آج کل میں امریکہ کے دورے پر ہوں ۔23 دسمبر کو علی الصباح نیو یارک ایئر پورٹ پر آمد ہوئی اور اس کے بعد امریکہ کی مختلف ریاستوں (States)کے اَسفار جاری ہیں ۔ امریکہ بہت بڑا ملک ہے اور لوگوں کے اَسفار بھی بے تحاشا ہیں ، ٹرینوں ، موٹر ویز اور ہوائی جہازوں ،الغرض ہر جگہ سواریوں کی قطاریں لگی رہتی ہیں ۔ ہوائی جہاز بھی رن ویز پر ٹیکسیوں کی طرح آگے پیچھے رواں دواں رہتے ہیں ۔ ٹیک آف اور لینڈنگ کی اپنی اپنی قطاریں نظر آتی ہیں ۔ ریاستوں کے درمیان ڈیڑھ گھنٹے سے لے کرپانچ گھنٹے یا اُس سے بھی زائد وقت کی فضائی پروازیں ہوتی ہیں ۔ بالعموم داخلی فضائی اَسفار کے لیے جہاز چھوٹے ہوتے ہیں ، لیکن بڑے بھی ہوتے ہیں،چونکہ یہاں داخلی اَسفار میں مفت کھانا نہیں دیا جاتا ، اس لیے دو یا تین فضائی میزبان (Crew)کافی ہوتے ہیں ، ایرلائنیں بہت زیادہ ہیں ۔ اس لیے ان میں مسابقت بھی اسی تناسب سے ہے ، وہ مسافروں کو کرائے میں رعایت دیتے ہیں ، کھانے سے نہیں بہلاتے ، جیساکہ پاکستان میں ڈیڑھ گھنٹے کے مقامی فضائی سفر میں بھی کھانا یا ناشتہ ضرورفراہم کیا جاتا ہے ، اس لیے اسی تناسب سے فضائی میزبانوں (Crew)کی تعداد بھی فی جہاز عالمی معیار سے زیادہ ہوتی ہے اور پھر کچن سے وابستہ ایک پورا شعبہ کام کررہا ہوتا ہے اور یوں ہماری قومی ایئرلائن کے انتظامی مصارف بہت زیادہ ہیں ، یہی صورتِ حال دیگر اداروں کی ہے۔جن سیاسی جماعتوں نے اہمیت و قابلیت اور حقیقی ضرورت کے تمام معیارات کو پسِ پشت ڈال کر اپنے کارکنوں کو ان اداروں میں بھرتی کرایا ہے ، وہ اصلاح اور ان اداروں کی تعمیر نو اور تشکیلِ نوکی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ‘ اس لیے یہی آہ و بکا اور رونا دھونا جاری رہے گا۔
میری امریکہ آمد کا مقصد میلاد النبی ﷺ کے اجتماعات اور مجالس میں شرکت اور اس حوالے سے خطابات ہیں ۔ اب تک نیو یارک ، نیوجرسی، نارتھ کیرولائنا اور ٹیکساس کی ریاستوں میں جانے کا موقع ملا ہے اور ابھی کیلی فورنیا ، نارتھ کیرولائنا، ٹینیسی(Tennessee) اوربعض دیگر ریاستوں کے اَسفار باقی ہیں ۔ مختلف مساجد ، اسلامی مراکزاور ہالوں میں پروگرام ہوتے ہیں ۔ یہاں مسلمان اپنی فیملیز سمیت ان پروگراموں میں شریک ہوتے ہیں اور یہ ایک طرح سے سماجی ملاقاتوں اور باہمی میل جول کا بھی ذریعہ ثابت ہوتے ہیں ، خاص طور پر ہمارے پاک و ہند کے مسلمانوں کو اپنے ماحول میں کچھ وقت گزارنے کا موقع مل جاتا ہے ۔ سوال و جواب کی نشست بھی لازمی ہوتی ہے ، دین سے متعلق مردا ورخواتین سب کو اپنے سوالات کے جوابات سننے کا موقع ملتا ہے ۔ چونکہ لوگ دور دراز سے سفر کر کے آتے ہیں، اس لیے دعوتِ طعام بھی ان پروگراموں کا لازمی حصہ ہوتی ہے ، کیونکہ غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کے مکانات فاصلوں پر اور منتشر ہوتے ہیں ، اس لیے یہ مذہبی اجتماعات ان کے لیے بسا غنیمت ہوتے ہیں ۔
چونکہ امریکہ کی دو بڑی سیاسی جماعتوں ڈیموکریٹک پارٹی اور ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدواروں کے پرائمری سطح پرانتخابی مہم جاری ہے ، اس لیے اپنی اپنی پارٹی کی نمائندگی حاصل کرنے کے لیے صدارتی امیدوار اپنا اپنا منشور اور پروگرام پارٹی کی سطح پر پیش کرتے ہیں اور یہ انتخابی مہم طویل اور صبر آزما ہوتی ہے ، آپس میںمباحثے ہوتے ہیں ۔ ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ جو ایک انتہائی مال دار شخص ہیں، مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائے ہوئے ہیں اور سردست ان کی گڈی چڑھی ہوئی ہے ، تاہم ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ اپنی جماعت ریپبلکن پارٹی کا صدارتی امیدوار بننے میں کامیابی حاصل کر پائیں گے یا نہیں ، لیکن سردست بہر حال رونق لگی ہوئی ہے ۔ جیسا کہ میں نے پچھلے سال بھی لکھا تھا کہ امریکی صدر بارک حسین اوباما نے تارکین وطن (Immigrants)کے ساتھ جو وعدے کیے تھے کہ ان کو قانونی حیثیت (Legal Status)دیں گے ، تاحال وہ اپناوعدہ ایفا نہیں کر سکے اور تارکینِ وطن زبانِ حال و قال سے غالب کے اس شعر کی مجسم تصویر ہیں ؎
تیرے وعدے پہ جیے ہم ،تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے ، اگر اعتبار ہوتا
اس کی وجہ یہ ہے کہ کانگریس کے دونوں ایوانوں پر ریپبلکن پارٹی کا غلبہ ہے اور وہ یہ نہیں چاہتے کہ ڈیموکریٹ صدر باراک اوباما یہ اعزاز حاصل کریں ۔ اس کی زد میں صرف پاکستانی ہی نہیں ہیں، دیگر ممالک کے تارکینِ وطن بھی آتے ہیں اور سب سے زیادہ تعداد میکسیکن یا اسپینش باشندوں کی ہے ، کیونکہ میکسیکو کی سرحد سابق صدر بش کی ریاست ٹیکساس (Texas)سے ملی ہوئی ہے اور وہ کسی نہ کسی طرح سرحد پار کر کے آجاتے ہیں ۔ یہ لوگ محنتی بھی ہیں اور محنت کش شعبوں کی اَفرادی ضروریات کو پورا کرتے ہیں ۔ چونکہ امریکہ اور مغرب میں اوسط عمریں بڑھ رہی ہیں ، اس لیے بوڑھے مردوں اور عورتوں کی آبادی کا تناسب بڑھ رہاہے اور عمر رسیدہ شہریوں (Senior Citizens) کے لیے Male Nurses اور Female Nursesکی طلب بھی بڑھتی رہے گی، کیونکہ ان کی کفالت اور نگہداشت ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے۔ خاندانی نظام اگرچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے، مگر مغربی معاشرہ بحیثیت مجموعی عمر رسیدہ لوگوں ، معذوروں اور بچوں کا بہت خیال رکھتاہے اور یہ ذمے داری ریاست نے اپنے ذمے لے رکھی ہے ۔
یہاں ہمارے پاکستانیوں کی ایک مُعتَدبہ تعداد خوش حال بھی ہے ، ان کے اپنے اپنے کاروبار بھی ہیں ، مگر دل کو دہلا دینے والی داستانیں بھی بہت ہیں ۔ ہمارے کئی ہموطن ایسے ہیں کہ دس دس سال یا اس سے بھی زیادہ عرصے سے اپنے بیوی بچوں سے جدا ہیں ، بس موبائل فون پر گفتگو کر کے یا اسکائپ پر ایک دوسرے کی صورتیں دیکھ کر اپنے دل بہلالیتے ہیں ۔ جن کے گرین کارڈ یا قانونی حیثیت کے حوالے سے معاملات Under Processیا زیر غور ہیں ، وہ یہاں سے جانے کا سوچ نہیں سکتے کہ پھر استحقاق سے محروم ہوجائیں گے، واپس امریکہ آنے کے لیے ویزا بھی نہیں ملے گا اور اپنے وطن میں کوئی ذریعہ ٔ روزگار بھی نہیں ہوگا،جبکہ خاندان والے آسائشوں کے عادی ہو چکے ہیں اور یہ اپنے جذبات ، احساسات اور خواہشات کو کچل کر انہیں آسائشیں پہنچا رہے ہیں ۔ شوہروں اور بیویوں کے درمیان دس دس سال یا اس سے زیادہ عرصے کی دوری کے سبب کئی سماجی و اخلاقی مسائل بھی یقینا جنم لے رہے ہوں گے ، لیکن ''نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن ‘‘ والی صورتِ حال ہوتی ہے جس کا تصور بھی روح فرسا ہے ، شاعر نے کہا تھا :
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے ! کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
ہمارے کئی اہلِ وطن کے اپنے کاروبار ہیں ، مُرفَّہُ الحال اور خوش حال ہیں ، امریکہ کا گرین کارڈ یا نیشنلٹی یعنی قومیت بھی حاصل ہوتی ہے ، امریکن پاسپورٹ بھی ہاتھ میں ہوتا ہے ، لیکن یقین جانیے ! اپنے وطن کا بدل یہ تمام آسائشیں بھی نہیں ہیں ۔ ذراسی مشکل پیش آجائے تو جان نکل جاتی ہے ، پاؤں تلے سے زمین سرکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ایئرپورٹ پر امیگریشن کے موقع پر اگر نام کی معمولی سی مشابہت کی وجہ سے کمپیوٹر اسکرین پر کراس (X) کا نشان آجائے، آدمی تھوڑی دیر کے لیے مشکوک یا مشتبہ (Suspect) قرار پائے تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ جیسے دس منزلہ عمارت ریت کی دیوار ثابت ہو اور دھڑام سے گر جائے ۔ فلوریڈا میں ایک بڑے کاروباری پاکستانی نے بتایا کہ مجھے جہاز سے پکڑکر باہر لے آئے اور سوالات و تلاشی کے مرحلے سے گزرنا پڑا اور اب پاکستان کے لیے عزمِ سفر کرتے وقت کھٹکا سا لگا رہتا ہے، تو پھر امریکی پاسپورٹ کس کام کا ؟ ۔ سواپنے وطنِ اصلی پر جو ناز ہوتا ہے ، اعتماد ہوتا ہے ، آدمی ہر ایک سے الجھ جاتا ہے ، انگریزی بول کر رعب جماتاہے ، امریکہ میں یہ سارے حربے سود ثابت ہوتے ہیں ، سانپ سونگھ جاتا ہے ، رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، آدمی اندر سے ٹو ٹ پھوٹ جاتا ہے۔ لیکن وطن کے اندر محرومیاں یا آسائشوں ، عشرتوں اور راحتوں کی جنت پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہے اور آدمی جسم وروح کی آزادی پر سونے کے قفس (پنجرے ) کو ترجیح دیتا ہے ۔
دوسری جانب ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے سپر اسٹار اینکرز ہر روز سرشام ریٹنگ کے شوق میں وطنِ عزیز کی جومکروہ اور سرتاپا خرابیوں سے آلودہ تصویر دکھاتے ہیں اور ناکامیوں و نامرادیوں کا ایک عجیب منظر کمال ِفنکاری سے پیش کرتے ہیں ، تو اگر کوئی پاکستانی سرمایہ سمیٹ کر اور رختِ سفر باندھ کر واپس پلٹنے کا سوچتابھی ہے تو اس کے قدم رک جاتے ہیں ، اس لیے میں اکثر ان صاحبانِ کمال سے التجا کرتا رہتا ہوں کہ خدارا کبھی پاکستان کا اچھا رخ بھی دکھادیا کریں ، آپ کی پیش کش (Presentation)، طلاقتِ لسانی اور کمالِ فن کی زکوٰۃ ہی سہی ، ایک لمحے کے لیے پاکستان کے غم میں گھلنے والے پاکستانیوں کا اپنے وطن پر اعتماد تو بحال ہوجائے گا ، کسی کی پرواہ نہیں ہمارے لیے بھی کوئی جائے امان تو ہے ۔ امریکہ میں میرے دورے کا پروگرام نیوجرسی کے ایک ممتاز خطیب ، جو عربی ، انگلش اور اردو پر یکساں عبور رکھتے ہیں ، علامہ مقصود احمد قادری نے ترتیب دیا ہے ۔ روزنامہ دنیا کے ادارتی صفحات پر ان شاء اللہ معمول کے مطابق نصف ملاقات کا سلسلہ جاری رہے گا ۔