روہنگیا کے مسلمانوں کے بارے میں کہاجاتاہے کہ یہ نسلاً بنگالی مسلمان ہیںجو برما کے صوبہ اراکان میں آکر آباد ہوئے، غالباً انگریز انہیں مزدور کے طور پر اپنے مفتوحہ اور مقبوضہ علاقوں میں لے کر گئے تھے، بعد میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد کچھ بہاری مسلمان بھی ہجرت کرکے ان کا حصہ بن گئے ۔ آج کل یہ مسلمان شدید اذیت کا شکار ہیں۔ لوگوں نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر ان کی مظلومیت کی جو تصاویر آئی ہیں، وہ داعش کے مظالم سے بھی بڑھ کر ہیں۔
یہ لوگ انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں ہیں، گزشتہ برسوں میں ان میں سے بعض نے بحری کشتیوں کے ذریعے تھائی لینڈ کی طرف ہجرت کی کوشش کی ، لیکن تھائی لینڈ کی بحریہ نے انہیں جبراً واپس سمندر میں دھکیل دیا ، کچھ زندہ دریا برد ہوگئے اور کچھ کو انڈونیشیا کی بحریہ نے بچایا۔ حال ہی میں کچھ نے آسٹریلیا کی طرف ہجرت کی کوشش کی ، لیکن انہیںوہاں سے بھی واپس دھکیل دیا گیا۔ ان میں سے کچھ مہاجر بن کر بنگلہ دیش کی طرف گئے ، لیکن وہاں کی حکومت بھی انہیں قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوئی اور نہ ہی وہ بڑے پیمانے پر ان کے لیے پناہ گزیں کیمپ قائم کرنے پر آمادہ ہے۔ برما ،جس کا موجودہ نام میانمار ہے ، کے فوجی حکمرانوں نے انہیں اپنے ملک کی قومیت دینے سے باقاعدہ طور پر انکار کردیا ہے اور ان میں سے کچھ داخلی طور پر بے گھر افراد (IDPs)کی صورت میں ناگفتہ بہ حالت میں کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ صرف چین کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ اُس نے میانمار سے ملحق اپنے سرحدی علاقے میں ان کے لیے کچھ کیمپ قائم کیے ہیں اور ان لوگوں کو عارضی ورک پرمٹ بھی دئیے ہیں، لیکن چین کے ہاں دوسروں کو قومیت (Nationality) دینے کی گنجائش نہیں ہے۔
میانمار کا سرکاری مذہب بدھ مت ہے، جس میں جانوروں کو بھی اذیت دینا جائز نہیں‘ لیکن بدھ مذہبی رہنما یعنی بھکشو اپنے لوگوں کو ان مسلمانوں کی نسل کشی پر آمادہ کرتے ہیں اور ان کے سفاک درندے انتہائی اذیت دے کر ان کو ذبح کرتے ہیں اور ان کے اعضاء کو بکھیر دیتے ہیں تاکہ یہ اذیت ناک مناظر دیکھ کر یہ لوگ ان کے وطن سے نکل جائیں۔ اس کا ہمیں علم نہیں ہے کہ میانمار کے بدھ باشندوں کے دلوں میں اُن کے لیے اتنی شدید نفرت کیوں ہے؟۔ اُمّتِ مسلمہ ویسے بھی اپنی تاریخ کے نازک دور سے گزر رہی ہے اور اپنی تباہی اور بربادی کے اسباب پیدا کرنے میں خود کفیل ہے، ہمیں کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں، لیکن میانمار کے ان بے گھر اور دربدر مسلمانوں کی حالتِ زار انتہائی اندوہناک ہے ، ان مناظر کو دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور دل خون کے آنسو روتا ہے کہ مجموعی طور پر 57مسلم ممالک روئے زمین پر موجود ہیں اور ایک اندازے کے مطابق مسلمانوں کی مجموعی تعداد دنیا بھر میں ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ ہے ، مگر میانمار کے کم وبیش ایک ملین مظلوم مسلمانوں کی حالتِ زار پر نہ کوئی توجہ دینے والا ہے اور نہ ہی ان کی مدد اور بحالی کی کسی کو پروا ہے۔
گزشتہ چند عشروں میں امریکہ اور اہلِ مغرب نے ایشیا اور یورپ میں مسیحیوں کی مدد کے لیے اقوامِ متحدہ کو بھی استعمال کیا۔ اپنی طاقت اور اثرورسوخ کو استعمال کرکے ایسٹ تیمور کے جزیرے کو ریفرنڈم کے ذریعے انڈونیشیا سے الگ کرکے آزاد اور خود مختار ملک بنا دیا۔ اسی طرح سوڈان کو تقسیم کرکے تیل کی دولت سے مالا مال حصے کوریفرنڈم کے ذریعے آزاد مسیحی ریاست بنا دیا‘ لیکن کشمیرکا مسئلہ آج بھی اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر ہے ، اسی طرح آزاد فلسطینی ریاست کا مسئلہ بھی ابھی تک حل نہیں ہوپارہا، لیکن مسلم ممالک عالمی سطح پر وُقعت وتکریم سے محروم ہیں اورعالمی معاملات میں ان کی سرے سے کوئی اہمیت نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اور (اے مسلمانو!) تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جنگ نہیں کرتے ، حالانکہ بے بس کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں میں سے بعض یہ فریاد کررہے ہیںکہ اے ہمارے رب! ہمیں ظالموں کی اس بستی سے نکال لے اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی حمایتی پیدا فرما اور کسی کو اپنے پاس سے ہمارا مددگار بنادے‘‘ (النساء:75) اور رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے :(1)''مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ خود اُس پر ظلم کرتا ہے اور نہ وہ اسے (مصیبت کے وقت) دشمن کے رحم وکرم پرچھوڑتا ہے، جو کوئی (مصیبت کے وقت)اپنے (مسلمان) بھائی کی حاجت روائی کرے گا ، تو اللہ تعالیٰ (مشکل میں) اس کی حاجت پوری فرمائے گا اور جوکو ئی اپنے مسلمان بھائی سے کسی تکلیف کو دور کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کی کسی مصیبت کو دور فرمائے گااور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کے عیوب کی پردہ پوشی کرے گا‘‘(بخاری:2442)۔ (2)''ایک دوسرے سے محبت کرنے ، ایک دوسرے پر رحم کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ نرمی کے ساتھ پیش آنے میں مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی طرح ہے کہ اگر اس کے کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچے ، تو باقی سارا جسم بیداری اور بخار میں مبتلا ہوجاتاہے‘‘(مسلم:2586)۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ امّت مسلمہ اور مسلمانانِ عالم آج میانمار کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کو نہیں پہنچ پارہے اور نہ ہی ان کے لیے عالَمی سطح پر صدائے احتجاج بلند کی جارہی ہے، جیسا کہ اس کا حق ہے۔
ہم ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں کہ امریکہ اور مغربی اقوام نے وحشی جانوروں (Wild Life)، انواع واقسام کی حیاتیاتی مخلوق اور آثارِقدیمہ کے تحفظ کے لیے باقاعدہ ادارے قائم کررکھے ہیں، لیکن مظلوم انسانیت کی چیخوں اور فریادوں کو سننے والا اور ان پر کان دھرنے والا کوئی نہیں ہے۔ ابھی پچھلے دنوںہمارے ملک میں سعودی عرب کی حمایت میں اور تحفظِ حرمینِ طیبین کے نام پر کانفرنسوں، سیمیناروں اور ریلیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری تھا اور یہ سب مساعی قابلِ تحسین ہیں ، لیکن روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کے لیے وہ ہمدردی دیکھنے میں نہیں آئی، جبکہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:(1)''کائنات کے اس پورے نظام کی بساط کو لپیٹ دینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک (مظلوم) مسلمان کے قتلِ ناحق کے مقابلے میں معمولی بات ہے‘‘(سنن ترمذی:1395)۔ (2)عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیںکہ میں نے رسول اللہﷺ کو کعبۃ اللہ کے طواف کے دوران یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:''(اے کعبۃ اللہ!) تو کتنا پاکیزہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے اور تیری حُرمت کس قدر عظیم المرتبت ہے، (مگر )اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں محمد (ﷺ) کی جان ہے ، اللہ تعالیٰ کے نزدیک (بے قصور) مومن کی جان ومال کی حُرمت تجھ سے بھی زیادہ ہے اور یہ کہ ہم مومن کے بارے میں (ہمیشہ) اچھا گمان رکھیں‘‘ (سنن ابن ماجہ:3931)
پاکستان میں تو صرف احتجاجی ریلیاں نکالی جاسکتی ہیں، جن میں محض اپنے جذبات کا اظہار مقصود ہوتاہے ، کیونکہ ہماری بے توقیری کی وجہ سے عالمی سطح پر اس کے اثرات مرتب نہیں ہوتے، یعنی نوٹس تک نہیں لیا جاتا۔ لیکن اُمّتِ مسلمہ کے وہ باشعور اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد جو امریکہ اور یورپ میں باعزت اور محفوظ زندگی گزار رہے ہیں، انہیں چاہیے کہ روہنگیا مسلمانوں کی حالتِ زار کی طرف عالَمی برادری ، اقوامِ متحدہ اور حقوقِ انسانی کی تنظیموں کو متوجہ کرنے کے لیے کوئی منظم تحریک برپا کریں ، شاید ان کی کوئی اشک شوئی ہوسکے۔انہیں چاہیے کہ ان کی بحالی اور حالتِ زار کے مشاہدے کے لیے ایک حقائق جمع کرنے والاوفد (Facts Finding Group)بنا کر بھیجیں تاکہ مصدقہ حقائق دنیا کے سامنے آسکیں، ان مظلوم مسلمانوں کی اخلاقی اور علامتی حمایت بھی ہوسکے اور کسی حدتک میانمار کی ظالم حکومت کو تَرَحُمّ پر آمادہ کیا جاسکے۔ اور یہ بھی ضروری ہے کہ اُن کے لیے عالمی سطح پر ایک فنڈقائم کیاجائے اور حکومتِ پاکستان کوچاہیے کہ کم از کم اس سلسلے میں پہل کرے اور دوسرے مسلم ممالک کو بھی اس کارِ خیر پر آمادہ کرنے کے لیے سفارتی سطح پر اقدامات کرے۔ حال ہی میں پاکستان نے انسانی بنیادوں پرنیپال کے زلزلے کے متاثرین کے لیے امداد فراہم کرنے میں پہل کی تھی اور یہ ایک اچھا اقدام تھا۔معلوم ہوا ہے کہ ترکی کی حکومت نے سرکاری سطح پر مؤثر صدائے احتجاج بلند کی ہے، یہ بھی غنیمت ہے۔