"MMC" (space) message & send to 7575

برطانیہ میں بارہ روز

میں 23اگست کو برطانیہ روانہ ہوا اور 5ستمبر کو واپسی ہوئی ، یہ برطانیہ کا بارہ روزہ دور ہ تھا ۔ اس کا بنیادی مقصد جماعت اہلسنت برطانیہ کے زیراہتمام''انیسویں سالانہ انٹرنیشنل سنی کانفرنس ‘‘میں کلیدی خطاب تھا۔ یہ کانفرنس 30اگست 2015کو جامع مسجد گھمکول شریف برمنگھم میں منعقد ہوئی، یہ جماعتِ اہلسنت برطانیہ کا سالانہ بڑا اجتماع ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ برمنگھم ، مانچسٹر ، لندن ، بریڈفورڈ، بلیک برن اور کارڈف کے علاوہ دیگر مقامات پر مختلف اجتماعات اور استقبالیہ تقریبات میں اظہارِ خیال کے مواقع ملے ۔ 
برطانیہ میں ہر پاکستانی کا پہلا سوال پاکستان کی سیاسی صورتِ حال ،امن و سلامتی اور ضربِ عضب کے بارے میں ہوتا ہے کہ آیا یہ نتیجہ خیز ثابت ہو گی یا نہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ ضربِ عَضب پراصولی طور پر تو قومی اتفاقِ رائے یقینا ہوا ہے ، پاکستان کی ساری پارلیمانی سیاسی قیادت نے اس کی توثیق کی ہے اور بظاہر سیاسی و دفاعی قیادت متفق نظر آتی ہے ، چیف آف آرمی اسٹاف جناب جنرل راحیل شریف کے عزم صمیم اور فعّالیت نے قوم میں اُمید کی کرن پیدا کی ہے ، کراچی میں صورتِ حال کافی بہتر ہوئی ہے ، لیکن جب سیاسی تطہیر اور کرپشن کے خلاف رینجرز ، ایف آئی اے اور نیب کارروائی کرتے ہیں تو بالخصوص سندھ کی سیاسی قیادت اس پر رد عمل کا اظہار کرتی ہے اور اسے انتقامی کارروائی سے تعبیر کیا جاتا ہے ، اس سے ایک منفی تاثر پیدا ہوتا ہے ۔ اسی طرح ہر سیاسی جماعت کی خواہش ہوتی ہے کہ کرپشن اور دہشت گردی کے َسوتے اس کے دائرہ اختیار اور دائرہ عمل سے باہر تلاش کیے جائیں اور اسے ہر الزام سے پاک وصاف قرار دے دیا جائے ، یہ ایک نقطۂ اختلاف ہے ، جس کا ارتعاش آپ لوگ پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات میں دیکھتے ہوں گے ۔ 
جماعتِ اہلسنت برطانیہ کے سرپرست ِ اعلیٰ علامہ مفتی گل رحمٰن قادری ، امیر علامہ مفتی یار محمد قادری اور ناظمِ اعلیٰ علامہ غلام ربانی افغانی اور ان کی ٹیم کے ارکان میں علامہ سید ظفر اللہ شاہ ، حافظ محمد سعید مکی اور مولانا نصیر اللہ نقشبندی کا فی فعال اور متحرک لوگ ہیں ۔ علامہ غلام ربانی افغانی اردو کے مایہ ناز خطیب ہیں اور انگلش و عربی زبان میں بھی انہیں خطابت اور تکلُم پر یکساں عبور حاصل ہے ۔ کانفرنس میں پیرِ طریقت علامہ علاؤ الدین صدیقی ، علامہ سید محمد ہاشمی میاں اور بریلی شریف سے علامہ منان رضا خان عرف منانی میاں سمیت بہت سے عالمی شہرت یافتہ مشائخ ، عمائدین اور مقررین نے شرکت کی ۔ شیخِ طریقت علامہ علاؤ الدین صدیقی کا اپنا ٹیلی ویژن چینل'' نور‘‘ ہے ، جو مغرب میں کافی دیکھا جاتا ہے ، برطانیہ میں اُمّہ ٹیلی ویژن اور تکبیر ٹیلی ویژن نیٹ ور ک بھی مصروفِ عمل ہیں اور عالمی سطح پر دینی حلقوں میں کیو ٹی وی اور مدنی چینل کا دائرہ ٔ ناظرین بھی کافی وسیع ہے ۔ 
انٹر نیشنل سنی کانفرنس میں کلیدی خطاب کے دوران میں نے جماعت اہلسنت کی قیادت اور وہاں کی دینی تنظیمات اور مساجد و اسلامی مراکز کے منتظمین کو چند اہم امور کی طرف متوجہ کیا ۔ ایک تو یہ کہ ائمہ و خطبائے کرام کے لیے تربیتی نشستوں میں ورکشاپس کا اہتمام کیا جائے ۔ ہمارے لوگ برطانیہ میں رہتے ہوئے بھی اپنے دائرے میں محدود رہتے ہیں اور امتِ مسلمہ کے حوالے سے عالمی تحریکات کا انہیں کوئی علم نہیں ہوتا ، لہذا اس کے بارے میں آگہی پیدا کرنا نہایت ضروری ہے ، یہ بھی لازم ہے کہ ان تحریکات کے محرِّکات اور اسباب و عوامل کا تجزیہ کیا جائے۔ معاملات کو سمجھنے کے لیے گہرائی(Depth) میں جانا پڑتا ہے اور آپ کی نظر اور مشاہدے میں گیرائی (Comprehenciveness) بھی ہونی چاہیے ۔ امریکا ، برطانیہ اور اہلِ مغرب کے اصحابِ فکر و نظر سے یہ سوال ضرور کیا جانا چاہیے کہ امریکا کے تضادات اور مختلف معیارات بہت سی عالمی خرابیوں اور فساد کا سبب ہیں ۔ وہ جب چاہتا ہے کسی طبقے کو اپنے مقاصد کے حق میں استعمال کرنے کے لیے گلے لگا لیتا ہے اور جب چاہتا ہے حقارت سے ٹھکرا دیتا ہے ، جہادِ افغانستان سے لے کر لبیا میں کرنل قذافی کے زوال اور شام میں نصیری حکومت کے خلاف مسلح تحریک میں یہی تضاد کارفرما ہے ۔اور اب داعش کے بارے میں سوالات اٹھ رہے ہیں ۔ 
ماضی کے فرعونوں کی طرح امریکا کا موٹو بھی ''انا ربُّکم الاعلیٰ‘‘ یعنی Only I am Your Supereme Lordہے ۔ جب بھی کوئی مقتدرعالمی قوت اپنے آپ کو معیارِ حق سمجھ لیتی ہے ، تو پھر دلیل واستدلال اور معقولیت (Rationality)کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اور یہی رویہ تمام عالمی مسائل کی جڑ ہے ۔ میں نے بتایا کہ آپ مغرب کے اہل ِ فکرو نظر سے پوچھیں کہ آج کی دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ جانی ومالی نقصان پاکستان نے اٹھایا ہے ، پاکستان کے دفاعی اداروں اور عامّۃالناس کا مجموعی جانی نقصان پچاس سے ساٹھ ہزار نفوس پر مشتمل ہے اور مالی نقصان کا تو آج تک صحیح تخمینہ لگایا ہی نہیں گیا، لیکن اس کے باوجود عالمی استعماری قوتیں یہود وہنود کے ساتھ مل کر سب سے زیادہ الزامات پاکستا ن پر ہی لگاتی ہیں اور صفائی پیش کرتے کرتے ہماری ایک نسل جوانی کی منزل سے گزر کر بڑھاپے کی دہلیز تک پہنچ گئی ہے، اسی رویے اور سوچ نے عالمی سطح پر نا انصافی کو جنم دیاہے۔ ظاہر ہے کہ طاقت کے بل پر آپ کسی کی گردن تو جھکا سکتے ہیں، لیکن دل و دماغ میں جگہ نہیں بنا سکتے اور امریکا کی قیادت میں مغربی قوتیں اِس ذہنی نِہاد (MindSet) سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔اسی ناانصافی کا شاخسانہ ہے کہ مختلف ادوار کی پاکستانی حکومتیں توخواستہ و نا خواستہ امریکہ کا ساتھ دیتی رہیں ، لیکن عوا م دل و جان سے ان پالیسیوں کا کبھی ساتھ نہ دے سکے ۔ 
میں نے تجویز پیش کی کہ برطانیہ میں ہماری مساجد اور اسلامی مراکز کے منتظمین کے لیے بھی تربیتی ورکشاپس کا انعقاد از حد ضروری ہے ، پاکستانی مسلمانوں نے بلاشبہ عالیشان مساجد و مراکز تعمیر کیے ہیں ، لیکن اُ ن سے دینی تعلیم و تربیت اور تزکیے کے شعبوں میںپوری استعداد کے مطابق کام نہیں لیا جا سکا ، یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ اسی طرح برطانیہ اور مغرب کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم پانے والے نوجوانوں کے ذہنوں میں جو اضطراب اور اشتعال ہے ، اسے بھی مثبت اور تعمیری رُخ پر ڈالنے کی اشد ضرورت ہے ۔ آج ہمیں الحاد و انحراف ، تجدُّد پسندی ، اباحت ِ کلی اور دینی و اخلاقی اقدار سے آزاد لبرل ازم کے فلسفے کا سامنا ہے ، علما ء و خطبائے کرام کی اس سلسلے میں آگہی نہایت ضروری ہے اور ہمیں ایک جدید علم الکلام اور علم المناظرہ کی ضرورت ہے ، جو مخاطَب پر دھاک بٹھانے اور اس پر خوف طاری کرنے کی بجائے اسے قائل کرنے کی استعداد رکھتا ہو ۔
مغرب میں بسنے والے پاکستانی اہل ثروت یقینا دین ، فلاح و رفاہ (Welfare) اور صدقات و خیرات (Charity)کے نام پر دل کھول کر عطیات دیتے ہیں۔ پاکستان میں سیلاب یا زلزلے کی صورت میں کوئی ناگہانی آفت آئے ، تو متاثرین کی مدد کے لیے اپنا دل کشادہ رکھتے ہیں اور اپنے خزانوں کی تجوریاں کھول دیتے ہیں ، لیکن بعض صورتوں میں ان کے بیش بہا عطیات اپنے حقیقی مصارف پر صرف نہیں ہو پاتے ہیں، انہیں دینی ترجیحات کے بارے میں صحیح آگہی اور شعور دینے کی ضرورت ہے تاکہ دین اور انسانیت کے نام پر ان کی جیب سے نکلی ہوئی رُقوم ترجیحی مدات پر صرف ہوں اور نتیجہ خیز ثابت ہو ں ۔ انہیں یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ اپنی عاقبت سنوارنے کے لیے دینی و رفاہی خدمات کے شعبے میں دکھاوے کے کلچر کو خیر باد کہنا ہوگا اور انفاق فی سبیل اللہ کے لیے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ِ مکرم ﷺکی رضا کو اپنی منزل مقصود بنانا ہو گا ۔ الحمدللہ علیٰ احسانہ میری گزارشات اور ناقدانہ و ناصحانہ گفتگو کو توجہ سے سنا گیا اور علمائے کرام اور مشائخِ عِظام سمیت تمام طبقات کے افراد نے دل و جان سے اس کی تحسین کی اور عہد کیا کہ ہم آنے والے سال میں اسے اپنے لیے نشانِ راہ اور عرفانِ منزل سمجھتے ہوئے ضرور پیش قدمی کریں گے ۔ برسوں کے دینی کلچر کو، جو لوگوں کے دل و دماغ میں پیوست ہے اور عمل کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہے،یکسر اور یک دم بدلنا آسان تو نہیں ہے ، لیکن ناممکن بھی نہیں ہے ۔لہذا ان شاء اللہ العزیز ہم بہتری کی جانب بتدریج پیش رفت ضرور کریں گے اور آپ کو یہ تبدیلی نظر آتی ہوئی محسوس ہوگی ۔ برطانیہ میں میرے مشاہدات میں ایک نہایت خوش گوار اضافہ بریڈ فورڈ میں نہایت عظیم الشان صفۃ الاسلام جامع مسجد کا کثیر المقاصد کمپلیکس ہے جو علامہ صاحبزادہ حبیب الرحمٰن محبوبی کی قیادت میں پایۂ تکمیل تک پہنچا ہے ، اس نے دل و نگاہ کو سرور بخشا ، دعا ہے کہ یہ حسنِ صوری حسنِ معنوی میں منعکس ہو ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں