امریکہ میں ماحول ، خوراک اور نگہداشت کی بہتر سہولتوں کے باعث انسان کی اوسط عمر میں اضافے کے دعوے ضرور کیے جاتے ہیں ، مگر موت کو ہمیشہ کے لیے ٹالنے اورحیاتِ جاودانی کا دعویٰ کسی نے نہیں کیا ۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا ایک وقت مقرر ہے، قرآن کریم میں ہے :'' بے شک اللہ کی طرف سے موت کا مقررہ وقت جب آجائے ، تو ٹلتا نہیں ہے ۔‘‘
اس عنوان کا انتخاب میں نے اس لیے کیا کہ نیو یار ک میں One Nation کے نام سے ایک رفاہی ادارہ مسلمانوں کی میتوں کی تجہیز و تکفین میں مد د کرتا ہے ، کیونکہ یہاںموت کے بعد تجہیز وتکفین اور میتوں کو ان کے آبائی وطن تک ترسیل کے مراحل کافی طویل ہیں اور ان پر ہزاروں ڈالر خر چ آتا ہے اور اس میں بھی مالی حیثیت کے اعتبار سے فرقِ مراتب ہے ۔ One Nation لوگوں کی رہنمائی کے علاوہ اہل ِخیر کے ذریعے ضرورت مندوںکی مالی اعانت بھی کرتی ہے ۔ حافظ محمد یاسر ایوب اور میاں ندیم اسحاق اس کے روحِ رواں ہیں ۔
میں نے ان کی دعوت پر ایک Funeral Home کا دورہ کیا ، آپ اسے'' دارالتجہیز والتکفین ‘‘سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ پھر میں نے اس پورے نظام کو سمجھنے کے لیے ٹینیسی اسٹیٹ میں اپنے ایک انتہائی مہربان دوست ڈاکٹر شہرام ملک سے رابطہ کیا اور تمام فنی امورکو سمجھنے کی کوشش کی۔میں ان کی علمی معاونت پر ان کا شکر گزار ہوں اور ان کے لیے دست بدعاہوں ۔
جب کسی کا کوئی رشتے دار امریکہ میں فوت ہو جائے اور وہ میت کو پاکستان لانا چاہتے ہو ں توحکومتِ پاکستان کو مختلف دستاویزات در کار ہوتی ہیں، جن کی تفصیل سفارت خانے کی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اُن میں سب سے اہم میت کی حنوط کاری کا سرٹیفکیٹ ہے۔حنوط کاری ایک ایسا ''کیمیائی عمل ‘‘ہے، جس کے ذریعے میت کو محفوظ کیا جاتا ہے ، اس کے علاوہ میت کی لاش کو جراثیم سے پاک کیا جاتا ہے تاکہ لاش کی پاکستان کو ترسیل کی جاسکے ۔
حنوط کاری کے عمل کی تفصیل درجِ ذیل ہے : سب سے پہلے میت کو مردہ خانے لے جاتے ہیں تاکہ اُس کے جسم کو جراثیم سے پاک وصاف (Disinfect)کیا جاسکے ۔ اس کے لیے عام طور پر الکحل(Alcohol)کا استعمال کیا جاتاہے۔ یہ تصور ہی دل کو دہلا دینے والا ہے کہ وہ مسلمان جس نے ساری زندگی شراب سے نفرت کی ہو ، اس سے بچنے کی ہر ممکن تدبیر کی ہو ، مرنے کے بعد اس کے جسم میں الکحل داخل کی جائے۔ اس کے بعد میت کی آنکھوں کے اندر ایک خول چڑھایا جاتا ہے تاکہ آنکھوں کا مواد باہر نہ آسکے ۔ پھر ہونٹوں کو آپس میں دھاگے کے ساتھ سی دیا جاتا ہے ۔ اس کے بعدحنوط کاری کی مشین کے ذریعے جسم سے تمام خون کو نکالنے کا عمل کیا جاتاہے ۔ جسم سے تمام خون نکالنے کے بعد اس کی جگہ کیمیائی مرکب داخل کیا جاتا ہے ۔ عام طور پر اس کے لیے گردن کا انتخاب کیا جاتا ہے ، جس میں Carotid Artery اور Jugular Veinسرفہرست ہیں ۔ میت کے بدن میں سوراخ کر کے ان رگوں میں ایک Trocar Metal یعنی آہنی ٹیوب کے ذریعے یہ کیمیائی مواد داخل کیا جاتا ہے ۔ اس میں یہ چیزیں شامل ہوتی ہیں:(1) Farmaldehyde (2)Ethanolیعنی الکحل (3) Glutaraldehyde (4)Humectantsیہ کیمیائی مرکب جسم میں چار کام کرتا ہے: (i) جسم سے خون کو نکالنے میں کام آتا ہے. (ii) جسم سے جراثیم کو دور کرتا ہے ۔ (III) اس کے اندر کچھ خاص عناصرجلد کو اپنی اصل رنگت پر لاتے ہیں اور (iv) ایک خاص عنصر ہوتاہے جو جسم سے Lysosomesکو جذب کر لیتا ہے تاکہ مردے کا جسم گلنے سڑنے سے بچ سکے ۔ Lysosomesخَلیے کے اندر Cellکو کہتے ہیں،یعنی یہ Lysosomesکو ہڑپ یا جَذب کر لیتا ہے۔ Ethanolیعنی الکحل مُحلِّل (Solvent)ہوتا ہے اور منجمد خون اور دیگر چیزوں کو تحلیل کرتا ہے تاکہ یہ چیزیں مائع شکل (Liquid Form)میں بد ن سے خارج ہو سکیں۔
اس کے بعد جسم کے تمام اعضاء مثلا معدہ، آنتوں ، مثانے وغیرہ کے اندر لوہے کی ٹیوب ڈال کر ان میں سے تمام مواد نکال لیا جاتا ہے ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ناف کے ذریعے لوہے کی ٹیوب جسم میں داخل کی جاتی ہے اور مشین کے ذریعے جسم کے تمام اعضاء میں سے مواد کو چوس یا جذب کر کے نکال لیا جاتا ہے اور پھر ایک دوسری مشین کے ذریعے اس میں کیمیائی مرکب بھر دیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد جسم میں جہاں جہاں چیرے کیے گئے تھے ، انہیں سی دیا جاتا ہے ۔ پھرجسم کے اوپر مختلف کریمیں اور عطریات لگاکر مردے کو تابوت میں بند کر دیا جاتا ہے ۔
میت کی حنوط کاری کا عملہ زیادہ ترغیرمسلم خواتین پر مشتمل ہوتا ہے ، یہ لوگ Embalmer Technicianکہلاتے ہیں۔ جلی ہوئی یا کسی بھی صورت میں مسخ شدہ میت کو تصویر کی مدد سے اپنی اصل صورت کے مطابق بنانے کے لیے ان ٹیکنیشنز کو خصوصی تربیت دی جاتی ہے،اس کا معاوضہ بھی زندگی میں پلاسٹک سرجری کی طرح یقینا زیادہ ہوتا ہے ۔ میں نے کافی محنت سے ممکن حد تک یہ درست معلومات جمع کی ہیں ، آپ پر اس طریقۂ کار سے اسلام کی سوچ اور ان کی سوچ کا فرق واضح ہو چکا ہوگاکہ اسلام میت کی عاقبت کو سنوارنے اور اکرام کے ساتھ دفن کرنے کو ترجیح دیتا ہے اور نمازِ جنازہ ، ایصالِ ثواب اور دعائے مغفرت کی حکمت یہی ہے ، ان کے نزدیک مردہ جسم کا تحفظ اور اپنے آپ اور حیوانی و نباتاتی حیات کو اس کے جسم سے ممکنہ طور پر نکلنے والے بیکٹریا اور وائرس سے بچانا مقصود ہوتا ہے ۔
چکبست لکھنوی نے کہا تھا ؎
زندگی کیا ہے ؟ عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے ؟ ، ان اجزا کا پریشاں ہونا
سائنس بھی یہی کہتی ہے کہ انسانی اعضاء کے خَلیے (Cells)جو حیات کے سبب ایک دوسرے کے ساتھ پیوست (Integrated)ہوتے ہیں ، موت کے بعدیہ خَلیے بتدریج ایک دوسرے سے (Delink)اور (Disintegrate)یعنی منتشر ہونا شروع ہوتے ہیں ،تو جسم میں ٹوٹ پھوٹ اور گلنے سڑنے کا عمل شروع ہوتا ہے ، جسے قرآن و حدیث میں ''رَمیم‘‘ سے تعبیر فرمایا گیا ہے ۔ یہ لوگ بے جان جسم کومحفوظ رکھنا چاہتے ہیں ، اسی کو حنوط کاری کہا جاتا ہے اور مصری فرعونوں کے حنوط شدہ مردہ اجسام آج بھی قرآن کی وعید کے مطابق درسِ عبرت کے لیے موجود ہیں ۔
جناب ڈاکٹر شہرام ملک نے بتایا کہ اگر ہم اپنی میتوں کوامریکہ میںدفن کرنا چاہیں تو اسلامی طریقے کے مطابق تجہیز و تکفین کرکے کر سکتے ہیں ، میت کو کفن پہنا کر صرف آہنی بوکس میں بند کر کے دفن کرنا ہوتا ہے تاکہ ان لوگوں کے مطابق ان اموات کے بدن سے کوئی وائرس یا بیکٹریا نکل کر انسانی یا نباتاتی حیات کو نقصان نہ پہنچائے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ہم کفن میں ملبوس میت کو قبر کے اندر زمین پر رکھ کر ان کی قانونی ضرورت کو پوراکرنے کے لیے آہنی بوکس کو اس کے اوپر الٹا کر رکھ دیتے ہیں ۔ علامہ اقبال نے کہا تھا :
ہر مُلک مُلکِ ما است
کہ مُلکِ خدائے مااست
ایمان و کفر کا تعلق زمین سے نہیں ہوتا ، اس کے اوپر آباد انسانوں اور ان کے عقائد سے ہوتا ہے ۔ سو میرے نزدیک اموات کو اس تکلیف دہ عمل سے گزارنے سے بچنے کے لیے جہاں موت واقع ہوئی ہے ، وہیں دفن کر دینا چاہیے ۔ ہم دعائے مغفرت اور ایصالِ ثواب کا اہتمام ہر جگہ اور ہزاروں کلو میٹر دور سے بھی کر سکتے ہیں ، اسلام میت کی تکریم کا حکم دیتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :(1)''میت کی ہڈیوں کو توڑنا ایسا ہی ہے جیسے حالتِ حیات میں انہیں توڑنا (یعنی میت کی ایذاء رسانی شرعا ممنوع ہے ) ، (سنن ابن ماجہ : 1616)‘‘۔(2) : ''تم میں سے کوئی شخص آگ کے جلتے ہوئے انگارے پر بیٹھ جائے اور اس کے کپڑوں سے ہوتے ہوئے آگ اس کی جلد تک پہنچ جائے ، یہ (اذیت ) اس سے بہتر ہے کہ وہ (کسی کی ) قبر پر بیٹھے ، (سنن ابوداؤد : 3228)‘‘۔ میری رائے میں دور دراز کے رشتے داروں کے انتظار میں کئی کئی دن میت کو برف خانے میں رکھنا ، یہ بھی اذیت رسانی کا عمل ہے اورہمیں اس سے احتراز کرنا چاہیے ۔شریعت کا حکم غسلِ میت ، تکفین اور جنازے کے بعد جلد از جلد تدفین کا ہے ۔
ادارے کے ذمے داران نے بتایا کہ اب حنوط سے بچنے کے لیے ہم نے کیمیکل شیٹس میں میت کو لپیٹ کر اور ایئر ٹائٹ کر کے سی لینے کی منظوری حاصل کی ہے، یہ شیٹ لچک دار دھات سے تیار کی جاتی ہے اور یہBio Sealکے لیے استعمال کی جاتی ہے تاکہ میت کے جسم سے کوئی بیکٹریا یا وائرس نکل کر ماحول کو متاثر نہ کرے ۔ یہ طریقہ حنوط کار ی کے عمل کا بہتر متبادل ہے، اور جو لوگ اپنی میتوںکو وطن لے جانے پر مُصر ہوں ، انہیں اس دوسرے طریقے کو اختیار کرنا چاہیے لیکن شریعت کی رو سے یہ پسندیدہ امر نہیں ہے ، کیونکہ میت کو کئی دن تک برف خانے میں رکھنا ، طویل سفر کے مرحلے سے گزارنا ، میت کے لیے تکلیف دہ عمل ہے اور حدیث میں اس کی ممانعت فرمائی گئی ہے ، اس لیے یہ سارا عمل از روئے شرع ناپسندیدہ ہے ۔
نوٹ : یہ کالم امریکہ میں سفر کے دوران لکھا گیا ہے اور امید ہے میڈیکل کے طلبہ وطالبات کے لیے بھی مفید ثابت ہو گا ۔