرا اعمال نامہ مجھے نہ دیا ہوتا اور مجھے اپنے حساب کی بابت کچھ پتا ہی نہ چلتا ، کاش! موت کے ساتھ ہی میرا قصہ تمام ہوجاتا، میرا مال تو میرے کسی کام نہ آیا،نہ ہی میری حجت بازی میرے کسی کام آئی،(حکم صادر ہوگا:)اسے پکڑ کر گلے میں طوق پہناؤ ، پھر اسے جہنم میں جھونک دو، پھر اسے ستر ہاتھ لمبی زنجیر میں جکڑ دو، بے شک یہ بڑی عظمت والے اللہ پر ایمان نہیں لاتا تھا‘‘ (الحاقہ:19-33)
پس قرآن وسنت میں اصلاحِ نفس کے لیے جو نسخۂ کیمیا عطا کیا ہے، وہ ''احتسابِ نفس‘‘ ہے ۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:''دانا شخص وہ ہے ، جو اپنے نفسِ امّارہ کی باطل خواہشات پر قابو پالے اور آخرت کے لیے کام کرے اور عاجز شخص وہ ہے جو اپنی باطل خواہشات کا تابع ہوجائے اور اللہ سے خیر کی تمنا کرے۔ امام ترمذی کہتے ہیں کہ اس کے معنی ہیں :''یوم الحساب سے پہلے خود اپنااحتساب کرنا‘‘ ۔ حضرت عمرؓ بن خطاب نے فرمایا:قبل اس کے کہ (قیامت کے دن) تمہارا حساب کیا جائے، خود ہی اپنا حساب کرلواور ایک بڑے معرکۂ امتحان کے لیے اپنے آپ کو آراستہ کرو اور جس نے دنیا میں اپنا احتساب کرلیا ، آخرت میں اُس کا حساب آسان ہوجائے گا‘‘۔ اور میمون بن مہران نے کہا:''جو شخص اپنا بھی اتنا ہی کڑا مُحاسَبہ نہ کرے ، جتناکہ اپنے مخالف فریق کا کرتا ہے ، تو وہ متقی نہیں ہوسکتا‘‘ (ترمذی:2459)
انسان اپنے کرتوتوں اور سیاہ کارناموں کی ہزار تاویلیں کرے، مگر اس کے ظاہر وباطن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے بعد جتنا وہ خود جانتا ہے، اتنا شاید ہی کوئی جانے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:''بلکہ انسان اپنے آپ پر خود آگاہ ہے، خواہ وہ کتنے ہی عذر (اور حیلے بہانے) تراشتا پھرے‘‘(القیامہ:14-15) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:''جس کا تمہیں علم نہیں، اُس کی ٹوہ میں نہ لگ جاؤ، بے شک کان ، آنکھ اور دل ، ان سب سے روزِقیامت پوچھا جائے گا‘‘ (بنی اسرائیل:36) یعنی اللہ تعالیٰ نے دیکھنے ، سننے ، سوچنے سمجھنے اور عمل کی جو صلاحیتیں انسان کو ودیعت فرمائی ہیں، ان سب کے بارے میں آخرت میں سوال ہوگا کہ اُس کی دی ہوئی نعمتوں کو انسان نے کیسے استعمال کیا، اُس کا سارا خیروشر اسی میں مستور ہے۔ اسی طرح اقتدار واختیار بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے، اب یہ بندے پر منحصر ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مقررہ حدود کے اندر رہتے ہوئے اسے استعمال کرکے اپنی نجات کا سامان کرے یا اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایات اور احکام کے خلاف استعمال کرکے اپنے لیے دائمی عذاب کا ذریعہ بنادے۔علامہ اقبال نے کہا تھا ؎
دل کی آزادی شہنشاہی ، شکم سامانِ موت
فیصلہ ترا تیرے ہاتھوں میں ہے، دل یاشکم