"MMC" (space) message & send to 7575

امانت ودیانت

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''بے شک اللہ تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ امانتیں اُن کے حق داروں کو ادا کرو اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو،توانصاف کے ساتھ فیصلہ کرو،بے شک اللہ کیسی اچھی نصیحت فرماتا ہے ،بے شک اللہ خوب سننے والا،دیکھنے والا ہے،(النساء: 58)‘‘۔ امانت کا مادّہ ''امن‘‘ہے ،اس کے معنی ہیں:''خوف وخطر سے محفوظ ہوجانا‘‘۔ انسان کسی کے پاس امانت اس امید پررکھتا ہے کہ وہ محفوظ ہوگی اور طلب کرنے پر اپنی اصل شکل میں دستیاب ہوگی ۔امانت انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے ، بلکہ حدیث مبارک میں ایمان اور امانت کو لازم وملزوم قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ''جو امانت دار نہیں،وہ (در حقیقت) صاحبِ ایمان نہیں اور جسے اپنے عہد کا پاسِ وفا نہ ہووہ دین دار نہیں ،(مسند احمد:12383)‘‘۔اور آپﷺ نے فرمایا:''اس امت سے جو چیزیں سب سے پہلے اٹھائی جائیں گی ،وہ حیااور امانت ہے،سو تم اللہ عزوجل سے ان کا سوال کرو،(شعب الایمان: 5276)‘‘۔ایمان کی ضد کفر ونفاق ہے اور حدیثِ پاک میں رسول اللہ ﷺ نے نفاق کی علامات بیان کرتے ہوئے فرمایا:''منافق کی نشانیاں یہ ہیں :''جب بات کرے تو جھوٹ بولے ،جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اُس کے پاس امانت رکھی جائے ،تو خیانت کرے اور جب معاہدہ کرے تو دھوکا دے،(صحیح البخاری:33-34)‘‘۔
امانت ودیانت کا تعلق افراد کے مابین بھی ہوتا ہے اور فرد اور معاشرے کے درمیان بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح بندے اور رب کے درمیان بھی ہوتا ہے اور بندے اور اُس کی ذات اور متعلقات کے درمیان بھی ہوتا ہے ۔افراد کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور اگر تم میں سے ایک کو دوسرے پر اعتبار ہو ،تو جس پر اعتماد کیا گیا ہے،اُسے چاہیے کہ وہ حق دار کو اُس کی امانت اداکرے اور (امانت کی پاسداری کے بارے میں )اللہ سے ڈرتا رہے جو اس کا رب ہے،(بقرہ:283)‘‘۔جس طرح بندوں کے مابین عہد وپیمان اور قول وقرار ہوتا ہے ،اسی طرح ایمان بھی بندے اور رب کے درمیان پیمانِ وفا کا ایک عہد ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اے ایمان والو!اللہ اور اُس کے رسول سے خیانت نہ کرو اور نہ ہی (اپنے مابین) امانتوں میں خیانت کرو،حالانکہ تم جانتے ہو (کہ امانت کی پاسداری ایمان کاجزوِ لازم ہے )،(الانفال:27)‘‘۔اسی طرح قرآنِ مجید کی سورۃ المومنون میں اہلِ ایمان کے متعدد اوصاف کو یک جا کر کے بیان فرمایا گیا ہے۔ ان تفصیلی اوصاف کے تسلسل میں فرمایا: ''اوروہ(اہلِ ایمان کامیاب قرار پائے )جو اپنی امانتوں اور عہد کی پاسداری کرتے ہیں ،(المومنون:8)‘‘۔اسی طرح بندے پر اُس کی اپنی ذات کے بھی حقوق ہیں اور اُن سے عہدہ برآ ہونا بھی لازم ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:''آپ ﷺ نے عثمان بن مظعون کو طلب فرمایا اور طلب کر کے ارشاد فرمایا:اے عثمان!کیا تم نے میری سنت سے منہ موڑ لیا ہے ،انہوں نے عرض کی:(یارسول اللہ!)ہرگز نہیں،میں تو آپ کی سنت کا طلب گار رہتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: (تو سنو!)میں (رات کو کچھ دیر کے لیے) سو بھی جاتا ہوں اور راتوں کو نوافل بھی پڑھتا ہوں اورمیں نفلی روزے بھی رکھتا ہوں اور کبھی چھوڑ بھی دیتا ہوں اور میں نے ازواج سے نکاح بھی کیا ہوا ہے (یعنی ازواجِ مطہرات کے حقوق بھی ادا کرتا ہوں)، سو اے عثمان! اللہ سے ڈرتے رہا کرو ،کیونکہ تمہارے بیوی بچوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے مہمان کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری جان کا بھی تم پر حق ہے ،پس کبھی نفلی روزے رکھ لیا کرو اور کبھی چھوڑ دیا کرو ،(اسی طرح رات کوکچھ دیر کے لیے )نوافل پڑھ لیا کرو اور کچھ دیر کے لیے نیند بھی کرلیا کرو (تاکہ صحت قائم رہے اور اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طاقت وہمت تم میں موجود رہے،(سنن ابودائود:1369)‘‘۔دوسری حدیث میں فرمایا: ''تمہاری جان کا بھی تم پر حق ہے ، تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے ، تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے ،(مسند الشامیین للطبرانی:2835)‘‘۔ایک اور مقام پر فرمایا:''بے شک تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے ، تمہاری جان کا بھی تم پرحق ہے ، تمہارے بیوی بچوں کا بھی تم پر حق ہے ،تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے ،تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے ،تمہارے مہمان کا بھی تم پر حق ہے ،پس ہر حق دار کو اُس کا حق پورا پورا دو،(صحیح بخاری:1968-74-75 کے کلمات کویک جا کرکے لکھا گیا ہے) ‘‘۔
بندوں کے مابین دائر معاملات میں چند اور چیزوں کے بارے میں بھی احادیثِ مبارکہ میں ہدایات دی گئی ہیں۔ ارشاد فرمایا: ''جس سے(کسی مباح امر کے بارے میں) مشورہ طلب کیا جائے، وہ امانت دار ہوتا ہے (یعنی اُس پر لازم ہے کہ دیانت دارانہ رائے دے تاکہ اُس کے دینی بھائی کو نقصان نہ اٹھانا پڑے،(سنن ابودائود:5128)‘‘۔اسی طرح مجلس میں کی گئی باتیں امانت ہوتی ہیں اور جس نے کوئی بات بیان کی ہے ،اُس کی اجازت کے بغیر اُس کا اِفشاکرنا حدیث پاک کی رُو سے منع ہے ،آپ ﷺ نے فرمایا: ''مجلس کی باتیں امانت ہوتی ہیں ،(سنن ابودائود:4869)‘‘۔اس حدیث میں صرف اُن امور کے اِفشاکی اجازت دی گئی ہے کہ جن کا تعلق کسی کی جان یا آبرو یا مال کی حرمت کو پامال کرنے سے ہو،یعنی ایسی باتوں کے بارے میں صاحبِ معاملہ کو یا صاحبِ اختیار کو بتانا ضروری ہے تاکہ انجانے میں کسی کو نقصان نہ پہنچے۔آج کل موبائل کے ذریعے نجی مجالس کی باتوں کو ریکارڈ کر کے اور تصویریں بناکر اِفشاکردیا جاتا ہے ،یہ شریعت کی رُو سے جرم ہے اور گناہ کا سبب ہے اوراس کی وجہ سے کئی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''امانت آسمان سے نازل ہوئی ہے اور یہ لوگوں کے دلوں کی جڑوں میں اتاری گئی ہے ،(صحیح بخاری:7276)‘‘۔اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کے بارے میں فرمایا:''اور بے شک یہ( قرآن) رب العالمین کا نازل کیا ہوا ہے،اسے روح الامین (جبریل)آپ کے قلب پرلے کرنازل ہوئے ہیں تاکہ آپ (اللہ کے عذاب سے)ڈرانے والے ہوجائیں، (الشعراء: 192-194)‘‘۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' ایک شخص کے دل میں ایمان اور کفر،سچ اور جھوٹ اور خیانت اور امانت جمع نہیں ہوتے(کیونکہ یہ چیزیں ایک دوسرے کی ضد ہیں )،(مسند احمد:8593)‘‘۔اسی بات کو قرآنِ مجید میں اِن کلمات میں ارشاد فرمایا ہے:''اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے اندر دو دل نہیں رکھے (کہ ایک میں اللہ کی محبت ہو اور دوسراغیر اللہ کی محبت کا مرکز ومحور بنے)،(الاحزاب:4)‘‘۔
سورۃ النساء کی آیۂ مبارکہ کو اگر وسیع تر معنی میں لیا جائے تو قوم کی امارت ،سیادت وقیادت اور خلافت وسلطنت بھی امانت ہے اور یہ امانت ،امانت داروں کے سپرد ہونی چاہیے ،ورنہ یہ امانتیں ضائع ہوجائیں گی۔حدیث پاک میں ہے:''ایک شخص نے دریافت کیا:قیامت کب آئے گی؟،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب امانت ضائع کردی جائے تو قیامت کا انتظار کرو ،سائل نے دریافت کیا:امانت کیسے ضائع کی جاتی ہے؟،آپ ﷺ نے فرمایا: جب (امت کی زمامِ اقتدار واختیار)نااہلوں کے سپرد کردی جائے ، تو قیامت کا انتظار کرو،(صحیح البخاری: 59)‘‘۔اسی کو قدرے تفصیل کے ساتھ حدیث مبارک میں آثارِ قیامت کے طور پر بھی بیان کیا گیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:''جب دولت کوذاتی جاگیر سمجھ لیا جائے، اورقومی امانتوں کومالِ غنیمت سمجھ کر لوٹا جائے ،اور زکوٰۃ کو تاوان سمجھ کر دینے سے انکار کردیا جائے ، اوردین کا علم دنیا کمانے کے لیے حاصل کیا جائے ،اور ایک شخص بیوی کا فرمانبردار بن جائے اور ماں کا نافرمان ہوجائے،اور ایک شخص دوست کو قریب رکھے اور باپ کو دور کردے، اور مسجدوں میں شور شرابا ہونے لگے ،اور بدکار شخص قبیلے(یا قوم)کا سردار بن جائے ،اور قوم کی زمامِ اقتدار واختیار کمینوں کے ہاتھ میں چلی جائے،اور معاشرے میں کسی شخص کی عزت محض اس لیے کی جائے کہ وہ لوگوں کو نقصان پہنچانے کی طاقت رکھتا ہو،اور گانے والوں اور آلاتِ لہوولعب کا دوردورہ ہوجائے ( یعنی ان پیشوں کے حامل لوگ معاشرے میںعزت وتکریم کے حقدار قرار پائیں)، اورشراب کے دور چلیں ،اور اس امت کے بعد والے دورِ اول والوں پر لعن طعن کریں، تو (ایسے حالات میں) سرخ ہوائوں کے چلنے اور زلزلے اور زمین میں دھنسائے جانے اور صورتوں کے بگاڑے جانے اور آسمان سے سنگ باری اور ایسی نشانیوں کا انتظار کرو جواس طرح پے در پے آئیں گی جیسے کسی تسبیح کی ڈوری ٹوٹ گئی ہو اور تسبیح کے دانے ایک ایک کر کے بکھر نے لگیں ،(سنن ترمذی:2211)‘‘۔ جب یہ ساری صورتیں جمع ہوجائیں گی تو یقینا قیامت کا منظر بپا ہوگا ،لیکن متفرق طور پر تو آئے دن ہم یہ نشانیاں کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ سو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اے اہلِ عقل وخِرد!(ان نشانیوں کو دیکھ کر) عبرت حاصل کرو،(الحشر:2)‘‘۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں