امریکہ اور اہلِ مغرب اس وقت مادّی ترقی، سائنسی و فنّی علوم، جدید ترین سامانِ حرب، سپر ٹیکنالوجی اور طاقت وَر معیشت کے سبب دنیا پر چونکہ غلبہ حاصل کیے ہوئے ہیں، اس لیے وہ اپنی تہذیب کو بھی دنیا پر مسلط کرنا چاہتے ہیں اور دنیا کے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کو اپنے زیرِ نگیں رکھنا چاہتے ہیں۔ خواہ یہ مُلک انتظامی اکائیوں کے طور پر آزاد رہیں لیکن اپنی خارجہ و اقتصادی پالیسیاں بنانے میں اُن کی ہدایات کے تابع رہیں۔ اگر کوئی اُن کی مرضی کے تابع رہ کر چلنے پر تیار نہ ہو، تو طرح طرح کی عالمی پابندیاں عائد کرکے اُس کا ناطقہ بند کر دیں گے اور تڑپا تڑپا کر اپنے قدموں پر جھکنے پر مجبور کریں گے۔ ہماری مجبوریاں تو سِوا ہیں، لیکن تیل اور گیس کی دولت سے مالامال ہونے کے باوجود آخرِکار ایران کو امریکہ اور اہلِ مغرب کے سامنے جھکنا پڑا، اُن کی من مانی شرائط قبول کرنا پڑیں، اس کے باوجود وہ یک دم ساری پابندیاں اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوئے، تاوقتیکہ انہیں سو فیصد یقین ہو جائے کہ یہ اب اچھے اور فرمانبردار بچوں کی طرح رہیں گے۔ یہی اس عہد کی حقیقت ہے، نوِشتۂ دیوار ہے، کوئی مانے یا نہ مانے آج کا سچ یہی ہے اور تاوقتیکہ یہ پسماندہ ممالک ترقی یافتہ اور خود کفیل بن جائیں یا کوئی برابر کی یا برتر سپر پاور امریکہ کی بالادستی کو سامنے آ کر چیلنج کرے، عملاًصورتِحال اُنیس بیس یا اٹھارہ بیس کے فرق کے ساتھ یہی رہے گی۔ طاقت کا جواب طاقت ہے، مجبوری کی شرافت نہیں ہے، سوا اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی غیبی فیصلہ صادر ہو جائے اور ماضی کے فرعونوں اور نمرودوں کی طرح آج کی سپر پاور کی بساط لپٹ جائے۔
دنیا کو مشکل یہ درپیش ہے کہ امریکہ کے قانون ساز مقامی مسائل پر انتخابات جیت کر آتے ہیں، اُن کا وژن محدود اور داخلی ترجیحات پر مبنی ہوتا ہے، لیکن ایوانِ اقتدار اور قانون ساز اداروں میں آ کر وہ اقوامِ عالَم کے لیے قوانین اور پالیسیاں بنانے میں لگ جاتے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ عالمی پالیسیوں کی تشکیل اور قانون سازی کے لیے امریکہ میں کوئی الگ فورم ہوتا، جہاں عالمی بصیرت کے حامل اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ منتخب ہو کر آتے، اُن کا وژن عالمی ہوتا اور وہ اقوامِ عالَم کے سیاسی و سماجی پسِ منظر اور ان کی جِبلِّی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہ ہوتے، مقامی زمینی حقائق اور اُن کی ترجیحات اور پسند و ناپسند کا انہیں علم ہوتا، تو شاید امریکہ کو اُس نفرت کا سامنا نہ کرنا پڑتا جس کا آج اُسے کرنا پڑ رہا ہے۔ امریکہ کی فکری محدودیت کا ایک آئینہ ڈونلڈ ٹرمپ کا ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار کی دوڑ میں سبقت حاصل کرنا ہے، انہوں نے مقامی نفرتوں اور عصبیتوں کو اندرونِ جماعت اپنی انتخابی مہم کا موضوع بنایا۔ ابتدا میں اِسے سرسری طور پر لیا گیا اور یہ سمجھا گیا کہ انہیں بڑے پیمانے پر پذیرائی نہیں ملے گی اور وہ ابتدائی مراحل میں ہی اپنی پارٹی کے صدارتی امیدوار کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے‘ لیکن اُن کی پَے در پَے اور مسلسل کامیابیوں نے سب کو حیرت زدہ کر دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ امریکہ اور مغرب کے ووٹر کی ترجیحات عالمی مسائل اور عالمی قیادت کے بجائے اپنے داخلی مسائل ہیں، جن میں ٹیکسیشن، روزگار، سوشل سکیورٹی اور اپنے کارپوریٹ سرمائے داروں کے عالمی مفادات کا تحفظ سرِفہرست ہیں۔ ریپبلکن پارٹی کو بڑے سرمایا داروں کے مفادات کا مُحافظ اور ترجمان سمجھا جاتا ہے اور فوکس ٹیلی ویژن بھی اسی فکر کا ترجمان ہے۔
حال ہی میں برطانیہ میں یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے ریفرنڈم ہوا، جسے مخفف کرکے Brexit یعنی برٹش ایگزیٹ کا نام دیا گیا، اخبارات نے Exit کا ترجمہ اِخراج کیا، لیکن صحیح ترجمہ خروج ہے، کیونکہ اِخراج تب درست ہوتا جب یورپی یونین کی جانب سے برطانیہ کو جبراً نکالا جاتا۔یورپی یونین سے خروج کے حق میں ریفرنڈم کے فیصلے نے نہ صرف دنیا کو بلکہ خود برطانیہ کو حیرت زدہ کر دیا اور برطانیہ میں داخلی تقسیم نمایاں ہوکر سامنے آئی، شمالی آئرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ کی اکثریت نے یورپی یونین کا حصہ رہنے کے حق میں اور انگلینڈ نے بحیثیتِ مجموعی اُسے خیرباد کہنے کے حق میں ووٹ دیا، اس سے ''برطانیۂ عظمیٰ‘‘ کے سمٹ کر انگلینڈ تک محدود رہنے کا موہوم خطرہ بہرحال موجود ہے۔ وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون‘ جو اپنی کنزرویٹو پارٹی کو گزشتہ انتخابات میں طویل عرصے کے بعد ایک ریکارڈ فتح دلا کر اقتدار میں آئے تھے، یورپی یونین میں شامل رہنے کے بارے میں اپنی قوم کو قائل نہ کر سکے اور انہیں استعفیٰ دینے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ اسی انجام کا سامنا برطانیہ کی لیبر پارٹی کے رہنما کو بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ اس ریفرنڈم کے نتائج کا تجزیہ کافی دیر تک ہوتا رہے گا اور اس کے اثرات باقی یورپ پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ ہماری رائے میں اس کا ایک سبب بڑی عمر کے انگریزوں کے ذہن میں اپنا تفوُّق اور ماضی کی عالمی سپر پاور رہنے کا خُمار ہے، کیونکہ یورپی یونین میں ضَم ہونے سے اُن کا تفرُّد و امتیاز یقینا متاثر ہو رہا تھا اور دوسرا سبب تارکینِ وطن کا ووٹ ہے کہ وہ یورپی یونین میں ضَم ہونا اپنے مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں۔ یورپی یونین کے بعض ممالک مثلاً پولینڈ وغیرہ سے آئے ہوئے پیشہ ورانہ مہارت کے حامل نسبتاً سستے محنت کَش طبقات نے بہت سے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع کو محدود کر دیا ہے۔ ایک سبب یہ بھی ہے کہ یورپی ممالک سے آئے ہوئے لوگوں کو تہذیب اور سفید فام ہونے کی قدرِ مشترک کے سبب معاشرے میں ضَم ہونے میں کوئی دِقّت پیش نہیں آتی، جبکہ ایشیا اور افریقا بالخصوص مسلم ممالک سے آئے ہوئے تارکینِ وطن کو اپنی تہذیب و ثقافت اور تفرُّد کے بارے میں کافی حساسیت رہتی ہے۔
گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے بیرونِ ملک بالخصوص برطانیہ و امریکہ جانے کے مواقع ملے، تو کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ وہاں کے سماج اور لوگوں کے جبلّی رجحانات کا براہِ راست مشاہدہ کیا جائے، تبادلہ ٔ خیال کیا جائے تاکہ معروضی انداز میں حقائق کو سمجھنے کا موقع ملے، کیونکہ کتابی معلومات بہرحال موضوعی ہوتی ہیں اور اُن میں صاحبِ کتاب کی اپنی ترجیحات، پسند و ناپسند اور تعصبات کا کافی دخل ہوتا ہے، انسانی جبلّت کے لیے اپنی ذات، ماحول اور سماج سے بالاتر ہونا اتنا آسان نہیں ہوتا؛ چنانچہ فارسی کا مقولہ ہے: ''شنیدہ کے بود مانند دیدہ‘‘ یعنی سنی سنائی بات براہ راست مشاہدے کا درجہ نہیں پا سکتی۔ یہ تو معلوم ہے کہ اگرچہ اعداد و شمار کے اعتبار سے امریکی معیشت کا حجم (Size) دنیا میں سب سے بڑا ہے، لیکن اُس کی حقیقی امکانی استعداد (Potential) کیا ہے؟، یہ میرے لیے ہمیشہ اہمیت کا موضوع رہا ہے، کیونکہ ایک عرصے سے امریکہ کا بین الاقوامی تجارت میں توازنِ ادائیگی اُس کے حق میں نہیں ہے، بجٹ خسارے کا بھی اُسے سامنا رہتا ہے، ریاست مقروض بھی رہتی ہے، اور بے روزگاری اور سوشل سکیورٹی کے مسائل بھی وہاں کافی اہم ہیں۔ کینیڈا اور سکنڈے نیوین ممالک کی طرح مفت علاج کی سہولت ہر شہری کو دستیاب نہیں ہے، ہیلتھ انشورنس کا مسئلہ کافی اہم ہے اور علاج بہت مہنگا ہے۔ صدر اوباما اپنی صدارت کے دو دورانیے 20 جنوری 2017ء کو مکمل کرنے والے ہیں، لیکن تارکینِ وطن اور پسماندہ طبقات سے وہ اپنے بہت سے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ امریکی عوام نے سیاہ فام صدر کا تجربہ تو کیا، لیکن کانگریس نے ان کے ہاتھ پائوں باندھے رکھے اور وہ اپنے عوام کے سامنے پوری طرح سرخرو نہیں ہو پائے۔ امریکی معیشت دنیا کی معدنی دولت تیل، گیس وغیرہ سے مالامال ممالک کے امریکی بینکوں میں موجود مالی ذخیروں (Reserves ) سے بھی استفادہ کر رہی ہے اور جب چاہے انہیں ضبط بھی کر لیتی ہے، ایران کی مثال پوری دنیا کے سامنے ہے کہ 1979ء کے انقلابِ ایران کے بعد سے اب تک اُن کے محفوظ مالی ذخائر ایٹمی پابندیوں پر مشتمل معاہدے کے باوجود پوری طرح واگزار نہیں ہوئے۔ امریکی مارکیٹ کے گودام چین کے اشیائے صَرف سے بھرے پڑے ہیں، چین کی معیشت کا کافی انحصار امریکہ اور یورپ کی مارکیٹ پر ہے، لہٰذا چین پوری طرح امریکہ کے مقابل کھڑے ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور نہ ہی سپر ٹیکنالوجی میں امریکہ کے مقابل ہے، اس شعبے میں پوری دنیا حتیٰ کہ یورپی ممالک بھی امریکہ سے بہت پیچھے ہیں۔
نائن الیون کے بعد امریکہ میں تمام انٹیلی جنس اداروں میں مرکزیت قائم کرکے ہوم لینڈ سکیورٹی کا ادارہ بنایا گیا۔ یہ ادارہ اصولی طور پر تو داخلی تحفظ کے لیے بنایا گیا، لیکن اس نے بُہتوں کے ذہنوں میں عدمِ تحفظ کا ایک انجانا خوف بھی پیدا کر دیا ہے کہ کسی کو بھی مشکوک سمجھ کر سکیورٹی کے ادارے ہاتھ ڈال دیں تو اُس کی گلوخلاصی آسان نہیں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی تقاریر سے امریکیوں کا یہ خوف، بالادستی کا عُجب و استکبار اور مسلمانوں سمیت دوسری اقوام پر عدمِ اعتماد بالکل واضح ہے اور اس فکر کو ایک درجہ قبولیت مل چکی ہے۔ اس فکر کا نچوڑ یہ ہے کہ امریکہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے اور ہر حد عبور کر سکتا ہے، اُس کے سامنے روایات و اقدار، انسانی حقوق اور قانون ثانوی چیزیں ہیں۔
امریکہ میں کانگریس خصوصاً سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کا نظام بہت مضبوط ہے۔ کیپٹل ہل میں کانگریس مین کے دفاتر ہیں اور انہیں مختلف شعبوں اور خطوں کے لیے ماہرین کی خدمات بھی دستیاب ہوتی ہیں، لیکن دوسروں کی دانش پر انحصار ذاتی علم کا متبادل نہیں ہو سکتا، کیونکہ ہمارے خطے کے حوالے سے ان میں مختلف ممالک اور خاص طور پر انڈیا کے لوگ ہوتے ہیں اور ان کے لیے اپنے پس منظر اور عصبیتوں سے بالاتر ہو کر سو فیصد امریکی مفاد میں مشورہ دینا دشوار امر ہے۔ پس امریکہ دنیا سے پریشان ہے اور دنیا اُس سے پریشان ہے، اس کا حل ابھی تک وہاں کے اہلِ دانش پیش نہیں کر سکے۔