جامعہ الازہر کے شیخ اور الامام الاکبر (Grand Imam) جناب ڈاکٹر احمد الطیب نے کہا ہے :
شام و عراق اور مختلف ممالک میں مصروفِ عمل گروہ جو داعش کے نام سے معروف ہے ، اگر اسلام کے بنیادی عقائد و ایمانیات کو تسلیم کرتا ہے ، تو اسے کافر نہیں قرار دیا جا سکتا ،وہ دہشت گرد ہیں اور ظالم ہیں۔ بنیادی عقائد سے مراد توحید ، رسالت ، آخرت ، کتبِ الٰہیہ ، ملائک ، تقدیر اور وہ اُمور ہیں جن پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا ، ان کا یہ موقف ایک قومی روز نامہ میں رپورٹ ہوا ہے ۔ سعودی مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز آلِ شیخ نے علماء سے کہا ہے کہ وہ گمراہ کن نظریات کی سر کوبی کریں اور منحرف خیالات اور اقدار سے جنگ کریں اور ایسے اقدامات کی سخت مخالفت کریں جن سے اسلام کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔اس سے معلو م ہوا کہ عالمِ عرب کے علماء داعش یا ان جیسے لوگوں کی تکفیر نہیں کرتے بلکہ انہیں ظالم، فاسق ، گناہ گار اور گمراہ قرار دیتے ہیں ،جنہیں فقہی اصطلاح میں ضالّ (گمراہ )اور مُضِلّ (گمراہ کنندہ)کہاجاتا ہے۔ آج کل جماعۃ الدعوۃ کے رہنما انہیں تکفیر ی گروہ کہتے ہیں ، کیونکہ یہ اپنے نظریات سے اتفاق نہ کرنے والے مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں ، لیکن وہ خود ان کی تکفیر نہیں کرتے ۔
علقمہ بن عامر بیان کرتے ہیں:''حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اہلِ نہروان ( خوار ج ) کے بارے میں پوچھا گیا :کیا وہ مشرک ہیں ؟آپ نے فرمایا : شرک سے تو وہ بھاگ کر اسلام میں داخل ہوئے ہیں ، پھر پوچھا گیا : کیا وہ منافق ہیں ؟ آپ نے جواب دیا : منافق تو اللہ کا ذکر بہت کم کرتے ہیں ، پھر سوال ہوا : تو آخر وہ کیا ہیں ؟آپ نے جواب دیا : وہ ہمارے (اسلامی) بھائی ہیں جنہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے ، اس لیے ہم ان سے قِتال کر رہے ہیں ۔ ابن جریر کی روایت بھی یہی ہے ۔ زید
بن ثابت بیان کرتے ہیں : ''جب خوارج نے نہروان کے مقام پر (حضرت علی پر ) خروج کیا ، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب کو خطاب میں فرمایا : یہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے نا حق خون بہایا ہے ، یہ مسلمانوں کے مال مویشی کو لوٹ کر لے گئے ہیں ، یہ تمہارے قریب کے دشمن ہیں ، اگر تم اپنے حقیقی دشمن (اہلِ کفر ) سے مقابلہ کروتو اندیشہ ہے کہ یہ تم پر پیٹھ پیچھے سے وار کریں گے ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : میری امت سے ایک گروہ تم پر خروج کرے گا ، تم ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو، ان کے روزوں کے مقابلے میں اپنے روزوں کواور ان کی قرأت کے مقابلے میں اپنی قرأ ت کو حقیر جانو گے ، وہ گمان کریں گے کہ یہ قرآن انہی کے لیے ہے ،حالانکہ یہ ان کے خلاف حجت ہوگا، (لیکن )یہ قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ، وہ اسلام سے اس تیزی کے ساتھ نکلیں گے ، جیسے ( تیز رفتار)تیر اپنے نشانے کو پار کر جاتا ہے اوراُس کے اول وآخر کسی بھی حصے پرخون کادھبّاتک نہیں لگتا، (البدایہ والنہایہ ،ج:5، ص: 393-94)‘‘۔اسی طرح کی روایات فقہِ جعفریہ میں بھی موجود ہیں: امام حسین بیان کرتے ہیں : ''امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے اہلِ نہروان (خوارج) کے بار ے میں سوال ہوا : کیا یہ مشرک تھے ؟ فرمایا : شرک سے تو انہوں نے دوری اختیار کی (اور اسلام قبول کیا ) ، عرض کی : تو کیا منافق تھے ؟، فرمایا : منافق تو اللہ کا ذکر بہت کم کرتے ہیں ، عرض کی: تو آخر یہ کون لوگ تھے؟ فرما یا : انہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی تو اللہ نے ان پر ہمیں فتح عطا فرمائی ، (الجعفریات ، ص : 234)‘‘۔حضرت امام جعفر صادق نے امیر المومنین حضرت علی سے روایت کیا : ''حروریوں (خوارج ) سے ہم نے اس لیے جنگ نہیں کی کہ ہم نے ان کی تکفیر کی ہو اور اس لیے بھی نہیں کی کہ انہوں نے ہماری تکفیر کی ، جنگ کا سبب یہ تھا کہ ہم حق پر تھے اور وہ باطل پر ، (الحمیری ، ص: 45)‘‘۔
الغرض ! خوارج نے جنگ صِفین میں ثالثی پر رضا مند ہونے والے اکابر صحابہ ( حضرت علی، حضرت امیر معاویہ ، حضرت عمر وبن عاص رضی اللہ عنہم )کی تکفیر اس وجہ سے کی کہ وہ بندوں کو حکَم اور ثالث ماننے پر کیوں رضامند ہوئے ؟جبکہ اللہ کا ارشاد ہے :''حکم تو اللہ ہی کا ہے ، (الانعام : 57)‘‘ ۔اس پر حضرت علی نے فرمایا :'' یہ کلمہ حق ہے لیکن اس کو یہ باطل معنوں میں لے رہے ہیں ‘‘۔سو خوارج تو مسلمانوں کی تکفیر میں دریغ نہیں کرتے تھے ، لیکن مسلمانوں نے ان کی تکفیر نہیں کی۔ اس سے یہ اُصول سامنے آیا کہ اگر کوئی اپنی تاویل کے تحت خدانخواستہ کسی مسلمان کی تکفیر کرے تو محض اس بنا پر اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی تاوقتیکہ وہ سب اُصولِ دین یا اُن میں سے کسی ایک کا انکار کرے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے فعل کو تو کافرانہ قرار دیا گیا ہے ، لیکن ان کی تکفیر نہیں کی گئی ۔ داعش کے بارے میں بھی ہمارے پاس ایسے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ وہ اُصول دین میں سے کسی کے منکر ہوں ۔ تاہم مختلف ذرائع سے جو ان کا موقف معلوم ہوا وہ یہ ہے کہ وہ موجود ہ جمہوریت کو کفر قرار دیتے ہیں ، اس کے حامیوںاور ان کی مخالفت میں مسلح مزاحمت نہ کرنے والوں کو بھی کافر قرار دیتے ہیں ، اسی طرح مسلم حکمران بھی چونکہ امریکہ اور اہلِ مغرب کے بالمقابل مزاحمت نہیں کرتے اس لیے وہ انہیں بھی کافر قرار دیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ''اور جو کسی مسلمان کو عمداً قتل کرے تو اُس کی سزا ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہنا ہے اور اللہ اُس پر غضب نا ک ہوں گے اور اُس پر لعنت فرمائیں گے اور اللہ نے اُس کے لیے سخت عذاب تیار فرما رکھا ہے ،(النساء : 93)‘‘۔اس آیت کی تفسیر میں سے علامہ محمودآلوسی نے لکھا ہے : ''عکرمہ ، ابن جریج اور مفسرین کی ایک جماعت کا موقف یہ ہے : اگر کوئی شخص کسی مومن کو اس کے ایمان کے سبب حلال جان کر قتل کرے، تو وہ کافر ہے ، (روح المعانی ، ج: 3، ص : 118)‘‘۔ لہذا اگر خوارج اپنی تاویل کے سبب مسلمانوں کو کافر جان کر قتل کر رہے ہیں تو ان پر کفر کا فتویٰ عائد نہیں کیا جا سکتا ، وہ دہشت گرد ہیں ، ظالم ہیں ، فاسق و فاجر ہیں ، گمراہ ہیں اور دوسروں کو گمراہ کر رہے ہیں، شیخ الازہرکے فتوے کا منشا بھی یہی ہے ۔
ہم اہلِ پاکستان ایک عرصے سے اس تکفیری فرقے کے فساد اور قتل و غارت کا شکار تھے ، جب کہ عالمِ عرب سے سرکار ی سطح پر یا اہلِ ثروت کی طرف سے نجی طور پر مالی اعانت کی جاتی رہی ، لیکن اب چونکہ یہ آگ اُن کے دروازے تک آپہنچی ہے،اس لیے اب وہ فتوے صادر کرنے پر مجبور ہیں ، کیونکہ اب وہاں کے علماء سے اُن کی حکومت کا مطالبہ بھی یہی ہے۔ اور اب اس مسئلے پر انہیں عالمِ اسلام کے علماء کی علمی اور فقہی اعانت بھی مطلوب ہے ، کاش کہ انہوں نے شروع ہی سے مسلکی تعلق سے با لا تر ہو کر امت کے تمام علماء سے علمی رابطے اور تعاون کا سلسلہ قائم کیا ہوتا اور جب یہ فتنہ ابتدا میں سر اٹھا رہا تھا، تواسی وقت اس کا قَلع قَمع کردیا جاتا۔ حدیث پاک کی رو سے تو امت مسلمہ جسدِ واحد کی طرح ہے،سو امت کے ایک عُضو کی تکلیف کو پوری امت کی تکلیف سمجھنا چاہیے تھا، لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا ، کیونکہ عملاً ہم ایک امت اور ایک مِلّت نہیں بن پائے ۔ حال ہی میں میڈیا کی بعض رپورٹوںسے معلوم ہوا کہ خلیج تعاون کونسل کے رکن عرب ممالک آج کل فلسطین کے مقابلے میں اسرائیل سے قریب تر ہیں اور ایک سعودی شہزادے ولید بن طلال کا بیان اخبارات میں رپورٹ ہواکہ اگر اسرائیل اور فلسطین میں جنگ ہو ئی تو میں اسرائیل کی حمایت کروں گا، واللہ اعلم بالصواب۔اس سے معلوم ہوا کہ امت کو درپیش مسائل میں سب کی ترجیحات الگ الگ ہیں اور اس میں ''اول خویش بعد درویش‘‘ کا اصول ہی کارفرماہے،پس ایسے حالات میں کشمیر اور دیگر خطوں کے مظلوم اور محکوم مسلمانوں کا در د کون محسوس کرے گا ؟
قرآن کا حکم تو اس سلسلے میں واضح ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :''اور اگر مسلمانوں کے دو گرو ہ آپس میں لڑ پڑیں توان دونوں کے درمیان صلح کراؤ ،پس اگر ایک گروہ دوسرے کے خلاف بغاوت کرے ، تو آمادۂ بغاوت گروہ سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئیں ، پھر اگر وہ (بغاوت سے ) رجوع کرلیں تو ان دونوں کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کراؤ اور ( فیصلہ کرتے وقت ) عدل کا دامن تھامے رکھو ، بے شک اللہ تعالیٰ عدل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے ، (الحجرات : 9)‘‘۔سو جو لوگ مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی کے خلاف خروج اور بغاوت کریں ،تو سب سے پہلے ان کو سمجھا یا جائے گا اور ان کے مغالطے کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی، جس طرح حضرت علی کرم اللہ وجہَہُ الکریم نے حضرت عبداللہ ابن عباس کو خوارج کے پاس تفہیم کے لیے بھیجا تھااور ایک مرحلے پر آپ نے خود بھی اتمام ِ حجت کے لیے ان سے مکالمہ فرمایا ۔ اس سے پتا چلا کہ خوارج سے جنگ کو پہلے آپشن کے طور پر نہیں بلکہ آخری آپشن کے طور پر اختیار فرمایا اور یہی دین کی تعلیمات کا تقاضا ہے ۔ ہماری حکومت نے بھی ریاست سے متصادم عناصر سے مکالمہ ناکام ہونے کے بعد ان کی مسلح سرکوبی کا فیصلہ کیا اور یہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے ۔