رمضانِ مبارک عظیم المرتبت مہینہ ہے، اس کی فضیلت اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اور رسول اللہ ﷺ نے احادیثِ مبارکہ میں بیان فرمائی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:(1) ''روزہ ڈھال ہے، سو جب تم میں سے کوئی روزے دار ہو تو نہ وہ کوئی بیہودہ بات کرے اور نہ ہی چیخے اور چلائے، اگر (زبردستی )کوئی اُس سے گالی گلوچ پہ اتر آئے، تو (عاجزی کے ساتھ )کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں، (بخاری: 1904)‘‘۔ (2) ''جب ماہِ رمضان کی پہلی شب آتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنّات جکڑ دیے جاتے ہیں۔ جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، اُن میں سے کوئی بھی دروازہ کھلا نہیں چھوڑا جاتا اور جنت کے (سارے) دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اُن میں سے کوئی بھی دروازہ بند نہیں رکھا جاتا اور ایک (غیبی) ندا دینے والا پکارتا ہے: اے نیکی کے طلب گار! آگے بڑھ اور اے بدی کے طلب گار! رُک جا اور اس ماہِ مبارک کی ہر رات اللہ تعالیٰ بڑی تعداد میں گناہ گاروں کی عذابِ جہنم سے رہائی مقدر فرماتا ہے اور یہ ندا ہر شبِ رمضان کو آتی ہے ،(ترمذی: 683)‘‘۔ (3) ''تمہارے پاس رمضان آچکا، جو مبارک مہینہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے فرض کیے ہیں، اس میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین کی گردنوں میں طوق پہنادیا جاتا ہے،اس میں ایک رات (کی عبادت ) ہزارمہینوں کی عبادت سے بہتر ہے (جن میں شبِ قدر نہ آئے)، سو جو اس میں خیر پانے سے محروم رہا، تو پھر وہ محروم ہی رہے گا، (سنن نسائی: 2106)‘‘۔(4)'' روزہ (عذابِ جہنم سے بچائو کے لیے ) ڈھال ہے،بشرطیکہ اسے پھاڑ نہ دیا جائے، سائل نے پوچھا: اس ڈھال میں شگاف کیسے پڑ جاتا ہے؟ ابومحمد نے جواب دیا:غیبت سے،(سنن دارمی:1773)‘‘۔
ان احادیثِ مبارکہ میں آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ماہِ رمضان میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ غیبی انتظام ہوتا ہے کہ شیاطین اور سرکش جنّات کو جکڑ دیا جاتا ہے تاکہ وہ اللہ کے بندوں کو گمراہ نہ کریں،نیکی پر چلنے اور ثواب کمانے کے لیے فضا اور ماحول کو سازگار بنا دیا جاتا ہے تاکہ نیک چلنی میں کوئی خارجی رکاوٹ نہ رہے۔ اگرچہ سال کے باقی مہینوں کے مقابلے میں مساجد زیادہ آباد ہوتی ہیں،لوگوں میں عبادت کا ذوق وشوق بڑھ جاتا ہے، بہت سے لوگ اپنی توفیق کے مطابق اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال بھی خرچ کرتے ہیں،لیکن بہت سی خرابیاں ہمارے معاشرے میں بدستور جاری رہتی ہیں مثلاً: مہنگائی،ناجائز منافع خوری،
جھوٹ،غیبت، بہتان تراشی،عیب جوئی،تمسخراور طعن وتشنیع وغیرہ ۔اسی طرح اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق میں بے اعتدالی کا سلسلہ بھی حسبِ معمول جاری وساری رہتا ہے۔پس ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رمضانِ مبارک ہمارے سر کے اوپر سے گزر جاتا ہے اور یہ ہمارے اندر داخل نہیں ہوپاتا، ہمارے دل ودماغ اور روح میں جذب نہیں ہوتا، اس لیے جو تبدیلی ربِ ذوالجلال کو اپنے بندوں میں اس ماہِ مبارک کی برکت سے مطلوب ہے،وہ نظر نہیں آتی اور جونہی ہلالِ عید طلوع ہوتا ہے، پہلے سے زیادہ آوارگی اور اخلاقی بے راہ روی کے مناظر نظر آتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''میری امت کو رمضان میں پانچ ایسی خصلتیں عطا کی گئی ہیں،جو اس سے پہلے کسی امت کو عطا نہیں کی گئیں، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ''رمضانِ مبارک کی آخری شب کو اللہ تعالیٰ میری امت کو بخش دیتا ہے،
صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ! کیا (بخشش کی یہ رات) لیلۃ القدر ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، لیکن محنت کرنے والا جب پوری محنت کرلے تو وہ پوری اجرت کا حق دار ہوجاتا ہے،(مسند احمد:7917)‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ رمضانِ مبارک کے عبادت گزاروں کو مہینے کے اختتام پر اجر سے نوازتا ہے اور اسی لیے عیدالفطر کی شب کو ''لیلۃ الجائزۃ‘‘ یعنی اجر و ثواب اور انعام کی رات کہاگیا ہے۔ لیکن کتنے لوگ ہیں جو بخشش کے لیے اور مہینے بھر کی عبادات کے لیے اجر کی امید پر اللہ تعالیٰ کے حضور رجوع کرتے ہیں۔
سو عقلِ عام کا سوال ہے کہ رمضان ہمارے سروں کے اوپر سے کیوں گزر جاتا ہے؟ ہمارے دل ودماغ، رگ وپے اور روح میں جذب کیوںنہیں ہوتا؟ کیونکہ اگر واقعی ایسا ہوا ہوتا تو ہمارا طرزِ زندگی اور انداز بدل جاتا، ہم اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار بندے بن جاتے، ہمارے دلوں میں خوفِ خدا پیدا ہوتا جو ہمیں اُس کی نافرمانی سے بچائے رکھتا،اسی کو تقوی ، کردار کی پاکیزگی اور پرہیزگاری کہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ ہماری رائے میں اس کا سبب یہ ہے کہ گناہ کے بیرونی محرِّکات (Incentives) تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بند کردیے جاتے ہیں یا کم کردیے جاتے ہیں، لیکن اگر ہم نے پہلے ہی شیطان کو اپنے دل میں بسا رکھا ہے اور اپنی خواہشات کو اُس کے تابع بنارکھا ہے، تو اندر کا چور تو کام کرتا رہے گا، تاوقتیکہ ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سچے دل سے توبہ کر کے شیطان اور اس کی ترغیبات کو اپنے دل سے نکال دیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی متعدی بیماری یا وائرس پھیل جائے تو حکومت اسپرے کر کے اس وائرس یا بیکٹیریا کو ختم کرتی ہے تاکہ لوگ اس بیماری کی زَد میں نہ آئیں ۔ لیکن اگر یہ وائرس یا بیکٹیریا کسی کے وجود میں داخل ہوچکا ہے تو وہ اندر سے نقصان پہنچاتا رہے گا۔
پس اللہ تعالیٰ نے ہمارے دل ودماغ، روح اور باطن کی صفائی کے لیے بھی ایسے ہی روحانی انتظامات فرما رکھے ہیں اور وہ ہے توبہ کرنا۔ صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور سنن ابودائود میں الفاظ کے فرق کے ساتھ ایک حدیث ہے، جس کا مفہوم یہ ہے: ''رسول اللہ ﷺ مسجدِ نبوی میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یارسول اللہ! میں نے ایک ایسا گناہ کیا ہے جس کے نتیجے میں، میں سخت سزا کا مستحق ہوں، سو آپ مجھ پر اللہ کی حد قائم فرمادیجئے۔ اُس نے عرض کی: میں نے ایک اجنبی عورت سے بوس وکنار کیا ہے اور مباشرت کے علاوہ ہر حد سے گزر گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُس سے کہا: اللہ نے تمہارے عیب پر پردہ ڈال رکھا تھا، تم بھی اپنے عیب کو پردے میں رکھتے تو بہتر ہوتا۔ رسول اللہ ﷺ نے اُسے فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر اقامت ہوئی، آپﷺ کی اقتدا میں جماعت اداکی گئی۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ اجنبی سائل کہاں ہے؟ وہ شخص کھڑا ہوا اور ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا ہے: ''دن کے دونوں کناروں پر اور رات کے کچھ حصے میں نماز ادا کرتے رہو، بے شک نیکیاں گناہوں (کے اثر)کو مٹاڈالتی ہیں،(ہود:114)‘‘۔ اس آیت کا منشا یہ ہے کہ نمازوں اور نیکیوں کی برکت سے اللہ تعالیٰ صغیرہ گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ اُس شخص نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! کیا یہ رعایت یا بشارت صرف میرے لیے ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میری تمام امت کے لیے ہے، (بخاری: 526، مسلم:2763، سنن ترمذی: 3112،سنن ابودائود: 4468، مسند احمد،ج:1،ص:445)‘‘۔ نوٹ: ہم نے یہ روایت بالمعنی بیان کی ہے کیونکہ کتبِ احادیث میں الفاظ کا تھوڑا بہت تفاوت ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''(میرے محبوب بندے ) وہ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے اورقتلِ ناحق نہیں کرتے اور زنا نہیں کرتے اور جو لوگ ان معصیتوں کا ارتکاب کریں تو قیامت کے دن ان کا عذاب دوگنا کردیا جائے گا اور وہ ذلیل و رسوا ہوکر ہمیشہ اس عذاب میں مبتلا رہے گا، سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے (سچے دل سے ) توبہ کی اور ایمان لائے اور (اس کے بعد ) نیکی پر قائم رہے،
سو (یہ) وہ (خوش نصیب) لوگ ہیں، جن کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے تبدیل فرمادے گا اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے اور جس نے توبہ کی اور اس کے بعد نیک کام کرتے رہے، تو در حقیقت یہی وہ اللہ تعالیٰ کے حضور صحیح توبہ کرنے والا ہے ،(الفرقان:68-71)‘‘۔
روایات میں ہے کہ سورۂ بقرہ کی آخری دو آیات اللہ تعالیٰ نے زمین پر بھی نازل فرمائیں اور معراج النبی ﷺ کے موقع پر آپ کو براہِ راست بھی وحی فرمائیں، خاص طور پر آخری آیت میں اہلِ ایمان کے لیے بڑی بشارت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنے بندے کو اپنی ذات سے مانگنے کی ترغیب فرمائی اور اس دعا کا مضمون بھی خود ہی عطا فرمادیا۔ اس میں بندے کی عاجزی اور بے بسی کا بھی اظہار ہے اور زندگی میں ناقابلِ برداشت احکام یا حالات سے بچائے رکھنے کی استدعا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات سے یہ بعید ہے کہ وہ خود بندے کو ایک خاص انداز میں اپنی ذات سے مانگنے کی ترغیب دے اور بندے کے صدق دل سے مانگنے پر قبول نہ فرمائے، یقیناً اللہ تعالیٰ بندے کی دعاکوقبول فرماتا ہے۔