سینئر کالم نگار جناب عطاء الحق قاسمی نے اپنے پیر، 11جولائی 2016ء کے کالم کے آخر میں ''پسِ نوشت‘‘ کے عنوان سے مندرجہ ذیل سطور لکھیں:
''ایک اخباری اطلاع کے مطابق مفتی منیب الرحمن سے ایدھی صاحب کی نماز جنازہ پڑھانے کی درخواست کی گئی تھی، مگر انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ شہر سے باہر ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘۔ اس پر مجھے دکھ ہوا اور ذہنی اذیت پہنچی۔ میں ایک عرصے سے نوٹ کر رہا ہوں کہ بڑے معتبر اہلِ قلم بھی ہوائی باتوں پر اپنی رائے قائم کرتے ہیں اور برملا اس کا اظہار بھی کر دیتے ہیں۔ میں کراچی سے8 جولائی کو سہ پہر چار بجے کی فلائٹ سے شام چھ بجے اسلام آباد پہنچا اور وہاں سے کار کے ذریعے رات ایک بجے ایبٹ آباد پہنچا، مجھے اپنے ایک عزیز کی صاحبزادی کی شادی میں شرکت کرنا تھی۔ عام دنوں میں اسلام آباد سے ایبٹ آباد کی مسافت زیادہ سے زیادہ تین گھنٹوں میں طے ہوجاتی ہے۔ لیکن کاغان، ناران اور شمالی علاقہ جات کی طرف سیاحوں کے بے پناہ رش کی وجہ سے بعض صورتوں میں لوگوں نے ایبٹ آباد تا مانسہرہ سولہ کلومیٹر کا فاصلہ سات گھنٹوں یا اس سے بھی زیادہ وقت میں طے کیا۔ مجھے 9 جولائی کی صبح جناب اعجاز احمد خان کمشنر کراچی، جناب محمد حنیف حاجی طیب اور جناب شاہ اویس نورانی کا پیغام آیا کہ جناب فیصل ایدھی نے خواہش ظاہر کی ہے کہ میں اُن کے والد کی نمازِ جنازہ پڑھائوں۔ میں نے جناب فیصل ایدھی کا شکریہ ادا کیا اور عرض کی: ''میں ایبٹ آباد میں ہوں اور میرے لیے ڈیڑھ بجے دن تک کراچی پہنچنا عملاً ممکن نہیں ہے‘‘۔ صبح سے لے کر شام تک میں تمام ٹیلی ویژن چینلز پر جنابِ عبدالستار ایدھی کی انسانی خدمات کے حوالے سے مثبت انداز میں اپنے تاثرات بیان کرتا رہا اور اس میںSIUT والے جناب ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی انسانی خدمات کا بھی تذکرہ کرتا رہا۔
بعض چینلز نے میرے اعتذار کو صحیح انداز میں بیان کیا اور بعض نے حد کردی۔ مجھے بتایا گیا کہ ایک نیوز چینل (دنیا نیوز نہیں) نے ٹِکر چلایا: ''مفتی منیب الرحمن نے جنابِ عبدالستار ایدھی کا جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا ہے‘‘۔کیا یہ انداز صحافتی دیانت اور ذمے داری کے شایانِ شان ہے، اس انداز سے کسی بھی شخص پر عوام کے اعتماد کو مجروح کیا جاسکتا ہے اور یہ دکھ کی بات ہے۔ بعض چینلوں نے پوری بات بیان کی، میں ان کا شکر گزار ہوں۔ ایک دوسرے ٹیلی ویژن کے نمائندے نے ایبٹ آباد میں مجھ سے رابطہ کیا اور آن کیمرا بھی میرے تاثرات لیے۔ پھر سوشل میڈیا پر انتہائی منفی انداز میں میری طرف منسوب کر کے جعلی بیان جاری کیا گیا اور اس میں ایک روزنامہ کے رپورٹر کا حوالہ تھا، حالانکہ میری کسی اخباری رپورٹر سے کوئی بات نہیں ہوئی، اسی کے لیے مجھے 12جولائی کو سوشل میڈیا پر تردید اور وضاحت کے لیے اخباری بیان بھی جاری کرنا پڑا ۔سو جنابِ عطاء الحق قاسمی کے تبصرے ''انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ کے جواب میں اگر میں ''لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم‘‘ پڑھوں تو بے جا نہ ہوگا۔
اسی طرح گزشتہ سال کراچی کے سیاسی کارکن طارق محبوب صاحب گرفتاری کے دوران جاں بحق ہوگئے، اس پر ہمارے ایک محترم سینئر کالم نگار نے لکھا کہ ''ایک ارب سالانہ بھتا لیتا تھا، بعد میں اس رقم کو بڑھا کر دو ارب کردیا گیا‘‘۔ اتفاق سے میں جناب انیق احمد کے ساتھ لاہور گیا ہوا تھا اور ہمارے کرم فرما اور سینئر صحافی جناب مجیب الرحمن شامی نے ناشتے کا اہتمام کیا اور اس موقعے پر کئی اینکرز اور موَقَّرکالم نگاروں سے ملاقات اور تبادلۂ خیال کا موقع فراہم کیا، اس پر میں ان کا شکر گزار ہوں۔ ہمارے بیشتر سینئر کالم نگار لاہور اور اسلام آباد میں قیام پذیر ہیں، اس لیے خواہش ہوتی ہے کہ کبھی ان حضرات سے ملاقات ہو اور ان کی دانش سے ہم بھی کچھ سیکھیں۔ ویسے یہ بھی ہم سے سیکھ سکتے ہیں،کیونکہ ایک دانا کا قول ہے: ''میں نے دانش اور عقل مندی احمقوں سے سیکھی ہے‘‘، کیونکہ احمق جو حماقت پر مبنی باتیں کرتے ہیں، اُن سے بچ کر رہنے والا عاقل کہلانے کا حق دار ہوجاتا ہے۔ میں نے اس مجلس میں کہا کہ آپ کسی کے بارے میں بھی اپنا تبصرہ کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں، لیکن اگر کوئی خبر آپ تک پہنچے تو بہتر ہے کہ متبادل ذرائع سے اس کی تصدیق کرلیا کریں۔ اتفاقاً اسی شام ایئر پورٹ پر مذکورہ سینیئر صحافی سے ڈیپارچرلائونج میں ملاقات ہوگئی، میں سلام کر کے اُن کے قریب بیٹھ گیا، وہ اپنی کسی تحریر کی نوک پلک درست کرنے میں مصروف رہے، مجھے صرف اتنا کہا: ''آپ کی بات مجھ تک پہنچ گئی ہے اور میں اس کی تحقیق کروں گا‘‘۔ مجھے ان کی خبر کا ماخذ بھی معلوم ہے۔
میرا طارق محبوب مرحوم سے کبھی بھی ذہنی قربت اور باہمی پسندیدگی کا تعلق نہیں رہا، بس اتنا ہے کہ وہ بھی اہلِ سنت کے میدان میں اپنی سیاست چمکانے اور میڈیا کا شوق پورا کرتے تھے اور ہمارا تعلق بھی اہلِ سنت سے ہے اور یہ کہ میرا اہل سنت کے تمام سیاسی ودینی اکابر سے ہمیشہ باہمی احترام کا تعلق رہا ہے، لیکن میں نے عملی سیاست میں کبھی حصہ نہیں لیا،البتہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی رحمہ اللہ تعالیٰ سے نظریاتی قربت کا تعلق ضرور رہا ہے۔ میرا موقف قرآنِ مجید کی یہ آیت ہے: ''اے ایمان والو! اللہ کے لیے (حق پر ) مضبوطی سے قائم رہنے والے ہو جائو درآنحالیکہ تم انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے ہو، اور کسی قوم کی عداوت تمہیں ناانصافی پر نہ ابھارے، تم عدل کرتے رہو، یہی شعار تقوے کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ تمہارے کاموں کی بہت خبر رکھنے والا ہے،(المائدہ:8)‘‘۔ طارق محبوب مرحوم بلاک نمبر16، فیڈرل بی ایریا کے رہنے والے تھے، جو ہمارے دارالعلوم سے زیادہ سے زیادہ
ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور میں نے اس علاقے میں اپنی شعوری زندگی کے اکیاون سال گزارے ہیں۔ وہ غیر شادی شدہ تھے، شوگر کے مریض تھے اور اپنے بھائی کے ایک سو بیس گز کے مکان میں ایک کمرا اُن کی پوری کائنات تھی، بس پولیس کے درمیانی سطح کے افسران سے تعلق تھا، اس کی وجہ سے کسی کی تھوڑی بہت سفارش کر کے اپنا محدود سا حلقہ بنا رکھا تھا اور مجھے بااعتماد لوگوں نے بتایا تھا کہ کسی تقریب میں شرکت کرنے کے لیے وہ کسی'' رینٹ اے کار‘‘ والے سے مانگ کر گاڑی لیتے تھے اور وہ کہیں پھنس جاتے تو پولیس سے اُن کی جان چھڑالیتے تھے۔ ہمارے کراچی کے چند ائمہ وخطباء اور کچھ بنگلہ دیشی و برمی لوگ اُن کی رعایا تھی، جنہیں ضرورت پڑنے پر جمع کر لیتے تھے اور چند نعرے لگوالیتے تھے،کچھ لوگوں سے چندے لے کر رمضان میں سو ڈیڑھ سو آدمیوں کو آٹے، چاول، دال وغیرہ کے پیکٹ تقسیم کردیتے تھے۔ ایک بار مجھے بھی بلایا، اس کے بعد ہمیشہ بلاتے رہے، لیکن میں نے ہمیشہ معذرت کی کیونکہ میرے نزدیک بھتا یا جبر ودبائو سے لوگوں سے رقم لے کر بانٹنا، خواہ وہ کم ہو یا زیادہ، اور اس پر اجر کی توقع رکھنا شرعاً حرام اور ناجائز ہے، اس لیے میں اجتناب کرتا رہا۔ لیکن دو ارب روپے کا اگر ایک فیصد نکالا جائے تو سالانہ دو کروڑ روپے بنتے ہیں اور اعشاریہ پانچ فیصد نکالا جائے تو سالانہ ایک کروڑ روپیہ بنتا ہے، جس کی ماہانہ اوسط بالترتیب سوا آٹھ یا ساڑھے سولہ لاکھ روپے بنتی ہے، ان کا رہن سہن اتنی رقم سے بھی مناسبت نہیں رکھتا تھا۔ یہ سطور لکھتے وقت ہمارے کچھ واقفِ حال دوست بیٹھے ہوئے ہیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ وہ ایک ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے ہوںگے،کیونکہ ان کا باقاعدہ کوئی روزگار نہیں تھا۔
لہٰذا میری الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے اکابر سے گزارش ہے کہ کسی شخص کے بارے میں رائے دینی ہو اور وہ بقیدِ حیات ہے، تو اس سے رابطہ ضرور کرلیا کریں، اس کی وضاحت یا موقف سے آپ مطمئن ہوں یا نہ ہوں، اتمامِ حجت کرنا آپ کی اخلاقی ذمے داری ہے۔ اسی طرح کسی شخص نے کوئی بات کہی ہے تو اس کو توجہ سے سننے میں کوئی حرج نہیں ہے، اُسے قابلِ اعتباریا ساقط الاعتبار سمجھنا آپ کا حق ہے۔ یہ سطور برائے توجہ میں نے تمام تر آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے ''گزارشِ احوالِ واقعی‘‘کے جذبے سے لکھی ہیں، پھر بھی اگر کسی کو ناگوار گزرے تو لِلّٰہ !مجھے معاف فرمادیجیے، میرا طویل مباحثہ کرنے کا قطعاً کوئی ارادہ نہیں ہے۔