"MMC" (space) message & send to 7575

وفائے جفا نما

علامہ محمد اقبال نے کہا ہے : 
گلۂ وفائے جفا نما کہ حرم کو اہلِ حرم سے ہے
کروں بتکدے میں بیاں اگر ، تو کہے صنم بھی ہری ہری 
سو'' وفائے جفا نما ‘‘کی مثالوں سے ہمارا گرد و پیش بھرا پڑا ہے۔ اسے ''دوست نما دشمن ‘‘سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ نام نہاد محبین آفتِ جاں ہوتے ہیں ، ان سے بچ کر رہنے ہی میں سلامتی ہے ، لیکن بعض اوقات ان کی زد سے بچنا دشوار ہوجاتا ہے ۔ اسی مخلوق سے چیف آف آرمی اسٹاف جناب جنرل راحیل شریف کو واسطہ پڑا ہے ۔ ان اینکر پرسنز نے دکانیں سجائیں اوردانائے روزگار ماہرین کو اسٹوڈیوز میں بٹھا کر بحث شروع کردی کہ جنرل راحیل شریف کو توسیع دی جائے، ملک و قوم کی ضرورت ہے ، آپریشن ضربِ عضب کو درمیان میں نہیں چھوڑا جا سکتا وغیرہ ۔ بظاہر یہ ساری تگ و دو اور ذہنی کاوش چیف آف آرمی اسٹاف کی حمایت میں نظر آرہی تھی ، لیکن اس کے پیچھے حبِّ علی سے زیادہ بغضِ معاویہ کار فرما تھا اوراصل مقصدلرزتے ہوئے جمہوری نظام اور وزیرِ اعظم کو دباؤ میں لانا تھا ۔ چنانچہ سینیٹر چوہدری اعتزاز احسن جیسے لوگوں کوبیان دینے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ توسیع نہیں ہونی چاہیے ۔ غالب نے کہا تھا: 
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے ، دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف کے منصب کے دورانیے کے وسط میں یہ بحث چھیڑنے کی کیا ضرورت تھی؛ چنانچہ جناب جنرل راحیل شریف کو ان کی زبانوں کی زد سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے کم و بیش ایک سال پہلے یہ اعلان کرنا پڑا کہ میں توسیع پر یقین نہیں رکھتا۔ انہوں نے اپنی حب الوطنی ، شجاعت اور اخلاص سے پوری قوم کے دلوں میں جو مقبولیت کا مقام بنایا ہے ، یہ ان کی پیشہ ورانہ زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے اور انہوں نے سوچا ہوگا کہ اسے اٹھائی گیروں سے بچالیا جائے ۔ 
ہمارے عربی علوم و فنون میں یہ جملہ مختلف مواقع پر بکثرت استعمال ہوتاہے :''اَلنُّکْتَۃُ لِلْفَارِّ، لَا لِلْقَارِّ‘‘یعنی اگر کوئی چیز قاعدے ضابطے اور طے شدہ اصول کے مطابق چل رہی ہے ، تو اس کے لیے کسی نکتہ آفرینی اور تاویلات و توجیہات کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ۔ تاویلات و توجیہات اور نکتہ آفرینی کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب کسی حکمت کے تحت طے شدہ اصول سے عدول (Deviation) اور انحراف کیا جائے ۔ جیسے علم نحو کا ضابطہ یہ ہے کہ جملے میں مُبتدا مُقدَّم ہوتا ہے اور خبر مؤخَّر ہوتی ہے ۔پس جب خبر کو مبتدا پر مقدَّم کیا جائے ، تو اس کی حکمت ضرور معلوم کی جائے گی اور علمِ معانی میں اس کی حکمتیں مذکور ہیں۔ اسی طرح ضرورتِ شعری کی بنا پر اور وزنِ شعر کو قائم رکھنے کے لیے لفظ میں تھوڑا سا تغُیّر و تبَدُّل کر لیا جاتا ہے اور یہ فنِّ شاعری میں قابل ِ قبول ہے۔
پس جب چیف آف آرمی اسٹاف اپنے منصب کے دورانیے کو ضابطے کے مطابق گزار رہے تھے اور اس کے برعکس نہ کوئی مطالبہ ہوا اور نہ ہی حکومت کی طرف سے کوئی اقدام ہوا ، تو یہ بحث غیر ضروری اور ان کی ذات کے لیے یقینا تکلیف دہ ہوگی ۔ ہاں ! اگر کسی مرحلے پر ان کے منصب کے دورانیے میں توسیع کا فیصلہ ہوتا تو لازماً اس کا جواز بھی متعلقہ اتھارٹی کی طرف سے پیش کیا جاتا ۔ جیسا کہ سابق وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے جب جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدتِ ملازمت میں ایک مکمل دورانیے کا اضافہ کر دیا ، تو خواہ پسِ پردہ اس کے اسباب کچھ بھی ہوں ، انہیں یہ جواز پیش کرنا پڑا کہ دورانِ جنگ سپہ سالار کو تبدیل نہیں کیا جاتا ۔ لہٰذا قبل از وقت واویلا مچانے کی کیا ضرورت تھی ، پھر جو لوگ فطرتاً بد گمان ہوتے ہیں ، وہ قیاس آرائیاں کرتے ہیں کہ کسی کے اشارے پر میڈیامیں یہ تحریک چلائی جا رہی ہے ۔ اس لیے جناب جنرل راحیل شریف کو خود اس مہم کو بریک لگانے کی ضرورت محسوس ہوئی ۔جو لوگ کسی ایجنڈے کے تحت اس طرح کی مہم جو ئی کرتے ہیں ، ان کے عزائم کو پہچاننا کچھ زیادہ دشوار نہیں ہوتا ، بقولِ شاعر : 
بہر اندازِ کہ خواہی جامہ می پوش
من اندازِ قدت را می شناسم 
یعنی کوئی بھی خوش نما ، دل کش اور آنکھوں کو خیرہ کردینے والا لباس پہن کر سامنے آؤ ، میں تمہاری قامت کی بلندی کو خوب جانتا ہوں اور اس طرح کے حربوں سے حقیقت تبدیل نہیں کی جا سکتی ۔ آدم علیہ السلام کے سفر کا آغاز ہی ''دوست نما دشمن ‘‘یعنی ابلیس کے دَجَل و فریب اور حیلہ سازیوں سے ہوا ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ''اور اے آدم ! تم اور تمہاری بیوی (دونوں ) جنت میں رہو ، سو جہاں سے چاہو تم دونوں کھاؤ ( اور پیو) اور (خبر دار !) اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم دونوں حد سے تجاوز کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے ۔ پھر شیطان نے دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان دونوں کی شر م گاہوں کو ، جو ان سے چھپائی ہوئی تھیں ، ظاہر کردے اور اس نے کہا : ''تمہارے رب نے تم کو اس درخت سے اس لیے روکا ہے کہ مباداتم فرشتے بن جاؤ یا ہمیشہ رہنے والوں میں سے ہو جاؤ ‘‘ اور اس نے قسم کھا کر ان دونوں سے کہا : ''بے شک میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں ‘‘۔ پھر فریب سے انہیں اپنی طرف مائل کر لیا۔ پس جب ان دونوں نے اس درخت کو چکھا ، تو ان کی شرم گاہیں ان کے لیے ظاہر ہو گئیں اور وہ اپنے اوپردرخت ِ جنت کے پتے چپٹانے لگے ، (الاعراف : 19-22)‘‘۔ 
آپ نے غور فرمایا کہ ابلیس نے دوست نما دشمن کے روپ میں آدم علیہ السلام کوبہکایا ۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ کھلے دشمن کو پہچاننا اور اس کے وار سے بچنا آسان ہوتا ہے ، لیکن آستین کے سانپ کی زد سے بچنا دشوار ہوتا ہے ۔ شیطان نے آدم علیہ السلام کو یقین دلانے کے لیے جھوٹی قسمیں بھی کھائیں ، اپنے آپ کو خیر خواہ کے روپ میں پیش کیا اور یہ بھی باور کرایا کہ اس ممنوعہ درخت کوکھانے سے آپ کو حیاتِ دوام مل جائے گی یا فرشتے بن جاؤ گے ۔ سو بنی آدم کو چاہیے کہ اپنے جدِّ اعلیٰ حضرت آدم علیہ السلام اور جدّۂ ِ عُلیا حضرتِ حوّا علیہا السلام کی آپ بیتی کا مطالعہ کر لیا کریں اور ان کے تجربے سے استفادہ کریں ، کیونکہ آدم و ابلیس کی جو جنگ آدم علیہ السلام کے جنت سے نکلنے کے وقت شروع ہوئی ہے، وہ تاقیامت جاری رہے گی۔ علامہ محمد اقبال نے کہا :
