"MMC" (space) message & send to 7575

سانحۂ پشاور اورحکمتِ مستور

جب سے پاکستان دشمن ،اسلام دشمن اور انسانیت کُش دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضربِ عضب میںپاک فَضائیہ نے براہِ راست حصہ لینا شروع کیاہے، ہَدَفی (Targetted) بمبارٹمنٹ کے ذریعے دشمن کے اسلحے کے ذخائراورتزویری مراکزکو تباہ کیاہے اورانتہائی اہم مطلوبہ دہشت گردوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایاہے، یہاں تک کہ اُن کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اورجب سے پاکستان ایئر فورس کی فضائی کارروائیوں نے پاکستان آرمی کی زمینی گرفت اور پیش رفت کوانتہائی موثردفاعی مدد فراہم کی ہے ،اُس وقت سے مجھے یہ کھٹکا لگارہتاتھا کہ دہشت گرد اپنی قوتوں کو مجتمع کرکے پاک فضائیہ کے خلاف ضرور کوئی نہ کوئی دہشت گردانہ حملہ کریں گے اور آخر کار گزشتہ جمعۃ المبارک 18ستمبر کوعلی الصباح پشاور ایئر بیس پر یہ ناپاک حملہ کردیاگیا۔ اِس میں 29سویلین اور فوجی افراد شہید ہوئے ،جن میں کیپٹن اسفندیار بخاری شہید بھی شامل ہیں،ان کے علاوہ مُتعدد افراد زخمی ہوئے ۔ہماری سکیورٹی کے اداروں نے غیر معمولی مُستعدی اور چوکسی کا ثبوت دیا اور بادی النظر میں ہماری دفاعی تنصیبات محفوظ رہیں ۔جانی نقصان بلاشبہ ناقابلِ تلافی ہے ،اللہ تعالیٰ شُہدائے وطن کے درجات بلند فرمائے ،زخمیوں کو جلد صحت وشفا عطافرمائے اوراُن کے تمام پسماندگان کو صبرِ جمیل عطافرمائے ۔حسبِ معمول ہمارے مُسلح افواج کے سربراہ جنابِ جنرل راحیل شریف ،ایئر چیف مارشل جناب سہیل امان اور دیگر اعلیٰ فوجی افسران بروقت موقع پر پہنچے اور شُہداء کے جنازوں تک وہاں موجود رہے ،اِسی طرح وزیرِ اعظم جناب محمد نواز شریف ،گورنر اور وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا ،وزیر ِ دفاع اوردیگر سیاسی قیادت بھی موجود تھی ۔ اِس سے دشمن کو یہ پیغام ملا کہ ضربِ عضب کو پوری قوم کی حمایت حاصل ہے ،ملک کو دہشت گردی سے نجات دینے کے لیے ہماری اعلیٰ سیاسی اور فوجی قیادت مُتحد ہے ،یک سُو ہے اوریک جا ن ہے ۔حادثات وسانحات ہمیں مُتزلزل نہیں کرسکتے اور نہ ہی ہمارے عزم کو کمزور کرسکتے ہیں ۔
اگرچہ ضربِ عضب میں ہمیں خاطر خواہ کامیابیاں مل رہی ہیں ،لیکن اِس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ دشمن پوری طرح نیست ونابود ہوچکاہے ، بلکہ اِس صورتِ حال سے مایوس ہوکر وہ کہیں بھی اور کوئی بھی کارورائی کرسکتاہے اور ہمیں اس کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔دہشت گردی کی جنگ اور گوریلا جنگ میں پہل (Initiative)کاموقع دہشت گرد وںکے پاس ہوتاہے ،وہ وقت اور موقع ومحل کا انتخاب خود کرتے ہیں ،اُن کے لیے ٹرانسپورٹیشن ، افراد اور تباہ کُن اسلحے کی سپلائی ،کمین گاہ اور روٹ کا انتخاب کرتے ہیں ،کئی دن تک ریکی کرتے ہیں اور ایک دن اچانک حملہ ہوجاتاہے ۔جنگ روایتی ہو ، آمنے سامنے ہو یا گوریلا قسم کی ،اِس میں پہل کرنے والے کوکسی نہ کسی حد تک Advantageاور Edgeحاصل ہوتاہے،اِس کو آپ وقتی یا عارضی برتری سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں ،یہ برتری حکمتِ عملی کے اعتبار سے ہوتی ہے ،اِسی لیے انگریزی کا مقولہ ہے : Offence is the best defenceیعنی جارحیت یا اِقدام بہترین دفاع ہے ۔اس کے باوجود سانحۂ پشاور میں ہماری مُسلح افواج اور خاص طور پر سریعُ العمل دستے یعنی Quick response brigadeکا فوری جوابی اِقدام جنگی مہارت اور حربی حکمتِ عملی کے اعتبار سے قابلِ افتخار تھا اور وہ پوری قوم کی طرف سے تحسین کے مُستحق ہیں ،اِسی طرح موقع پر موجود ہمارے دفاعی محافظوں کا جان پر کھیل کر بروقت دشمن کو ہَدَف تک پہنچنے سے روکنا غیرمعمولی کارنامہ ہے ،دہشت گردوں کا مارا جانا تو لازمی تھا ،کیونکہ وہ مرنے ہی کے لیے آتے ہیں ،اُن کا اپنے اصل ہَدَف تک پہنچنے سے پہلے ماراجانا یہ اصل کارنامہ ہے ۔
اِن سانحات سے ہمیں بحیثیتِ قوم سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور اِس میں ہمارے لیے ایک مستور حکمت اور درسِ عبرت موجود ہے ۔ برطانوی اِستعمار کے زمانے میں فوجی تنصیبات اور فوجی چھاؤنیوں کو شہروں اور بستیوں سے دوررکھاجاتاتھا ،اِس میں کئی مفاد مُضمر تھے ۔ایک یہ کہ جنگ کی صورت میں شہری آبادی کم متاثر ہو ، پوری آبادی میں دہشت (Panic)نہ پھیلے اور دوسرا یہ کہ مُسلح افواج کے افراد عام آبادی سے دوررہیں تاکہ وہ اخلاقی و سماجی برائیوں اور بشری کمزوریوں سے بچے رہیں ۔لیکن آزادی کے بعد شہر اور آبادیاں دوردورتک پھیل گئیں ،فوجی چھاؤنیوں یعنی Contonments کے علاقے آبادی کے درمیان آگئے ،وہاں فوجیوں کی رہائشی کالونیاں بن گئیں اور بعد میں پرائیویٹ اہلِ ثروت کے لیے وہ محفوظ اوراعلیٰ سطح کی سوسائیٹیاں بن گئیں۔اب ہمیں ایک طویل المدت حکمتِ عملی کی ضرورت ہے اوروہ یہ کہ فوجی چھاؤنیوں اور تمام فوجی تنصیبات کو بتدریج شہری آبادی سے باہر منتقل کیاجائے اور اِس مقصد کے لیے جگہ جگہ مُدُنِ دفاع (Defence Cities)بنائے جائیں ،جن میں فوجی جوانوں اور افسران کی حسبِ مرتبہ رہائش گاہوں ، تعلیمی اداروں ،ہسپتالوں ،پارکوں اور مارکیٹوں کے علاقے الگ ہوں اور اُن سے مُعتَد بہ فاصلے پر دفاعی تنصیبات ہوں اور اُس طرف شہروں ،قصبات اور آبادیوں کا پھیلاؤ ممنوع قرار دیاجائے اور اُن کے بیرونی راستے کھلے ہوں ،وہاں ٹریفک کا غیر معمولی دباؤ نہ ہو ، غیرمُتعلقہ اور ناقابلِ شناخت لوگ اُن کے قریب بھی نہ جاسکیں ، داخلی سلامتی اور بیرونی جارحیت سے دفاع کے وقت اَفواج اورسامانِ حرب کی نقل وحمل میں رکاوٹ نہ ہو ۔
اگر کرپشن کو اس نظم میں حرامِ قطعی اور عبرت ناک سزاؤں کا مُوجِب قراردیاجائے ،تو شہروں کے اندر دفاعی علاقوں کو چھوٹے چھوٹے پلاٹ بناکر مارکیٹ ریٹ پر فروخت کرنے سے بہت سے اخراجات نکل سکتے ہیں اور ہمارے دفاعی بجٹ اورقومی معیشت پر اس کا دباؤ قابلِ برداشت ہوسکتاہے ۔ ماضی میں راولپنڈی جی ایچ کیو ،آرمی ہاؤس اور دیگر حساس آبادیوں کو باہر منتقل کرنے کا پروگرام بنایاجاچکاتھا ،مگر اِس کی Feasibility Strategy یعنی اقتصادی لحاظ سے قابلِ عمل ہونے کی حکمتِ عملی تیار نہیں تھی اورنہ ہی کوئی شفاف طریقۂ کار طے کیاگیا تھاتاکہ یہ عمل وسائل کے اندر رہتے ہوئے بتدریج انجام پائے اور اس پر پوری قوم کا اعتماد بھی ہو ۔اعلیٰ فوجی افسران ،دیانت واہلیت اور اچھی انتظامی شہرت کے حامل سول افسران ،دیانت دار آئینی وقانونی ماہرین اور پارلیمانی رہنماؤں پر مشتمل ایک گورننگ بورڈ تشکیل دیاجائے اور اُن پر یہ پابند ی ہو کہ وہ خود ،اُن کے دور اور قریب کے رشتے دار ،اُن کے کاروباری شراکت دار واحباب اور بے نامی فرنٹ مین اس سے کسی بھی طورپر مُستفید نہیں ہوسکیں گے۔ شاید ہم بحیثیتِ قوم دنیا کے سامنے ایک اچھی مثال قائم کرسکیں ۔ 
میری مزید گزارش یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ہرگز مختصر المیعاد (Short Term)نہ سمجھا جائے ،یہ طویل المدت (Long Term)جنگ ہے ،اِس کی ابتدا کا تو تعیّن ہوسکتاہے ،انتہا ہماری ملی وحدت ،دفاعی وسیاسی اعلیٰ قیادت کے سیاسی عزم (Political Will)پر منحصر ہے ۔انجام کا تعین تو اِس دور کی واحد مادی سپر پاور امریکہ بھی نہیں کرسکا ،ہم جیسے ترقی یافتہ ممالک کیسے کرپائیں گے ؟۔اگرچہ جدید ترین سامانِ حرب ، اقتصادی قوت ، انتہائی حساس سپر وار ٹیکنالوجی، سٹلائٹ کمیونی کیشن اور دیگر ذرائع کے اعتبار سے امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کو بلاشبہ تَفوُّق (Edge) حاصل ہے ،لیکن جذبۂ ایثار وقربانی ،اللہ کی راہ میں شوقِ شہادت اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر میدانِ جنگ میں اترنے کے اعتبار سے یقیناً پاکستان اور مسلمانوں کو برتری حاصل ہے ، انگریزی کا مقولہ ہے :'' Its not guns,but men behind the guns‘‘یعنی اسلحے کی طاقت مُسلّم مگر اسلحہ چلانے والے ہاتھوں کی طاقت اور دل ودماغ کے حوصلے کا بھی کوئی بدل نہیں ہے ۔ 
دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ کے طویل المدت ہونے کے اسباب میں ہماراتزویراتی وجغرافیائی محلِ وقوع ، ہندوستان کی دشمنی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ،کابل میں غیر مستحکم حکومت اور بوجوہ اسلام آباد اور کابل میں باہمی اعتماد کا فقدان ، ترجیحات میں تفاوت ، ایران کے مڈل ایسٹ اور افغانستان میں مفادات ،مُتحدہ عرب امارات کے گوادر پورٹ اور پاک چائنا اقتصادی شاہراہ کے فعال ہونے پر تحفظات اور ناگواری اورامریکہ سمیت عالمی قوتوں کی ریشہ دوانیاں اور انٹیلی جنس نیٹ ورک شامل ہیں ۔مزید یہ کہ سابق صدر جناب جنرل پرویز مُشرف پاکستان کے قومی مفادات کا گہرائی اور گیرائی سے جائزہ لیے اور کوئی تحریری میثاق کیے بغیر امریکہ کے آگے خود سپردگی (Total submission)کا فیصلہ ہے اور اس کے نتائج پاکستان کو طویل عرصے تک بھگتنے ہوں گے اور اُن کے بوئے ہوئے کانٹے چننے ہوںگے ۔ اس وقت ہماری خوش قسمتی ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنابِ جنرل راحیل شریف کی صورت میں ایک محبِ وطن،پُر عزم ،یک سُو اور بہادر دفاعی قیادت موجود ہے ،مگر ایسی قیادت یا اس جیسی صاحبِ عزیمت وبصیرت قیادت کا تسلسل درکار ہے اور اس کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہاجاسکتا کہ پردۂ غیب میں کیا مستور ہے اور جن کے پاس فیصلوں کا اختیار ہے ،اُن کے دل ودماغ میں کیاہے؟۔سو مستقبل اور غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور دعاہے کہ اپنے حبیبِ مکرم ﷺ کے طفیل وہ پاکستان اور اہلِ پاکستان کے لیے بالخصوص اوراُمّتِ مسلمہ کے لیے بالعموم خیرمُقدر فرمائے ،پاکستان کوتااَبدتحفظ وسلامتی اور استحکام ودوام عطافرمائے ، ہماری انفرادی اور اجتماع تقصیرات کو معاف فرمائے اور ہماری سیاسی قیادت کو بصیرت ودانش ، عزیمت واستقامت اور دوراندیشی کی سعادت اور اہلیت وصلاحیت نصیب فرمائے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں