"MMC" (space) message & send to 7575

سراسر فریب

سیاست اپنی اصل کے اعتبار سے اُمت ،ملّت یا کسی ملک وقوم کے اجتماعی امور کی تدبیر اور تنظیم کا نام ہے ،جس میں اُن کی فلاح کی ضمانت ہو ، اُن کے مفادات کاتحفظ ہو اور اُنہیں ممکنہ مَضرّات سے محفوظ رکھا جاسکے ۔اس معنی میں سیاست انبیائے کرام ورُسلِ عظام علیہم الصلوٰۃ والسلام کا شِعار ،سنت اور فریضہ رہا ہے ۔حدیث پاک میں ہے:''حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں :بنی اسرائیل کی سیاست (یعنی نظمِ اجتماعی کا اہتمام) انبیائے کرام فرماتے تھے ،جب ایک نبی کا وصال ہوجاتا ،تو اُس کی جگہ دوسرا نبی آجاتا، اب یہ قطعی امر ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ،سومیرے بعد بکثرت خلفاہوں گے، صحابہ نے عرض کی:(یارسول اللہ!)اس (عہد کے)بارے میں آپ ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں ؟،آپ ﷺ نے فرمایا:اپنی اپنی باری پر اُن کی بیعت کرنا اور انہیں اُن کا حق دینا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ اُن سے اُن کی رعایا کی بابت جواب طلبی فرمائے گا‘‘(صحیح مسلم:1842)
اُمَراء وخُلَفاء کو اُن کا حق دینے کی تشریح حدیث پاک میں اِن کلمات میں بیان فرمائی گئی ہے :''یعنی اُن کے جائز احکام کو سنو اور اُن کی اطاعت کرو ،رعیّت اور حاکم دونوں اپنی اپنی جگہ جواب دِہ ہوں گے‘‘(صحیح مسلم:1483)رسول اللہ ﷺ نے حاکم کی اطاعت کی حدود کو بھی اِن کلمات میں بیان فرمایا:''(کسی بھی صاحبِ اختیار کی)معصیت میں اطاعت نہیں کی جائے گی ،اطاعت صرف جائز اورمباح امور میں لازم ہوگی‘‘(بخاری:7257)ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:''جس نے میری اطاعت کی ،اُس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی ،اُس نے اللہ کی نافرمانی کی ،اور جس نے جائز امور میں حاکم کی اطاعت کی ،سو اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے جائز امور میں حاکم کی نافرمانی کی ،سو اُس نے میری نافرمانی کی ،حاکم رعایا کے مفادات کا محافظ اور اُن (کی سلامتی) کا مُدافِع ہے‘‘(بخاری:2957)حضرت دائود وسلیمان علیہما السلام بادشاہ گزرے ہیں ،اُن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:''اور ہم نے ہر ایک کوفیصلہ کرنے کی صلاحیت اور علم عطا فرمایا تھا‘‘ (الانبیاء:79)۔اس سے معلوم ہوا کہ حاکم کے لیے مطلوبہ اہلیت وقابلیت کا ہونا ضروری ہے۔
عہدِ فاروقی میں ایک غیر ملکی سفیر مدینۂ منورہ میں آیا اور لوگوں سے پوچھا کہ تمہارے امیر کا محل کہاں ہے ؟۔لوگوں نے جواب دیا: ہمارے امیر کا محل نہیں ہوتا ،وہ آپ کو مسجدِ نبوی میں مل جائے گا ،وہ اجنبی مسجدِ نبوی میں گیا تو دیکھا کہ امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ننگے فرش پر اپنے بازو کو تکیہ بنائے ہوئے آرام کر رہے ہیں ،وہ اجنبی حیران ہوگیا اور سوال کیا :کیا تمہارے امیر کے محافظ اور پہرے دار نہیں ہوتے؟،لوگوں نے جواب دیا:نہیں،اس نے پوچھا: کیوں نہیں؟،لوگوں نے جواب دیا :''(ہمارے امیرکولوگوں سے کوئی خطرہ نہیں ،کیونکہ )ہمارا امیر نہ دھوکا دیتا ہے اور نہ دھوکا کھاتا ہے‘‘ ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وراثتِ نبوت کا امین وہی امیر وحاکم ہے کہ جو نہ کسی کو فریب دے اور نہ ہی کسی سے فریب کھائے۔
اب آئیے !اس آئینے میں اپنا جائزہ لیں کہ آیا ہمارے اہلِ اقتدار اِس شعارِ نبوت اور معیارِ امارت وخلافت پر پورا اترتے ہیں۔پرویز مشرف کی بیرونِ ملک روانگی پر ہماری حکومت اور حزبِ اختلاف نے جو ناٹک رچایا ،کیا یہ سراسر خود فریبی اور فریب دہی نہیں ہے ؟۔وزیرِ داخلہ نے سپریم کورٹ کو آڑ بنایا اور کہا کہ عدالت نے اُن کا نام ممنوع الخروج فہرست (Exit Control List)سے نکال دیا ہے اورانہیں بیرونِ ملک سفر کی اجازت کا حکم صادرفرمایا ہے ۔حالانکہ عدالت نے صاف صاف کہا کہ آپ ہمارے کندھے پر بندو ق رکھ کر کیوں چلانا چاہتے ہیں، کسی کو بیرونِ ملک سفر کی اجازت دینا یا نہ دینا حکومت کا صوابدیدی اختیار ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن نے بھی تماشا لگایا ،صوبۂ سندھ کے مرنجامرنج وزیرِ اطلاعات مولابخش چانڈیو نے کہا:ہمیں جنرل پرویز مشرف کے بیرونِ ملک جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے ،ہمیں حکومت کے منافقانہ رویّے پر اعتراض ہے ۔حضورِ والا!جب آپ کو اُن کے بیرونِ ملک جانے پر اعتراض نہیں ہے اور وہ چلے بھی گئے ہیں تو اب پسِ مرگ واویلا مچانے کی کیا ضرورت ہے۔ اسی طرح قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا:یہ ٹھیک ہے کہ جنرل پرویز مشرف ہمارے دور میں بھی بیرونِ ملک آتے جاتے رہے ،لیکن ہم کمزور تھے ،مگر آپ تو شیر ہیں ،آپ نے 
کیوں جانے دیا؟ویسے اپنی کمزوری کا اعتراف اچھی بات ہے ،مگر دوسرے کے کمزور ہوجانے پر اعتراض کا کیا جواز بنتا ہے ۔آخر ایک وقت آتا ہے کہ شیر بھی کمزور ہو جاتا ہے اور وہ شکار کو قابو میں رکھنے کے قابل نہیں رہتا ،ہوسکتا ہے کہ آپ کا مخاطَب شیر بھی ضُعف کے اِس درجے میں پہنچ گیا ہو ،سو آپ کو یہ کہناچاہیے تھا: ؎
آعندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار ،میں چلائوں ہائے دل
اور علامہ اقبال کے الفاظ میں: ؎
آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے ،سینہ چاک
بزمِ گل کی ہم نَفَس،بادِ صبا ہو جائے گی
اس حوالے سے پورا سچ صرف پختونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے بولا ہے کہ آئین شکن جنرل (ر) پرویز مشرف کا باعزت طور پر بیرونِ ملک جانا ہم سب کی ناکامی ہے اور ہم سب کے لیے ذلت کا سبب ہے یاآسان لفظوں میں پارلیمنٹ دستور کے تحفظ کی اہل نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس حوالے سے یکسو اور یک زبان ہے،یہی وجہ ہے کہ اصل معاملہ طاقتور مقتدِرہ (Establishment) ہی طے کرتی ہے ،ہاں وہ حکومتِ وقت کو صرف اس قدر بھرم رکھنے (Face Saving) کا موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اندرونِ خانہ طے شدہ فیصلوں کونافذ کرے۔جیساکہ ایک انگریزی کہاوت کے مطابق ایک طرّم خان شوہر نہایت افتخار کے ساتھ یہ دعویٰ کرتا ہے : ''I am the Master of this House, and I have my Wife's permission to say so‘‘۔سو بلاشبہ ہماری پارلیمنٹ ہمہ مقتدِر (Sovereign)ہے کیونکہ ہماری اصل مقتدِرہ نے اسے یہ دعویٰ کرنے کی اجازت دے رکھی ہے،پوری قوم کومقتدِرہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اُس نے ان کی پارلیمنٹ کو اپنی ناک اونچی رکھنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ہمارے قابلِ افتخار سیاست دانوں اور رہنمائوں کو اپنے دامن پر داغ دھبّے بالکل نظر نہیں آتے ،جبکہ دوسرے کا دامن داغ داغ نظر آتا ہے ، بہادر شاہ ظفر نے کہا تھا: ؎
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر، رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر، تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
سو اندر سے ہم سب کا حال ایک ہی جیسا ہے ،اپنی کمزوریوں کاادراک اور اُن پر قابو پاناتو مشکل ہوتا ہے ،لیکن دوسروں کے عیوب کی نشاندہی اور اُن کا تمسخر اڑانا نسبتاً آسان بلکہ بے عمل لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے ،اسی لیے ہم نے اِسے اپنا قومی شِعار بنالیا ہے۔کسی ملک کی پارلیمنٹ اُس کی اجتماعی دانش کا مَظہر ہوتی ہے۔ سو:''بات سچ ہے ، مگر بات ہے رسوائی کی ‘‘کے مصداق ہماری اجتماعی دانش کا عکس کچھ زیادہ پر کشش نہیں ہے ،بلکہ اگر سچ بولنے اور سننے کا حوصلہ ہو تو یہ عکس شرمندگی کا باعث ہے ۔یہی حال ہمارے الیکٹرانک میڈیا کا ہے۔ نان ایشو یعنی غیر اہم بات کو کمالِ فن کاری سے انتہائی اہم بناکر محفل کو بارونق بنانا اُن کی ضرورت بلکہ مجبوری ہے ،اس سے قوم کا کوئی مفاد وابستہ ہو یا نہ ہو،یا قوم کو اس سے کوئی آگہی ملے یا نہ ملے،انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ۔ہمارا نظامِ حکومت ہویا ہمارا میڈیا ہو ،سارا نظم عارضی بنیادوں پر چل رہا ہے ،جیسے کسی مریض کورشتۂ جاں اور نظامِ تنَفُّس برقرار رکھنے کے لیے آکسیجن ٹینٹ میں رکھا جاتا ہے۔
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس انتہائی اہم قومی مسائل پر سنجیدہ غوروفکر اور قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لیے بلایا جاتا ہے ۔ لیکن ہمیں اس اجلاس میں کوئی سنجیدگی دور دور تک نظر نہیں آئی ۔در اصل بنیادی مسئلہ وہی ہے جس کی ماضی میں ہم نشاندہی کرتے رہے ہیں کہ ہماری پارلیمنٹ دو ایوانوں پر مشتمل ہے اور کوئی بھی بِل ملک کا قانون یا ایکٹ صرف اُس صورت میںبن سکتا ہے،جب اُس کی منظوری دونوں ایوانوں سے حاصل کی جائے ۔لیکن وزیرِ اعظم کو ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں اکثریت حاصل نہیں ہے ،بلکہ مولانا فضل الرحمن جو اقتدار میں حکومت کے حلیف ہیں، ایوانِ بالا میں وہ جنابِ آصف علی زرداری کے حلیف ہیں ۔وزیرِ اعظم اپنی جماعتی نمائندگی کے بل پر صرف قومی اسمبلی سے بجٹ منظور کراسکتے ہیں اور اس کے علاوہ سادہ قانون بھی پاس نہیں کراسکتے۔سو یہ نظام کی تحدید ، مجبوری اور حقیقت ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں