گزشتہ دنوں چیف جسٹس آف پاکستان عزت مآب جسٹس انور ظہیر جمالی نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا:''قوانین کی بہتات نے صورتِ حال کو کنفیوژ اور نظامِ عدل کو پیچیدہ بنادیا ہے‘‘ ، اُن کی یہ بات سو فیصد درست ہے۔ اس کا جو مفہوم ہماری سمجھ میں آیا ،وہ یہ ہے کہ عدل وانصاف قوانین کے انبارتلے کہیں دب گیا ہے۔ حالانکہ اصل مسئلہ ایک ہی عنوان پر قوانین کی بہتات نہیں ہے ،بلکہ قوانین کا نفاذ ،قانون کی حکمرانی اور عدل وانصاف کی فراہمی ہے۔
ہمارے ہاں قتل اور خواتین پر جبر کے حوالے سے مختلف عنوانات کے ساتھ اتنے قوانین بنادیے گئے ہیں کہ انصاف کو ان قوانین کے جنگل اور جھاڑ جھنکار میں تلاش کرنا مشکل ہوگیا ہے۔دنیا میں کہیں بھی ان عنوانات کے تحت اتنی تعداد میں قوانین مرتب نہیں کیے گئے ۔ مثلاً قتل ایک جرم ہے ،اُس کی سنگینی اور سزا قرآنِ مجید میں صراحت کے ساتھ بیان کردی گئی ہے :(1)''اسی سبب ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس شخص نے جان کے بدلے (یعنی قصاص )اور زمین میں فساد برپا کرنے (کے جرم )کے بغیر کسی (بے قصور) جان کو قتل کیا، تو گویا اُس نے تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے کسی (بے قصور) شخص کی جان کو بچایا تو گویا اُس نے تمام انسانوں کو بچالیا ، (المائدہ32)‘‘۔(2)''اور ہم نے اُن پر (تورات میں )یہ فرض کیا تھا کہ جان کا بدلہ جان ، آنکھ کا بدلہ آنکھ ، ناک کا بدلہ ناک ، کان کا بدلہ کان ، دانت کا بدلہ دانت اور زخموں میں بھی قصاص (بدلہ )ہے ،(المائدہ: 43)‘‘۔ (3) ''اور اے عقل مند لوگو! تمہارے لیے خون کا بدلہ لینے میں زندگی ہے تاکہ تم (قتلِ ناحق سے) بچو، (البقرہ: 179)‘‘۔(4)''اور جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں(قتل وغارت اور لوٹ مار کے ذریعے) فساد برپا کرتے ہیں ،اُن کی یہی سزا ہے کہ اُن کو چُن چُن کر قتل کیا جائے یا اُن کو سولی دی جائے یا اُن کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پائوں کاٹ دیے جائیں یا اُن کو زمین سے اٹھا لیا جائے ، یہ اُن کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں اُن کے لیے بڑا عذاب ہے،(المائدہ:33)‘‘۔
الغرض قرآن وسنت اور فقہِ اسلامی کی رُو سے قتل اور فساد فی الارض کا حکم واضح ہے ۔ قتل ،خواہ کسی عنوان سے کیا جائے یا اُس کے لیے کوئی بھی صورت اختیار کی جائے ، اُس کے لیے حکمِ الٰہی ایک ہی ہے اور وہ ہے اسلام کا'' قانونِ قصاص ‘‘۔قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ایک بے قصور انسانی جان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل اور ایک بے قصور جان کے تحفظ کو پوری انسانیت کے حقِ حیات کے تحفظ سے تعبیر فرمایا ہے ۔ اس میں نفس یعنی جان کا مطلق ذکر فرمایا ہے اور مسلم و غیر مسلم کی تفریق بھی روا نہیں رکھی ۔البتہ جہاں قتل وغارت ، لوٹ مار اور آبروریزی الغرض تمام جرائم جمع ہوجائیں ،تو اُس کی سزا اللہ تعالیٰ نے سب سے سخت مقرر فرمائی ہے اور اسے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ اور اللہ کی زمین میں فساد برپا کرنے سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس کے لیے کئی قسم کی عبرت ناک سزائیں مقرر فرمائی ہیں تاکہ امن کے دشمن اور سنگین مجرم نشانِ عبرت بنیں اور انسانیت کو امان ملے ۔سو جرم کی سنگینی کے اعتبار سے کئی سزائیں جمع بھی کی جاسکتی ہیں۔
اگر آپ دنیا کے قوانین کا مطالعہ کریں تواُن میں بھی قتل ،قتل ہی ہے اور اُس کی سزا متعین ہے ، البتہ انہوں نے دہشت گردی کے لیے شہادتوں اور ثبوت کے معیارات میں تخفیف کردی ہے اور امریکا نے تو اپنے مُلک کی سرحدوں سے باہر ''گوانتاناموبے‘‘ کا عقوبت خانہ قائم کیا تاکہ وہاں پر امریکی قوانین کا اطلاق نہ ہوسکے اور ملزموں یامجرموں پر امریکی قوانین اور نظامِ عدل سے ماورا تشدد کیا جاسکے۔
اس کے برعکس ہمارے ملک میں جب سے خواتین کو،سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کے تناسب سے ،بالواسطہ انتخاب کے ذریعے بڑی تعداد میں پارلیمنٹ اور منتخب اداروں میں شامل کردیا گیا ہے اور این جی اوز کی بیگمات کا جمِ غفیر وجود میں آگیا ہے تو محض نمبرگیم اورنام ونمودکے لیے قوانین کا انبار لگ گیا ہے ۔ آئے دن مختلف عنوانات سے قوانین بنائے جاتے ہیں، کبھی غیرت کے نام پر قتل یا خواتین پر تیزاب پھینکنے یا مختلف طرح کے جبروتشدد کے عنوانات کے تحت الگ الگ قوانین بنائے گئے ہیں اور یہ سلسلہ ماشاء اللہ جاری وساری ہے ۔اسلام میں اور انسانی فلسفۂ قانون میں مرد اور عورت کی جان کی حیثیت یکساں ہے ، خواہ کسی بھی طریقے سے قتل کیا جائے یا کسی بھی نوع کا تشدد کیا جائے ، ظالم مرد ہو یا عورت ، قانون ایک ہی ہے اور وہ ہے ''قانونِ قصاص‘‘۔بلاشبہ خواتین تشدد کا نشانہ مردوں کی بہ نسبت زیادہ بنتی ہیں ، لیکن ہماری حالیہ تاریخ بتاتی ہے کہ جرائم میں عورتوں کا تناسب بھی بڑھ گیا ہے اور وہ کئی وارداتوں میں مردوں اور اپنے بچوں کے قتل کی سازش میں بھی شریک گردانی گئی ہیں۔یہ آزاد میڈیا کا فیضان ہے کہ اس کے ذریعے خوفناک جرائم پر مشتمل ڈرامے ،فلمیں اور کہانیاں عام کردی گئی ہیں ۔ایسے خوفناک مناظر ،جن کو دور ہی سے دیکھ کر لوگ آنکھیں بند کرلیتے تھے اور اپنا رُخ کسی اور جانب موڑ دیتے تھے ، الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے لوگوں کے لیے مانوس ہوگئے ہیں ۔ان خوفناک مناظر کو دیکھ کر مرد وں اور عورتوں ، بچوں ،جوانوں اور بوڑھوں کے ذہنوں سے ان کا خوف نکل گیا ہے اور انسانیت کے آزار واذیت کو ہمارے میڈیا نے لذتِ نظر میں بدل دیا ہے ۔
ان بیگمات کا تعلق زیادہ ترمعاشرے کے اعلیٰ طبقے یعنی اشرافیہ سے ہے ۔این جی اوز کی تعلیم یافتہ بیگمات اگرابتدا میں اشرافیہ سے تعلق نہ رکھتی ہوں،پھر بھی عالَمِ غیب کے فیضان سے یہ سفر ایک ہی جَست میں طے کرلیتی ہیں ۔۔جس لبرل ازم، آزاد روی اورآزاد خیالی کی منزل تک اہلِ مغرب نے اپنا سفر صدیوں اور دہائیوں میں طے کیا ہے ، وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایک پَل میں وہ سفر طے ہوجائے ،دنیا میں واہ واہ ہوجائے ، ہر طرف سے داد ملے ، این جی اوز پر سرمایا خرچ کرنے والی حکومتیں اور ادارے مطمئن ہوجائیں کہ اُن کا گوہرِ مقصود ہاتھ آگیا ہے ، لیکن یہ قوانین فیض رساں ثابت نہیں ہوتے اور معاشرے میں ظلم وستم اور بے انصافی کی صورتِ حال میں عملی اعتبار سے کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔اس کی مثال حال ہی میں صوبۂ پنجاب کا'' تحفظِ نسواں ایکٹ‘‘ ہے ،جس کی رُو سے خواتین کو یہ اجازت دی گئی کہ وہ اپنے زیادتی کرنے والے شوہر وں کو گھر بدر کرسکتی ہیں ، کوئی بتائے کہ قانون منظور ہونے سے اب تک کتنے شوہر گھروں سے کھدیڑے گئے ہیں ۔
مولانا محمد خان شیرانی کا دم غنیمت ہے کہ ہمارے میڈیا کی رونقوں کے لیے وقفے وقفے سے کوئی نہ کوئی موضوع تلاش کرتے رہتے ہیں ۔اسلامی نظریاتی کونسل نے صوبۂ پنجاب کے'' تحفظِ نسواں ایکٹ‘‘کو یکسر رد کرنے کے بعد اپنا مسودۂ قانون تیار کیا اور اُس میںعورتوں کے لیے تادیبی سزا کی گنجائش رکھی ۔اس پر میڈیا میں شور مچ گیا ، علامہ جاوید احمد غامدی بھی اس کی مخالفت میں میدان اترے ۔ بہتر تھا کہ وہ سورۃ النساء ،آیت: 34کے متعلقہ کلمات کا اپنے استاذ امام مولانا امین احسن اصلاحی کایا اپنا ترجمہ سنادیتے تو بات اتنی نہ بڑھتی ۔ مولانا امین احسن اصلاحی اس آیت کا ترجمہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:
''مر د عورتوں کے سرپرست ہیں، بوجہ اس کے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت بخشی ہے اور بوجہ اس کے کہ انہوں نے اپنے مال خرچ کیے ۔ پس جو نیک بیبیاں ہیں ،وہ فرمانبرداری کرنے والی ،رازوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں ،بوجہ اس کے کہ خدا نے بھی رازوں کی حفاظت فرمائی ہے ۔ اور جن سے تمہیں سرتابی کا اندیشہ ہو ،اُن کو نصیحت کرو اور اُن کو بستروں میں تنہا چھوڑ دو اور اُن کو سزا دو،(تدبرِ قرآن، ج: 2، ص:290، فاران فائونڈیشن، لاہور) ‘‘۔خود علامہ غامدی کا ترجمہ یہ ہے: ''(میاں اور بیوی کے تعلق میں بھی اسی اصول کے مطابق) مرد عورتوں کے سربراہ بنائے گئے ہیں ، اس لیے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت بخشی ہے اور اس لیے کہ انہوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں ۔پھر جو نیک عورتیں ہیں ، وہ (اپنے شوہروں کی) فرمانبردار ہوتی ہیں ،رازوں کی حفاظت کرتی ہیں، اس بناپر کہ اللہ نے بھی رازوں کی حفاظت کی ہے ۔اور (اسی اصول پر تم کو حق دیا گیا ہے کہ )جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو ،انہیں نصیحت کرو اور ان کے بستروں پر انہیں تنہا چھوڑ دواور (اس پر بھی نہ مانیں تو)انہیں سزا دو ، (البیان،ج:1،ص :490-91، ٹوپیکل پرنٹنگ پریس لاہور)‘‘۔سو ''فَاضْرِبُوْھُنَّ‘‘ کا ترجمہ دونوں حضرات نے ''سزا دینا ‘‘کیا ہے اورمارماڈیوک پکتھال نے اس لفظ کا ترجمہ ''and scourge them‘‘کیا ہے ،جس کا اردو میں سب سے نرم ترجمہ ''سزا دینا،تادیب کرنا‘‘کیا گیا ہے۔بہتر ہوگا کہ مولانا شیرانی علامہ غامدی کا ترجمہ لے لیں ،فرق کوئی نہیں پڑے گا۔اپنی اپنی قسمت ہے کہ مولانا شیرانی دقیانوسی کہلائیں اور علامہ غامدی لبرل ، مولانا مودودی نے بھی اس لفظ کا ترجمہ ''مارو‘‘کیا ہے۔ سو کیا فرماتی ہیں: ''این جی اوز کی بیگمات اور ہمارے لبرل اینکرپرسنز بیچ اس مسئلہ کے‘‘کیا وہ عَلانیہ قرآن کا انکار کرنے کی جسارت کرسکتے ہیں؟۔پس نظری اعتبار سے تو قرآن کا حکم موجود ہے، لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ حکومت کی ایڈوائس یارائے طلب کیے بغیراسلامی نظریاتی کونسل کا ان مسائل کو زیرِ بحث لانے کی حکمت کیا ہے۔