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز 
چراغِ مصطفوی سے شرارِبو لہبی 
پس نوشت : امریکی صدر باراک اوباما کے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کو میں نے آسان الفاظ میں قارئین کے سامنے پیش کیا تاکہ انہیں حقائق کا اندازہ بھی ہو اور درست معلومات بھی ملیں ۔ اسے قارئین ِ کرام نے دلچسپی سے پڑھا ، ان کا ازحد شکریہ ۔ میرے عرض کرنے کا مدّعا یہ تھا کہ تاریخِ انسانیت کے ہر فرعون کا کِبر و غرور اور اندازِ تَعَلّی یہی تھا ۔ فرعونِ موسیٰ( علیہ السلام ) نے کہا : '' میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں ، (النٰزعٰت : 22 )‘‘یعنی: "I am your supreme Lord"۔ قومِ عاد نے کہا : ''ہم سے زیادہ طاقت والا کون ہے ، (حٰم السجدہ : 15)‘‘۔ یہی دعویٰ امریکی صدر اوباما نے کیا ، اللہ تعالیٰ نے جواب دیا : ''جس قادر ِ مطلق نے انہیں پیدا کیا ہے ، وہی سب سے زیادہ طاقت والا ہے ،(حٰم السجدہ : 15)‘‘۔ نمرود کا دعویٰ بھی یہی تھا کہ جب میں کسی کی جاں بخشی بھی کر سکتا ہوں اور کسی سے جینے کا حق چھین بھی سکتا ہوں ، تو مجھے خدا مانو ، خدائی او ر کیا ہے ۔ لیکن آج وہ سب قصۂ پارینہ اور نشانِ عبرت ہیں ۔ آج کے فرعون کی مہلت کی رسی کتنی دراز ہے ، اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے ، لیکن بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ لمحۂ موجود میں امریکہ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے اور یہ دعویٰ کوئی معمولی تو نہیں ہے کہ : ''کائنات میں ہم جیسی رسائی کسی کو حاصل نہیں ہے ‘‘۔ یہ دعویٰ تو خالقِ حقیقی ہی کو سزا وار ہے : ''سنو! انہیں اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے بارے میں کوئی شک ہے ، سنو! بے شک وہ ہر چیز پر محیط ہے ، (حٰم السجدہ : 54)‘‘۔نمرود ہر ایک سے جینے کا حق چھیننے کا دعوے دار تھا ، لیکن اس مچھر سے نہ چھین سکا جو اس کے دماغ میں چڑھ کر اسے بے چین کیے رکھتا تھا ۔ فرعون سمندر کی ان موجوں کے آگے بند نہ باندھ سکا جو اسے بہا لے گئیں اور قیامت تک کے لیے نشانِ عبرت بنا دیا ۔ لیکن ماورائے عقل اور ما فوق الاسباب احکام جاری اور نافذ کرنا قادرِ مطلق کا اختیار ہے۔ ہمیں تو اپنا جواز عالَمِ اسباب میں ثابت کرنا ہے۔ اُمّتوں کے لیے تاریخ کے ہر دور میں قانون ِ قدرت یہی رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: '' یہ اللہ کا دستور ہے جو شروع سے چلا آرہا ہے اور آپ اللہ کے دستور میں کوئی تبدیلی نہ پائیں گے ، (الفتح : 23)‘‘۔''پس جب ان کے پاس کوئی ڈرانے والا آگیا تو اس کی آمد نے صرف ان کی نفرت، زمین میں ان کے تکبر اور ان کی بری سازشوں ہی کو زیادہ کیا اور بری سازشوں کا وبال (آخرِ کار ) ان سازشیوں پر ہی پڑتاہے ، وہ صرف پہلے لوگوں کے دستور کا انتظار کر رہیں ہے ، سو آپ اللہ کے دستور میں ہر گز کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے اور نہ آپ اللہ کے دستور کو کبھی ٹلتا ہوا دیکھیں گے ، (الفاطر : 43)‘‘۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں