"MMC" (space) message & send to 7575

ہتکِ عزت

اللہ تعالیٰ کا ارشادہے(1)''اور بے شک ہم نے بنی آدم کو اپنی مخلوق میں سے بہت سوں پر عزت بخشی اور ان کو برّو بحر میں سواریاں عطا کیں اور ہم نے اپنی مخلوق میں سے بہت سوں پر انہیں فضیلت عطا کی‘‘ (بنی اسرائیل: 70)۔ (2) ''بے شک ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا، پھر (اس کی بداعمالیوں کے سبب) اُسے سب سے نچلے طبقے میں لوٹادیا،ان لوگوں کے سوا جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے‘ سو اُن کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے‘‘ (التین:4-5)۔(3)''اور بے شک ہم نے جہنم کے لیے بہت سے ایسے جن اور انسان پیدا کئے جن کے دل ہیں مگر وہ اُن سے سمجھتے نہیں اور اُن کی آنکھیں ہیں مگر وہ اُن سے دیکھتے نہیں اور اُن کے کان ہیں مگر وہ اُن سے سنتے نہیں،وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ اُن سے بھی بدتر ہیں، وہ غفلت میں ہیں‘‘ (الاعراف:179)۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ اُن کی یہ صلاحیتیں مفلوج اور ناکارہ ہوچکی ہیں ،بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ ان خداداد صلاحیتوں کو حق سمجھنے ، آیاتِ الٰہی کو نگاہِ عبرت سے دیکھنے اور پیغامِ حق کو قبولیت کی نیت سے سننے پر آمادہ نہیں ہیں،یعنی عملی اعتبار سے اُن میں اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں ہے،بلکہ وہ اس لیے جانوروں سے بدتر ہیں کہ جانور تو تعقّل وتدبّر کی صلاحیتوں سے محروم ہیں اور یہ ان صلاحیتوں کے ہوتے ہوئے بھی ان سے کام نہیں لیتے۔
اسلام نے انسانیت کو عِزّوشرَف سے نوازا ہے اور اسے افضل المخلوقات قرار دیا ہے۔اسی طرح انسان کی جان ومال اور آبرو کی حرمت کی پامالی کو حرام قرار دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں آبرو کی حرمت اور جان کی حرمت کو ایک درجہ میں قرار دیا ہے اور کسی کو یہ حق نہیں دیا کہ دوسرے کی اہانت کرے، اسے بے توقیر کرے اور اس کی عزت کو پامال کرے۔اسلام نے انسان کی عزّتِ نفس کے تحفظ کے لیے ایک حد بھی مقرر کی ہے، جسے حدِ قذَف کہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مرد یا عورت پر زنا کی تہمت لگائے اور عدالت میں چار گواہوں کے ذریعے اُسے ثابت نہ کرسکے،تو اُسے اسّی (80)کوڑے لگائے جائیں گے۔ یہ سزا سورۃ النور کی آیت نمبر4میں مذکور ہے۔
اس کے علاوہ اسلام نے دوسروں کی عزّتِ نفس کے تحفظ کے لیے متعدد احکام بیان کئے ہیں ،دنیاوی اعتبار سے ان احکام کو اخلاقی تعلیمات کے درجہ میں رکھا ہے مگر اُخروی اعتبار سے اس کے لیے بڑی وعیدیں ہیں ،اِن اخلاقی احکام میں دوسروں کا تمسخر اڑانا ،دوسروں پر طعن وتشنیع اور اُن کی عیب جوئی کرنا، دوسروں کو بُرے ناموں سے پکارنا،ثبوت وشواہد کے بغیر دوسروں کے بارے میں بدگمانی کرنا، دوسروں پر جھوٹ بولنا، دوسروں کے پوشیدہ احوال کی ٹوہ لگانا اور بے آبروکرنے کے ارادے سے اُن کا تجسّس کرنا،غیبت کرنا اور بہتان طرازی‘ سب شامل ہیں۔ سورۃ الحجرات کے دوسرے رکوع میں اور سورۃ الہمزۃ میں اس کے بارے میں سخت وعیدیں ہیں۔ قرآن وحدیث کی اصطلاح میں رسالت مآب ﷺ کی زبانِ مبارک سے ملنے والی اجر کی بشارت کو ''وَعَد‘‘کہتے ہیں اور عذابِ جہنم کے ڈر سنانے کو ''وعید‘‘ کہتے ہیں۔
یہ تمہیدی کلمات میں نے اس لیے عرض کیے کہ ہمارے وطن عزیز میں ایک قانون ہے جسے Defamation Actکہتے ہیں،اردو میں اسے ''ازالۂ حیثیتِ عرفی ‘‘کہاجاتا ہے،قانون میں کسی کی شخصی اہانت کی سزا بھی مقرر کی گئی ہے اور بعض اوقات ہم یہ بھی پڑھتے ہیں کہ کچھ لوگ کسی بات کو اپنی اہانت تصور کرتے ہوئے فریقِ مخالف سے غیر مشروط معافی کا مطالبہ کرتے ہیں ،لیکن عملاًہم نے اس قانون کو کبھی نافذ ہوتا ہوا نہیں دیکھا،صرف چند ہی مثالیں ہوں گی جہاں الزام لگانے والے نے عدالت کے روبرو فریقِ مخالف سے معافی مانگی ہے ۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ جناب عمران خان نے سابق چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری اور سابق نگران وزیرِ اعلیٰ پنجاب جناب نجم سیٹھی پر 2013ء کے قومی انتخابات میں اثر انداز ہونے (Riging)کا الزام لگایا اور اسے تسلسل کے ساتھ دہراتے رہے۔ ان دونوں حضرات نے عدالت میں جناب عمران خان کے خلاف ازالۂ حیثیتِ عرفی کا دعویٰ کیا اور غیر مشروط معافی نہ مانگنے کی صورت میں بھاری معاوضے کا مطالبہ کیا ہے ۔یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ کس کی عزت وحُرمت کی قیمت یا بدل کیا ہے اور عدالت کے پاس اس کا معیار کیا ہے،لیکن تاحال ان دونوں حضرات کے مقدمات زیریں عدالتوںمیں ہمارے روایتی ضابطۂ قانون (Procedural law)کے تحت چیونٹی کی رفتار سے چل رہے ہیں اور شاید عرصۂ دراز تک چلتے رہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ وہ چیف جسٹس جو کبھی توہینِ عدالت کے تحت ایک دو منٹ یا چند سیکنڈ کی سزا دے کر وقت کے منتخب وزیرِ اعظم جناب سید یوسف رضا گیلانی کو معزول کرسکتے تھے ،آج انہیں اسی آزاد عدلیہ کی ایک ماتحت عدالت سے انصاف نہیں مل رہا یا عدالت اُن کے فریقِ مخالف کو سنجیدگی کے ساتھ مقدمے کی کارروائی میں حصہ لینے پر مجبور نہیں کر پارہی ،تو کسی اور کو حقیقی اور مکمل انصاف ملنے کی توقع کیسے قائم کی جاسکتی ہے؟ یہ چند سطور میں نے اس لیے لکھیں کہ آئے دن ہم اس طرح کے واقعات سنتے رہتے ہیں ،بعض حضرات تو ایک لیگل نوٹس کے ذریعے غیر مشروط معافی مانگنے یا ہرجانے کا مطالبہ کرکے خاموش ہوجاتے ہیں اور اپنی اشک شوئی کے لیے اسی کو کافی سمجھتے ہیں،لیکن جو حقیقتاً مقدمہ دائر کرتے ہیں، اس کے بھی کوئی منطقی نتائج سامنے نہیں آتے۔
آئے دن کسی نہ کسی کی پگڑی اچھالی جاتی ہے ،اس کے باوجود ہماری پارلیمنٹ عام شہریوں کی عزتِ نفس کے تحفظ کے لیے کوئی واضح قانون بنانے کے لیے تیار نہیں‘ تو لوگوں کی عزتوں کا تحفظ کیسے ہوسکتا ہے ،اسی لیے جس کے بارے میں جوکسی کے جی میں آئے لکھ اور بول دیتا ہے اور دوسرے کی عزت سے کھیلتا ہے ،مگر اس کے ازالے کی کوئی فوری صورت ہمارے نظام میں موجود نہیں ہے ۔اسلام کی رو سے کسی کی عزت سے کھیلنا ،کسی کا تمسخر اڑانا ،کسی کی عیب جوئی کرنا، کسی کی غیبت کرنا،کسی پر طعن وتشنیع کرنا، کسی پرناحق جھوٹ بولناشرعی اور اخلاقی اعتبار سے انتہائی معیوب اور گھنائونے جرائم میں سے ہے،لیکن شریعت نے حدِ قذف کے سوا ان کے لیے کوئی معیّنہ سزا مقرر نہیں فرمائی ،البتہ عذابِ آخرت اور اُخروی محاسبے کی وعیدیں بے شمار ہیں ،لیکن وہ ان پر اثرانداز ہوسکتی ہیں جن کا آخرت اور اللہ تعالیٰ کی عدالت پر یقینِ کامل ہو،ورنہ ''مردِناداں پر کلامِ نرم ونازک بے اثر‘‘۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے ؟،صحابہ نے عرض کی:یارسول اللہ! ہمارے نزدیک مفلس وہ ہے کہ جس کے پاس درہم ودینار اور دنیوی سازوسامان نہ ہو(یعنی وہ قلاش ہو)، آپﷺ نے فرمایا:میری امت میں (بڑا) مفلس وہ ہوگا جو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے پاس نماز، روزہ اور زکوٰۃ (یعنی اعمالِ صالحہ )کا ذخیرہ ہوگا ،لیکن اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر زنا کی جھوٹی تہمت لگائی ہوگی ،کسی کا (ناحق)مال کھایا ہوگا ،کسی کا (ناحق) خون بہایا ہوگا،کسی کو (ظلماً)مارا پیٹا ہوگا، عدالتِ الٰہیہ کے حضور اس کے اِن جرائم کے عوض اُس کی نیکیاں یکے بعد دیگرے ان سب کو منتقل کی جائیں گی (جن کی اس نے حق تلفی کی ہوگی )،پس جب (دوسروں کے حقوق اس کے ذمے ابھی باقی ہوں گے اور )اس کی نیکیوں کا ذخیرہ ختم ہوچکا ہوگاتو ان حقوق کی تلافی کے عوض اس کی نیکیاں ان کو منتقل کی جائیں گی اور اُن مظلومین کے گناہ اِس کے نامۂ اعمال میں منتقل کردیے جائیں گے اور اس کے منہ پر مارے جائیں گے،پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا‘‘ (سنن ترمذی:2418)۔ 
اس حدیث کا واضح پیغام یہ ہے کہ اگر کوئی کسی کی حق تلفی کر کے یا کسی پر ظلم کر کے یا کسی کو جسمانی اور روحانی اذیت پہنچاکر مکروفریب کے ذریعے یا طاقت اور اثرورسوخ کے ذریعے یا دادا گیری اور جبروجور کر کے مواخذے سے بچ جائے گا،تو یہ اس کی نادانی اور بھول تو ہوسکتی ہے، وہ اسے اپنی کامیابی ہرگز تصور نہ کرے ،قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی ایک حتمی اور قطعی عدالت ضرور لگے گی ،جہاں کوئی حیلہ اور مکروتدبیر کام نہیں آئے گی ،نہ ہی کوئی جبر وجور کے اثر و رسوخ کے ذریعے اپنے اعمال کے انجامِ بد سے بچ پائے گا۔یہ انصاف کا دن آنا ہے اور ضرور آئے گا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور اے ایمان والو!ہمارے دیے ہوئے مال میں سے کچھ ہماری راہ میں (اپنی خوشی سے) خرچ کرو ،قبل اس کے کہ (حتمی اور قطعی فیصلے کا)وہ دن آجائے کہ جہاں نہ لین دین کام آئے گا،نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش کا چلن ہوگا‘‘ (البقرہ:254)۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں