قارئین کرام سے معذرت!بات سطحی سی ہے اور غیر علمی ہے، مگر اس میں اہل پاکستان کے لئے کسی حد تک طَمانیت کا پہلوموجودہے ۔ہم الیکٹرانک میڈیا پر اکثر پاکستان پر لَعَن طَعن سنتے رہتے ہیں۔آہنی نوک دار زبانیں پاکستان کے چہرے کو ایسے نوچتی اور حَظّ اٹھاتی ہیں، جیسے کسی کے آہنی نوک دار ناخن ہوں اور وہ دوسرے کے چہرے کو نوچ کر لہولہان کردیں، اسے حدیث مبارک میں ''خَمش اور خَموش‘‘سے تعبیر فرمایا گیا ہے ۔عربی لغت میں لکھا ہے :''خَمش چہرے پر ایسی خراشیں لگانے کو کہتے ہیں، جس پر کوئی قصاص نہ ہو‘‘،پاکستان کی اِس بڑے پیمانے پر بے توقیری پر بھی کوئی تعزیر یا تادیب نہیں ہے،کیونکہ ہمارے حکمرانوں اور قانون سازوں کو(Parliamenterians)کو اپنی ناموس بچانے سے ہی فرصت نہیں ملتی،ان کے پاس پاکستان کی ناموس کاتحفظ کرنے کی فرصت کہاں؟۔ملا عمر اور ملک اسحاق کا بھلا ہو کہ انہوں نے ہمارے الیکٹرانک میڈیا کابحرِ عمیق جیسا پیٹ بھرنے کے لیے دو دن کی غذا فراہم کردی ،اس عرصے میں بُہتوں نے سکون کا سانس لیا ہوگا۔
میں جس اچھی علامت کی طرف اپنے معزز قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں،وہ یہ ہے کہ عیدالفطر کے فوراً بعد مجھے اپنے خاندان کے ساتھ اپنے فرزند ضیاء الرحمن مرحوم کے ایصالِ ثواب کی تقریب میں شرکت کے لئے20جولائی کو مانسہرہ و ایبٹ آباد جانے کا اتفاق ہوا۔میری مختصر سی فیملی (بیوی،بہواور مرحوم بیٹے کے دو بچے)میرے ہمراہ تھے۔ میرے ایک سعادت مند بھتیجے ڈاکٹر نعیم الرحمن ہمیں اسلام آباد ائیرپورٹ پر لینے آئے۔ پروگرام یہ تھا کہ بچوں کومری اور نتھیا گلی کی سیر کراتے ہوئے ایبٹ آباد جائیں گے ۔لیکن19جولائی کی شام کو ہی ٹیلیویژن اسکرین پر یہ ٹکر چل رہے تھے کہ ایک لاکھ گاڑیاں مری کے راستے پر رواں دواں ہیں اور اپیل کی جارہی تھی کہ باقی لوگ مری کے لیے عازمِ سفر نہ ہوںاور یہ بھی کہ اپنی گاڑیوں میں وافر پٹرول بھر کر لائیں، کیونکہ مری میں پٹرول حسبِ ضرورت دستیاب نہیں ہے ۔چنانچہ ہم نے براہِ راست ایبٹ آباد جانے کا فیصلہ کیا ۔
مگر ہری پوراوراس سے آگے ٹریفک کی لمبی لائنیں تھیں ،ٹریفک سُست رفتاری سے چل رہی تھی ،ایبٹ آباد سے کچھ پہلے ٹریفک پولیس نے مہارت دکھائی اورجانے والی دو ڈھائی لائنوں کو روک کر ایک لائن بناکر آگے روانہ کیا اور اس سے ٹریفک کی روانی قدرے بہتر ہوگئی۔پھر ایبٹ آباد شہر میں اور مانسہرہ اور اس سے آگے تک ٹریفک کی لمبی لائنیں چل رہی تھیں ،معلوم ہوا کہ بالاکوٹ ،شوگراں،ناران اور جھیل سیف الملوک تک اسی طرح سیاحوں کا بے پناہ رش تھا۔ ظاہر ہے ہزاروں کاریں،سوزکی ہائی روف اورکوچزالغرض ہرطرح کی گاڑیاں رواں دواں تھیں۔لوگوں نے بتایا کہ تمام ہوٹل بھرے ہوئے ہیں اور لوگ کھلی فضامیں بھی راتیں گزار رہے ہیں۔مجھے یہ اچھی علامت محسوس ہوئی کہ آپریشن'' ضرب ِعَضب‘‘ کے بعد امن وامان بحال ہوا ہے ،لوگوں کے اندر اعتماد اور سلامتی کا احساس پیدا ہوا ہے ،خوف اور دہشت کی کیفیت سے نجات ملی ہے اور یہی سبب ہے کہ لوگ خاندان کے افراد سمیت ،جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں ،سیاحت کے لیے نکلے ہیں۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمارا میڈیافَقروافلاس کی جو تصویر بکثرت دکھاتا ہے ،ہوسکتا ہے یہ تصویر جزوی طور پر درست ہو،مگر یہ ہمارے معاشرے کی مکمل تصویرنہیں ہے ۔الحمد للہ علیٰ اِحسانہٖ لاکھوں لوگوں کا سیاحت کے لیے نکلنا خوش حالی کی ایک خوش گوار علامت ہے اور ہمیں پاکستانی معاشرے کا یہ رُخ بھی دنیا کو دکھانا چاہیے ۔
آپریشن ''ضَرب عَضب‘‘بنیادی طور پر پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جناب جنرل راحیل شریف کا فیصلہ تھا ،یہی وجہ ہے کہ بجائے اس کے کہ ہماری سیاسی قیادت قوم کو اعتماد میں لے کر اس کا اعلان کرتی اور اسے اَوَّلیّت کا شرف حاصل ہوتا ،کیونکہ جمہوری ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے ، پاکستان میں اس اقدام کا اعلان سب سے پہلے آئی ایس پی آر نے کیا، یعنی اِقدام اور اولویت (Initiatile)کا اِعزاز مسلح افواج نے حاصل کیا اور بعد میں خواستہ وناخواستہ ہماری سیاسی قیادت حتیٰ کہ جناب عمران خان نے بھی بادلِ ناخواستہ اسے قبول(Own) کیا اور پھر اس کے بطن سے ''نیشنل ایکشن پلان‘‘اور اکیسویں آئینی ترمیم ظہور پذیر ہوئی۔تاحال جنابِ جنرل راحیل شریف ڈرائیونگ سیٹ پر یعنی اس حوالے سے کمانڈنگ پوزیشن میں نظر آرہے ہیں اور وہ عالمی سیاسی وفوجی قیادتوں کو اس کے محرکات ،ثمرات اور نتائج سے آگاہ کر رہے ہیں،گویا وہ بیک وقت سیاسی وعسکری کردار ادا کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ہماری عسکری قیادت کا اس طرح پر عزم ہونا یہ ایک اچھی علامت ہے ،ورنہ نیم دلانہ اقدامات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتے۔
ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان کی حکومت اور ریاست معاشی اعتبار سے ہمارے مقابلے میں بہت مضبوط او رمستحکم ہے ،لیکن آج بھی وہاں ممبائی (Bombay)اور دیگر بڑے شہروں میں لوگ فٹ پاتھوں پر سوتے ہیں ،قضائے حاجت کے لیے باپردہ مقامات دستیاب نہیں ہیں، اب سنا ہے کہ نریندر سنگھ مودی کی حکومت نے بتدریج دیہات میں سرکاری طور پر ایک ایک بیت الخلاء بناکر دینے کا منصوبہ بنایا ہے ،یہ منصوبہ کب پایۂ تکمیل تک پہنچتا ہے ،اس کا ہمیں علم نہیں ہے ۔اس کے برعکس پاکستان میں حکومت ا ورریاست کی مالی حیثیت اگرچہ مستحکم نہیں ہے ،لیکن عوام میں بڑے پیمانے پر تموُّل اور معاشی خوش حالی کی علامات موجود ہیں اور جابجااس کے مَظاہر واضح طور پر نظر آتے ہیں،اس پر ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے اور دنیا کو پاکستان کا کوئی اچھا رُخ بھی دکھانا چاہیے،آج پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کوئی فٹ پاتھ پر سوکر رات نہیں گزارتا ،یہ سب اچھی علامات ہیں ۔
امن وسلامتی ،بے خوفی اور احساسِ تحفظ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے ۔کچھ عرصہ پہلے ہم بڑے پیمانے پر احساسِ عدمِ تحفظ اور خوف ودہشت کی کیفیت سے دوچار تھے ۔لیکن الحمد للہ آج صورتِ حال اگرمکمل طور پر نہیں ،تو کافی حد تک بہتر ہے ۔گزشتہ رمضان المبارک بالعموم پورے ملک میں اور بالخصوص کراچی میں ماضی کے کئی سالوں کے مقابلے میں کافی حد تک خیریت سے گزرا،گزشتہ سالوں کے مقابلے میں کاروبار کا حُجم (Volume)زیادہ رہا ہے۔اِغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے بڑے واقعات نہیں ہوئے ، دو کروڑ کی آبادی والے شہر میں اِکّا دُکّا بدنظمی کے واقعات کا ہونا بعید از قیاس نہیں ہے اور معمولی شرح سے اس طرح کے واقعات دنیا کے ہر سماج ، منظَّم اور پابندِ آئین وقانون معاشرے میں بھی رونما ہوتے رہتے ہیں ۔قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے ایک بے قصور انسان کے قتل کوپوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ایک بے قصور مسلمان کے ناحق قتل کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک پورے نظامِ کائنات کاخاتمہ کردینا زیادہ آسان بات ہے ‘‘۔لیکن انسانی معاشرہ جرائم سے مکمل طور پر کبھی بھی پاک نہیں رہا ،عہدِ رسالت مآب ﷺ کا نورانی دور ایک استثناء ہے۔
اس سے قبل بھی میں لکھ چکا ہوں کہ سورۂ القریش میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہلِ قریش کو اپنا یہ احسان یاد دلایا کہ جس کعبۃ اللہ کامُتَولّی ہونے اوراس سے نسبت کے سبب تمہارا عالَم عرب میں احترام ہے اورلوٹ ماروڈاکہ زنی کے کلچر کے باوجود تمہارے تجارتی قافلے بے خوف وخطر گرم و سرد موسم میں تجارتی سفر کرتے ہیں ،تو کم از کم اس احسان کے سبب اسی کعبہ کے رب کی عبادت کرو۔اور سورۂ النحل آیت 112میں اللہ تعالیٰ نے خوف اور بھوک کے تسلُّط کو عذاب سے تعبیر فرمایا اور اس کا سبب انعاماتِ الٰہیہ کی ناشکری کو قرار دیاہے۔پس میری ساری گزارشات کاعاجزانہ مقصد یہ ہے کہ ہمیں ایک آزاد وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے جو بہت بڑی نعمت عطا فرمائی ہے ،اس پراللہ تعالیٰ کا دل وجان سے شکر گزار ہونا چاہیے ،ہمارے خون کاہر قطرہ ، ہمارے بدن کا ہر رُواں اور ہمارے وجود کا انگ انگ مجسَّم تشکر بن جانا چاہیے ۔ہم نے اس وطن کے ساتھ تسلسل کے ساتھ جو جَفا اور ناقدری کی ہے ،اس کا سلسلہ رُک جانا چاہیے اور اس کی عزت و وقار اورناموس کو سربلند رکھنے کے لیے متحداور منظم ہوکرجِدّوجُہْداور سَعی کرنی چاہیے۔ہم اکثر شِکوہ کُناں رہتے ہیں ، شکایات کا انبار ہر وقت ہمارے ذہن میں تازہ رہتا ہے اور یہ کسی حد تک درست بھی ہے ،لیکن اس رَوِش کو اس حد تک اپنے آپ پر مُسَلَّط نہیں کرنا چاہیے کہ ہم بحیثیتِ قوم یاس اور قنوطیت کا شکار ہوجائیں۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہمیں حکومت اور ریاست کے فرق کو ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہیے ،ہم اصولوں کی بنا پر حکومت سے اختلاف کرسکتے ہیں ،ان کے احکام کو قرآن وسنت کی روشنی میں چیلنج کرسکتے ہیں اور آئین وقانون میں دیے ہوئے طریقۂ کار کے مطابق پرامن ذرائع سے حکومت کو تبدیل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں ،اِسے ہمارے دستوری نظام نے جائز قرار دیا ہے ۔لیکن ریاست اور مملکت سے جفااوربغاوت کی کوئی گنجائش نہیں ہے ،ریاست سے وفاداری کا رشتہ مستحکم ،غیر متزلزل اور غیر مشروط ہونا چاہیے۔