"MMC" (space) message & send to 7575

فلسفہ ٔ دعا

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ''اور( اے رسول!) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو( بتا دیجیے کہ) میں یقینا ان کے قریب ہوں ، جب کوئی دعا کرنے والا دعا کرتا ہے تو میں اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں ، تو چاہیے کہ وہ(بھی) میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان قائم رکھیں تاکہ وہ ہدایت یافتہ ہو ں ، (بقرہ : 186)‘‘۔اس آیت کے تحت جناب غلام احمد پرویز لکھتے ہیں : 
''اس آیت کے مفہوم کو سمجھنے میں مجھے دشواری تھی ، کیونکہ اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہر ایک کی دعا مِن و عَن قبول ہو جائے، لیکن تجربہ یہ بتاتا ہے کہ عملاً ایسانہیں ہوتا۔ اگر بعض کی دعائیں قبول ہو جاتی ہیں تو بہت سو ں کی رَد بھی ہو جاتی ہیں ۔ اس کی یہ تاویل کہ دعا کس صورت میں قبول ہو، اللہ تعالیٰ کی حکمت پر منحصر ہے ۔ اگر اس کی دعا بعینہٖ قبول نہیں ہوئی تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اس کا مصیبت میں مبتلا رہنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُس کے حق میں بہتر ہے اور یہ آیت بھی اس مفہوم کی تائید نہیں کرتی : ''بھلا وہ کون ہے جو مصیبت زدہ کی دعا کو قبول فرماتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کردیتا ہے ، (النمل : 62)‘‘۔یعنی اس آیت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہر مصیبت زدہ کی دعا قبول ہو او ر کسی پریشان حال و درماندہ کی دعا رد نہ ہو، جبکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے ۔ ایک مفہوم میرے ذہن میں یہ آیا کہ زندگی کے کسی مشکل موڑ پر جب بندہ اپنی عقل سے فیصلہ نہ کر سکے تو رہنمائی کے لیے قرآن سے رجوع کرے ، لیکن پھر یہ آیت میرے سامنے آئی : ''اور (اے مسلمانو !) تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جنگ نہیں کرتے حالانکہ بعض کمزور مرد ، عورتیں اور بچے یہ دعاکررہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہمیں ظالموں کی اس بستی سے نکال دے اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی کارساز بنا اور اپنی طرف سے کوئی مدد گار بنا۔ (النساء : 36)‘‘۔ 
اس آیت سے جناب غلام احمد پرویز کے ذہن میں ایک اور مفہوم آیا کہ اللہ تعالیٰ براہ ِ راست مظلوموں اور پریشان حال لوگوں کی دادرسی اور نصرت نہیں فرما تا بلکہ وہ اپنے بندوں کے ذریعے ان کی مدد کرتا ہے ۔اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح آفاق یعنی اللہ تعالیٰ کے تکوینی نظام میں اس کا قانونِ فطرت کار فرما ہے، اسی طرح انسانوں کی دنیا میں بھی اسی کی کارفرمائی ہے۔ پھر انہوں نے سورۂ المعارج :4 کے حوالے سے اللہ کے ہاں دن کی طوالت کو ہمارے پچاس ہزار سال کے برابر قرار دیا ہے ۔ لیکن جب اللہ کے بندوں کی کوئی جماعت میدانِ عمل میں آتی ہے تو جو انقلاب پچاس ہزار سال میں برپا ہونا ہے ، وہ چند دنوں میں برپا ہو جاتا ہے ۔غزوۂ بدر کے تناظر میں سورۂ انفال آیت 17 کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے یہ معنیٰ اخذ کیا کہ کمان رسول اللہ ﷺ کی تھی اور تیر اللہ تعالیٰ کے تھے اور یہ شعر لکھا : 
تیر قضا ہر آئینہ در ترکَشِ حق است
اما کشادِ آں زِکمانِ محمد است 
یعنی قضائے الٰہی کا تیر بہر حال حق کے ترکش سے نکلتا ہے ، لیکن اسے محمد رسول اللہ ﷺ کی کمان سے چلا یا جاتا ہے۔ کمان سے تیر چلایا جاتا ہے، جیسے آج کل راکٹ لانچر ہوتا ہے اور تَرکش، جو دراصل تیر کَش ہے ،اس آلے کو کہتے ہیں جس میں تیر رکھے جاتے ہیں ، ایک ایک تیر نکال کرکمان کے ذریعے چلایا جاتا ہے، اردو لغت میں اس کے لیے متبادل لفظ'' تیردان‘‘ لکھاگیا ہے پھروہ علامہ اقبال کا یہ شعر نقل کرتے ہیں : 
چوں فنا اندر رضائے حق شود
بندۂ مومن قضائے حق شود 
یعنی جب بندہ اللہ کی رضا میں فنا ہوجاتا ہے تو وہ حق کی قضا بن جاتا ہے ، وہ‘ ا لنّہایہ لابن اثیر سے حضرت عمر ِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ کا یہ قول نقل کرتے ہیں : ''میں تمہارے اور اللہ کے درمیان ہوں ، میرے اور اللہ کے درمیان کوئی نہیں ہے اور یہ کہ اللہ نے مجھ پر یہ لازم قرار دیا ہے کہ میں تمہاری دعاؤں کو اس تک پہنچنے سے روکوں، سو تم اپنی شکایات مجھ تک پہنچاؤ اور جس کی رسائی مجھ تک نہ ہو تو وہ میرے مقررہ حاکموں سے رابطہ کرے ہم اُس کا حق اُس تک پہنچا دیں گے ‘‘۔ پھر انہوں نے علامہ اقبال کا یہ شعر لکھا : 
ہاتھ ہے اللہ کا، بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں ، کار کُشا ، کارساز 
یہاں تک میں نے شاہکارِ رسالت سے پرویز صاحب کی عبارت کا خلاصہ پیش کیا ہے اور کوشش کی ہے کہ ان کا پورا مفہوم اد ا ہو جائے ۔ اس میں انہوں نے دعا کا فلسفہ اور حکمت اپنی بصیرت کے مطابق تکوینی انداز میں یعنی ماتحتَ الاسباب بیان کیاہے ، جس کی روح یہ ہے کہ بندوں کی حاجات بندوں تک پہنچ جائیں اور وہ ان کا مداوا کریں ۔ ہماری دینی فہم کے مطابق اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا بندے کی براہِ راست التجا ہے ، فریاد ہے اور انصاف کی طلب ہے۔اسی طرح گناہوں سے استغفار اور معافی کی التجا بھی دعا ہے ، مشکلات سے نجات اور سلامتی کی طلب بھی دعا ہے ۔ دعاکے کچھ آداب اور تقاضے بھی ہیں ، جس طرح توبہ کے کچھ لازمی تقاضے ہیں ۔ 
ہمیں تسلیم ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی بعض حاجات کی تکمیل کے لیے اپنے بندوں کووسیلہ بنا تا ہے یا تکوینی اسبا ب کو اس کے لیے سازگا ر بنا تا ہے ، کسی کے لیے دوسرے شخص کے دل میں ترحّم کا جذبہ پیدا کرتا ہے ، مگر وہ اسباب کا پابند نہیں ، اسباب اس کے حکم کے تابع ہیں ۔آج کل ہم جدید سائنسی دور میں رہ رہے ہیں ، سیٹلائٹ میں گائیڈ نگ سسٹم اور کمپیوٹرائزڈ کیمرے نصب ہیں ، جو زمین پر رونما ہونے والے اُمور کا چوبیس گھنٹے مشاہدہ کرتے رہتے ہیں ۔ ان کی حساسیت اور درستگی (Accuracy)کا عالم یہ ہے کہ زمین سے اگر ایک میزائل اپنے ہد ف کی جانب چلتا ہے تو سیٹلائٹ پر نصب یہ گائڈنگ سسٹم پہلے سے ایکشن کی پوزیشن میں تیار دافعِ میزائل (Intercepting Missile) کو ہدایت دیتا ہے اور وہ اس میزائل کے ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی فضا میں اسے تحلیل کر دیتا ہے ۔ 
پس ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ہماری دعائیں براہِ راست اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچتی ہیں اور اس کی بارگاہ سے شرفِ قبولیت پانے کی صورت میں اس کے حکم کے مطابق اثرات مرتب کرتی ہیں۔ اسی کو دعا کے اثر اور قبولیت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ اس کی حکمت پر منحصر ہے کہ دعا کو کس انداز میں قبول فرمائے ۔ فوری قبولیت کی صورت میںدعا کرنے والا مِن وعَن اپنے مَن کی مراد پالے یا اس کے لیے کوئی بہتر نعمت مقدر ہو جائے یا اس سے کوئی بڑی مصیبت ٹل جائے یا اللہ تعالیٰ اسے اجرِ آخرت کے لیے اپنے پاس امانت کے طور پر محفوظ فرما لے ، یہ تمام صورتیں احادیثِ مبارکہ میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں ۔ 
اگر شریعت کی اس حکمت کو نہ مانا جائے اور دعا کو ایک مادّی عمل قرار دے کر اس کی مادّی تاویل ہی کو لازم قرار دیا جائے ، تب بھی پرویز صاحب کا اِشکال رفع نہیں ہو گا اوربہت سے دعا کرنے والے اپنی دعا کی قبولیت کا انتظار کرتے ہوئے محرومی کی حالت میں اس دنیا سے رُخصت ہو جائیں گے اور شاید درِ اجابت کھلنے تک کئی صدیاں گزر جائیں۔ پرویز صاحب نے قدرت کے حساب سے ایک دن کو پچاس ہزار سال کے برابر قرار دے کر قبولیتِ دعا میں تاخیر کے حوالے سے اپنے عقلی استدلال کومحض سہارا دیا ہے،اگر آخرت میں دعا کے بے پایاں اجر کے امکان کی نفی کر دی جائے، تو اتنی مدت کا انتظار ناقابلِ تصور ہے ۔ ہم نے کالم کی محدودیت کے پیشِ نظر آیات و احادیث کے حوالہ جات سے قصداً صرف نظر کیا ہے ، ان شاء اللہ تعالیٰ قرآن وسنت کی روشنی میں فلسفۂ دعا پر کبھی تفصیلی گفتگو ہوگی ۔ 
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ میرے نظامِ حکومت کی ہر تقصیر کی مجھے بر وقت اطلاع دو تاکہ میں مظلوم کی داد رسی کر سکوں اور حقدار کو اس کا حق دلا سکوں ، کیونکہ ان کے ذہن میں اس ارشادِ نبوی کی جلالت ہو گی : ''مظلوم کی دعا سے ڈرو ، کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے ( بخاری : 1496)‘‘سو آخرت کی دعا کا احساس انہیں بے چین کیے رکھتا تھا ۔ 
''ابوبردہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر نے مجھ سے کہا: تمہیں معلوم ہے کہ میرے باپ نے تمہارے باپ سے کیا کہا تھا ؟ میں نے کہا : نہیں۔ انہوں نے کہا: میرے باپ نے تمہارے باپ سے کہا تھا : کیا تم اس پر مطمئن ہو کہ رسول اللہ ﷺ کے دستِ مبارک پر ہمارا اسلام قبول کر نا، آپ کے ہمراہ ہجرت کرنا ، آپ کے ساتھ جہاد میں شریک ہونا اور آپ کے ساتھ ہمارے سارے اعمال ِ خیر ہمارے لیے نجات کا سبب بن جائیں اور آپ ﷺ کے بعد ہم نے جو کچھ کیا اُن کے حساب کتاب میں ہم برابر برابر چھوٹ جائیں ، تو آپ کے باپ (ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ) نے میرے باپ (عمر رضی اللہ عنہ) سے کہا : نہیں، بخدا !ہم نے آپ ﷺ کے بعد جہاد کیا ، نمازیں پڑ ھیں ، روزے رکھے ، بے شمار نیک کام کیے اور ہمارے ہاتھوں پر کثیر تعداد میں لوگ اسلام لائے ،ہم ان حسنات پر بھی اجرِ کثیر کی امید رکھتے ہیں۔ میرے باپ نے کہا : ذاتِ باری تعالیٰ کی قسم!میری تو تمنا ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ہماری حسنات باعثِ نجات بن جائیں اور بعد کے ساے اعمال میں ہم برابر برابر چھوٹ جائیں تو بہت بڑی بات ہے ، ابو بردہ نے کہا : تمہارے باپ میرے باپ سے افضل تھے، (صحیح بخاری :3915)‘‘۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں