"MMC" (space) message & send to 7575

سانحۂ مِنیٰ

اس سال انسانی جانوں کے اِتلاف کے اعتبار سے حج کی معلوم تاریخ کا سب سے بڑا المیّہ رونما ہوا ۔ سانحے میں جان بحق ہونے والے اور زخمی ہونے والے حجاج کی صحیح حتمی اور قطعی تعدادبھی تاحال (30،ستمبر بدھ ) معلوم نہیں ہے ، کیونکہ لا پتا حجاجِ کرام کا مسئلہ ابھی پوری طرح حل نہیں ہوا ۔ ہم قومی وملی سانحات کا صحیح ، غیر جانبدارانہ اور منصفانہ تجزیہ کرنے میں ہمیشہ ناکام رہتے ہیں ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہم اپنے تعصبات کے اسیر ہوتے ہیں ، خواہ یہ تعصبات مذہبی و مسلکی ہوں ، جماعتی یا گروہی ہو ں ، قومی و ملکی ہوں یا خالص شخصی اور ذاتی ہوں۔ بعض صورتوں میں یہ فکری اور نظریاتی بھی ہوتے ہیں اور بعض صورتوں میں برادری اور قبیلے کی بنیا د پر بھی تعصبات حاوی ہو جاتے ہیں ، جو انسان کو حقیقت پسندانہ اور معروضی تجزیہ کرنے کے قابل نہیں رہنے دیتے ۔
ہمیں علمِ مَنطق (Logic)میں پڑھا یا گیا تھا کہ معلوم اور مسلَّمہ مقدمات کو اس طرح ترتیب دیا جائے تاکہ اُن سے کوئی مفید نتیجہ اخذ کیا جا سکے ۔ اس کے لیے علمِ منطق میں اَشکالِ اَربعہ وضع کی گئی ہیں ، اُن میں سے شکل ِ اوّل نسبتًا سب سے آسان ہے۔ وہ یہ کہ ایک مقدّمے (جملے) کو'' صُغریٰ‘‘بنایا جائے اور دوسرے کو''کُبریٰ ‘‘۔ عام جملے کے مبتدا اور خبر کی طرح شکلِ اوّل کے مقدّمات کے بھی دو اجزا ہوتے ہیں ، ایک کو ''موضوع‘‘ اور دوسرے کو ''محمول‘‘کہتے ہیں ۔ موضوع اور محمول کو آپ مبتدا اور خبر کا متبادل سمجھ لیجیے ۔ 
اِن مقدمات سے نتیجہ نکالنے کے لیے صُغریٰ کے محمول اور کُبریٰ کے موضوع کوحذف (Delete)کر دیتے ہیں اور صُغریٰ کے موضوع کو کُبریٰ کے محمول کو ملا کر نتیجہ نکال لیتے ہیں ، جیسے :زید انسان ہے (صُغریٰ ) اور ہر انسان ناطق ہوتا ہے (کُبریٰ) ، پس نتیجہ نکلا کہ زید ناطق ہے ۔ اس منطقی فارمولے کی اگر ہم موجودہ صورتِ حال پر تطبیق (Application)کریں تو تصویر کچھ یوں بنے گی :اُسرۂ سعودیہ (Saudi Royal Family) حرمینِ طیبین کا حاکم ہے یا خادم ہے (صغریٰ ) اور حرمینِ طیبین مقد س ہیں ( کُبریٰ ) ، پس نتیجہ نکلا: اُسرۂ سعودیہ مقدّ س ہے ۔ اس اندازِ فکر کے بعد نہ کسی بحث کی گنجائش رہتی ہے اورنہ غیر جانبدارانہ ، منصفانہ اور شفّاف تجزیے کی ۔ 
لہٰذا نہایت ادب واحترام کے ساتھ گزارش ہے کہ ہمیں اپنے تعصبات کے خول یا دائرے سے نکل کر حقیقت پسندانہ ، منصفانہ اور معروضی تجزیے کے شعار کو اختیار کرنا چاہیے ۔ حُکومتِ سعودی عرب نے حرمینِ طیبین کی توسیع ، ترقی و تعمیر اور تزئین و تحسین کے لیے عہد بہ عہد جو خدمات انجام دی ہیں ، و ہ قابلِ قدر ہیں اور ہر ایک کو کھلے دل سے ان کا اعترا ف کرنا چاہیے ۔ یہی صورتِ حال مکۃ المکرمہ ، مدینۃ المنورہ اور بحیثیتِ مجموعی پورے سعودی عرب کی ہے اور اس کے ِمن جملہ اسباب میں سے یہ بھی ہے کہ قدرت نے پیٹرول،سونا اور دیگر معدنی ذخائر سے اس خطے کو نوا زا ہوا ہے ۔ اسی طرح حدودُ اللہ کے نفاذ اور قانون کی حُکمرانی کی وجہ سے جرائم کا تناسب کم ہے ۔ 
سعودی عرب کے نظامِ حکومت میں ممکن ہے خیر غالب ہو اور خرابیوں کا تناسب کم ہو، لیکن اسے مقد س قرار دے دینا ، قرینِ انصاف نہیں ہے ، پھر تو اصلاح کا امکان ہی ختم ہو جاتا ہے، صرف میر تقی میر کے اس شعر پر اکتفا کرنا پڑے گی :
سارے عالم پہ ہوں میں چھایا ہوا 
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم جس دور میں جی رہے ہیں ، یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب اور ارتقاکا دور ہے ۔ ہم چاہے اپنی حد تک آنکھ ، کان اور دل و دماغ کے دریچے بند بھی کر دیں ، دنیا کی آنکھیں کھلی ہیں ، وہ ہمہ تن گوش ہیں اور ان کا دیدۂ دل بھی وَاہے ۔ ہر انسان کے ہاتھ میں موبائل ٹیلیفون کی صورت میں مووی کیمرا موجود ہے ، بالائی خلا میں مُعلّق سیارچوں (Satellites) میں نصب انتہائی حساس کیمرے زمین پر چار سینٹی میٹر کی چیز کو بھی دیکھ لیتے ہیں اورمطلوب اشیاء یا افراد کی حرکات و سکنات کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ ''دیوار کے بھی کان ہوتے ہیں ‘‘ والا محاورہ اب بہت فرسودہ معلوم ہوتاہے ۔ 
لوگوں نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے ، کوئی نہ کسی کے منہ پر ہاتھ رکھ سکتاہے ، نہ کسی کے لب سی سکتاہے ، نہ کسی کی آنکھ پر پردہ ڈال سکتاہے ،نہ کسی کے قلم پر پہرے بٹھا سکتاہے اور نہ کسی کے دل ودماغ کے دریچے بند کر سکتا ہے ۔ 
سوشل میڈیا پر دوسرااعتراض یہ اُٹھایا گیا کہ سعودی ولی عہد کے موومنٹ کی وجہ سے سکیورٹی کے عملے نے غیر معمولی پُھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حُجاج کو پیچھے دھکیلا اور بھگدڑ مچ گئی اور پھر صورتِ حال قابو سے باہر ہو گئی اور یہ ناخوش گوار المیہ اور سانحہ رو نما ہوا ، واللہ اعلم بالصواب ۔ اگر یہ سب کچھ جھوٹ ہے ، یہ تمام تصاویرجعلی ہیں ، تو بلا شبہ یہ بہت بڑی سازش ہو سکتی ہے اور اس کا ازالہ بھی شفاف تحقیقات ہی سے ہو سکتاہے ، اس کی کوئی دوسری قابلِ قبول صورت ممکن نظر نہیں آتی ۔ آج کل جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے سوشل میڈیا میں ہیرا پھیری بھی بہت ہوتی ہے اور سچ کو جھوٹ سے ممتاز کرنا سادہ لوح لوگوں کے لیے مشکل ہوجاتاہے۔ سعودی حُکومت کا سرکاری موقف یہ ہے کہ حُجّاجِ کرام کی بے صبری اور بدنظمی کے سبب یہ سانحہ رونما ہوا ۔ بے پناہ ہجوم اور مجمعِ کثیر میں یہ امکان تو ہر وقت موجود رہتاہے ، ابتدائی سبب جو بھی ہو ، اس کے بعد ہجوم کا بے قابو ہو جانا سمجھ میں آنے والی بات ہے ۔ اگر چہ پاکستانی حکومت نے سرکاری طور پر کوئی شکوہ یا شکایت نہیں کی ، لیکن پاکستانی ٹیلی ویژن چینلز پر پاکستانی سفارت کاروں اور ڈائریکٹر حج مشن کے یہ ٹکر مسلسل چلتے رہے کہ ہمیں حُجاجِ کرام کی میتوں تک رسائی (Access)نہیں دی جارہی ، ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ، کیونکہ ہزاروں لوگ، جن کے اپنے حُجّاج کے ساتھ رابطے نہیں ہو پا رہے تھے ،بے چین تھے اور انتظار کی سولی پر لٹکے ہوئے تھے اور طرح طرح کے اندیشوں میں مبتلا تھے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اتنے بڑے سانحے کے بعد مقامی انتظامیہ بھی دباؤ میں ہوتی ہے اور اسی دباؤ کی وجہ سے بہت سی بے تدبیریاں بھی سرزَد ہو جاتی ہیں ، لیکن اس تجربے کی روشنی میں آئندہ کے لیے کوئی بہتر حکمتِ عملی مرتب ہونی چاہیے ۔ 
میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ سعودی حکومت نے آئندہ سال سے Open Skyپالیسی یعنی حجاج کے لیے کوٹا سسٹم ختم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے ، اگر اس پر پوری طرح سے عمل در آمد ہوا اور اس سال کے تجربے کی روشنی میں نظر ثانی نہ کی گئی ، تو آئندہ سال اطرافِ عالم سے حُجّاجِ کرام کی بہت بڑی تعداد حرمینِ طیبین کا رُخ کر سکتی ہے ، لہذا ضروری ہے کہ اس پالیسی پر نظرِ ثانی کی جائے ۔ تمام ممالک کی حکومتوں کو بھی تعاون کرنا چاہیے اور جو شخص ایک بار فریضۂ حج ادا کر چکا ہو ، اُسے آئندہ پانچ یا دس سال تک حج کی اجازت نہ دی جائے تاکہ ہر سال زیادہ سے زیادہ لوگ اپنا فریضہ ادا کر سکیں ۔ ایسے حُجّاجِ کرام جو ہر سال نفلی حج ادا کرتے ہیں ، وہ یہ رقم اگر دینی مقاصد یا اِنسانی فلاح کے کاموں پر خرچ کریں تو یہ نیکی کمانے کا ایک مناسب متبادل بن سکتاہے ۔
ایرانی حکومت نے جارحانہ ردِ عمل کا مظاہرہ کیا ہے ، کیونکہ ایران اب مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب کے لیے چیلنج بن کرسامنے آرہا ہے ۔ نیو کلیئر مسئلے پر اگر امریکہ کے ساتھ اس کا سمجھوتہ کامیاب ہو جاتاہے ، تو وہ عالمی تنہائی اور معاشی دباؤ سے کافی حد تک نجات پالے گا ۔ بہتر ہو گا کہ سعودی عرب کی حکومت سفارتی سطح پر مسلم ممالک کو اعتماد میں لے اوربین الاسلامی معاملات میں باہمی روابط ہی بہترین سفارت کاری ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں